Maulana Fazlur-Rehman and the military establishment’s new game – by Nazir Naji

Related article:

JUI breakup: Evading North Waziristan Operation – by Faruq Adil

بات وزارت عظمیٰ کی ہے
سویرے سویرے…نذیر ناجی

جب جنگ میں دو متوازی سوچیں چل رہی ہیں‘ تو سیاسی عمل اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟

یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کے سٹریٹجک پالیسی سازوں میں دو سوچیں پائی جاتی ہیں۔

ایک یہ کہ طالبان کو اثاثے تصور کرتے ہوئے‘ ان کے خلاف موثر کارروائی سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اتحادیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار کی جو کشمکش شروع ہو گی‘ اس میں پاکستان کا حامی فریق یہی طالبان ہوں گے جبکہ غیرپختون نسلی گروہ جو کرزئی انتظامیہ پر غالب ہیں‘ وہ پاکستان مخالف رویہ اختیار کریں گے اور ہمیں ان کے ساتھ طالبان کی مدد درکار ہو گی۔پالیسی سازی کے عمل میں یہ سوچ رکھنے والے کافی موثر ہیں۔

دوسری سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے معاملات سے جلد از جلد اپنا پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔ طالبان سے دشمنی مول لینا یا ان سے برسرپیکار ہونا کسی بھی طرح ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ ہم چاہیں بھی تو طالبان کی مدد سے افغانستان میں اپنے زیراثر حکومت قائم نہیں کر سکتے۔ جب وہ ہماری مکمل مدد کے ساتھ اقتدار پر قابض تھے‘ انہوں نے اس وقت بھی پاکستان کے جائز قومی مطالبات پر کان نہیں دھرا تھا۔ وہ چاہتے تو بطور ایک موثر حکومت ڈیورنڈ لائن کا معاملہ طے کر سکتے تھے تاکہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف یا ٹکراؤ کی کوئی بنیاد باقی نہ رہے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب وہ صرف پاکستان کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اپنی خودمختار جنگی مشینری تیار کر چکے ہیں۔ اپنے وسائل پیدا کر چکے ہیں۔ اپنی طاقت پاکستان کی مدد کے بغیر منظم کر چکے ہیں۔ اب یہ سوچنا کہ وہ افغانستان کے اندر اقتدار کی کشمکش میں کامیاب ہو کر پاکستان کے آلہ کار بن جائیں گے‘ احمقوں کی جنگ میں رہنے کے مترادف ہے۔ وہ اپنے تصورات کے ساتھ‘ اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان سے متصادم بھی ہوں۔

یہی دو متوازی سوچیں پاکستانی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ طالبان کو پاکستانی اثاثے سمجھنے والے عناصر موجودہ حکومت اور جمہوریت ‘ دونوں پر خوش نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت امریکی دباؤ کے زیراثر‘ پاکستان کو طالبان کے ساتھ تصادم کے راستے پر لے جا رہی ہے۔ ان کی رائے میں اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان زیادہ مشکلات سے دوچار ہو گا۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اتحادیوں کو افغانستان میں مکمل شکست ہو چکی ہے۔ وہاں سے بیرونی افواج کو واپس جانا ہو گا۔ کرزئی حکومت طالبان کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔ آخرکار افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو گا۔ اگر آج ہم ان کے مدد گار وبنتے ہیں‘ تو کل وہ افغانستان میں برسراقتدار آکر ہمارے اشاروں پر چلیں گے اور سٹریٹجک گہرائی کا جو خواب ہمارے چند نابغہ روزگار عسکری مفکروں نے دیکھ رکھا ہے‘ وہ پورا ہو جائے گا۔

اس حکمت عملی کی روشنی میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو غیرموثر یا محروم اقتدار کرنا ضروری ہے۔ فطری بات ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے جب سیاسی نظام پر پہلی ضرب لگائیں گے‘ تو تیشہ کس کے ہاتھ میں ہو گا؟ بغیر کسی تردد کے ہر سیاسی کارکن کی نظریں مولانا فضل الرحمن کی طرف اٹھیں گی اور یہ بالکل درست ہو گا۔ پارلیمنٹ کے اندر مولانا ہی واحد شخصیت ہیں‘ جو ایسی سوچ رکھنے والوں کے کام آ سکتے ہیں۔

توقع کے عین مطابق وہی آگے بڑھے اور وہ سیاسی طاقت منظم کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی‘ جو سٹریٹجک گہرائی والوں کے مقاصد کی تکمیل میں مددگار ہو سکتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت پر پہلی ضرب لگا دی ہے۔ یہ سوچنا کہ اب وہ وزارتوں پر مان جائیں گے‘ آنے والے حالات سے بے خبری ہے۔ اب مولانا کے سامنے صرف وزارتیں نہیں‘ وزارت عظمیٰ ہو گی۔ یوں بھی پاکستان کے مذہبی سیاستدان اچھی طرح جان چکے ہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کے ووٹ لے کر کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ انہیں ہمیشہ جزوی نشستیں ملیں گی اور جوڑتوڑ کر کے جو چند وزارتیں دستیاب ہوں گی‘ انہی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ مگر ان کی اقتدار کی بھوک‘ ان کی طاقت اور پیٹ کے سائز دونوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ مولانا گزشتہ اسمبلی میں بھی صرف تین درجن نمائندوں کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن بیٹھے تھے اور وہ آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے کچھ دوست ان سے آنکھیں نہ پھیرتے‘ تو وزارت عظمیٰ ان کے رومال میں آ چکی تھی۔

اب تو وکی لیکس نے بھی بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ مولانا اسمبلی کے اندر ہی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے جتن نہیں کر رہے تھے‘ انہوں نے امریکیوں کی مدد بھی مانگ لی تھی۔ وزیراعظم بننے کا خبط اگر ایک بار کسی کے ذہن پر سوار ہو جائے‘ تو پھر اترتا نہیں ہے۔ اس پہ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ مولانا کی منزل وزارت عظمیٰ ہے۔ جمہوری نظام میں وہ سات نشستوں کے ساتھ وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ لیکن آمریت میں میرظفر اللہ جمالی ایک نشست کے ساتھ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ یہی راستہ مولانا کی خواہشات کو منزل پر لے جا سکتا ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں‘ اس راستے پر چل کر کامیابی کی منزل حاصل کرنا ممکن نظر آتا ہے۔ میں نے جن عناصر کی بات کی ہے‘ وہ متحرک بھی ہیں‘ منظم بھی اور موثر بھی۔ ان میں سٹریٹجک پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کافی طاقت ہے۔ جب امریکہ سے مکمل بغاوت کے بعد طالبان کو اتحادی بناکر افغان جنگ میں فریق بننے کا فیصلہ ہو گا‘ تو اس وقت پاکستان میں ایسی حکومت کا وجود ضروری ہے‘ جو اس پالیسی کو اختیار کر کے زیرعمل لا سکے۔

فوجی آمروں نے مسلسل تجربات کے بعد مذہبی سیاسی جماعتوں کو استعمال کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ اگر پرویزمشرف کی نجی سوچیں اور سٹائل آڑے نہ آتے‘ تو متحدہ مجلس عمل کو اقتدار کے لئے تیار کیا جا سکتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن یونہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں بنے تھے‘ ان کے پیچھے ایسی طاقتیں موجود تھیں‘ جو پاکستان کو مذہبی ریاست بنا کر‘ ایٹمی طاقت کے ذریعے دنیا پر غلبہ پانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ پرویزمشرف ذاتی رحجانات کی وجہ سے اس فکر کے حامی نہ بن سکے۔ درحقیقت وہ کسی بھی فکر پر قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کے اقتدار کی ضروریات الگ تھیں۔ انہیں طاقت مہیا کرنے والے مراکز کے اہداف علیحدہ تھے۔ ان کا تصور زندگی مختلف تھا۔ انہیں اقتدار میں لانے والوں کا تصور زندگی الگ تھا۔ وہ فکری لحاظ سے ہمیشہ تذبذب میں رہے۔ نہ پورے سیکولر بنے‘ نہ مذہبی‘ نہ جمہوری بنے‘ نہ آمر۔ وہ جو کچھ بھی بنے آدھے بنے اور زندگی کے معاملات کو چلانا آدھے آدمیوں کا کام نہیں ہوتا۔

اس موضوع پر بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آگے چل کر ان معاملات کو دیگر زاویوں سے بھی دیکھیں گے۔ فی الحال تو مولانا فضل الرحمن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب وہ جلد ہی اتحاد بین المسلمین کے لیڈر بن کر میدان میں اتریں گے۔ باقی سارے مذہبی گروپوں کو اشارے آ چکے ہوں گے کہ وہ مولانا کو سیاسی طاقت مہیا کرنے کے لئے ان کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔مولانا سیاسی اور علاقائی بنیادوں پر جوڑ توڑ سے بھی نہیں کتراتے۔ وہ اپنی اس اہلیت کا استعمال بھی کریں گے اور اگر انہیں آگے کرنے والوں کو اپنے منصوبے پورے کرنے کے لئے سازگار فضا ملتی گئی‘ تو مڈٹرم الیکشن میں کسی متحدہ مجلس عمل ٹائپ کے اتحاد کو اتنی طاقت دی جا سکتی ہے کہ وہ گٹھ جوڑ کر کے اقتدار پر قابض ہو جائے۔ ظاہر ہے ایسی حکومت کی سربراہی کے خواب دیکھنے کا سب سے زیادہ حق مولانا فضل الرحمن کو ہے۔

Source: Jang, 22 Dec 2010

fazloo

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Antique Slot Machines for sale in USA
    -