طاہر اشرفی کا ” اصلی “پروفائل – عامر حسینی

tahir ashrafid8aadaa9d981db8cd8b1db8c-d8a7d8b3d9b9d8a8d984d8b4d985d986d9b9

پاکستان علماء کونسل کے چئیرمین مولانا طاہر اشرفی کا ایک پروفائل ” ایل یو بی پی ” بلاگ پر شایع ہوا ہے اور جب یہ پروفائل شایع ہوا تو مجھے جامعہ اشرفیہ لاہور سے فارغ التحصیل ایک دیوبندی عالم دوست نے فون کیا اور بتایا کہ اس پروفائل کو مرتب کرنے والے شخص نے کافی کرونیکل غلطیاں کی ہیں اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پروفائل جلد بازی میں تیار کیا گیا اور اس میں تفصیل سے تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، مرے دوست نے کہا کہ 1982ء میں ” حرکۃ الجہاد الاسلامی ” کا وجود ہی نہیں تھا اور اس لئے مولانا طاہر اشرفی کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ وہ اس سال حرکۃ الجہاد الاسلامی کے تربیتی کیمپ میں جہادی تربیت کے لئے گئے تھے

مرے دیوبندی عالم دوست اس وقت خود بھی پاکستان علماء کونسل سے وابستہ ہیں اور مجھے یہ بھی بخوبی معلوم ہے کہ وہ ماضی میں ” انجمن سپاہ صحابہ پاکستان ” کے سرگرم کارکن رہے اور اس کے صف اول کے شعلہ بیان مقررین میں شمار ہوا کرتے تھے اور ان کی شعلہ بیانی آج بھی قائم ہے ، یمن کی جنگ ، شام کی خانہ جنگی پر انہوں نے ” ایران اور شیعہ کریسنٹ کے پھیلاؤ اور توسیع پسندی ” سے ” سنّی اسلام ” کو لاحق خطرات پر دیوبندی مدارس میں طلباء کو جو آگ لگادینے والے خطبات کئے ان کی تفصیل مجھ تک پہنچتی رہی ہے اور اس ضمن میں انہوں نے ” سعودی عرب ” کو ” سنّی اسلام اور سنّی آبادی ” کی واحد امید کی کرن جس طرح سے ثابت کیا اس کا بھی مجھے بخوبی پتہ ہے

لیکن انہوں نے جس طرح سے طاہر اشرفی کے جہادی ماضی کی تفاصیل کو سامنے لائے جانے کی اس کوشش میں کرانیکل غلطی کی نشاندھی کی ، اس سے میں کچھ مشکوک ہو گیا اور میں نے اپنے زرایع سے اس سارے معاملے کی از سر نو تحقیق و تفتیش کرنے کی ٹھان لی

مرے ایک دوست جو کہ کسی زمانے میں ” افغان جہاد ” کے بڑے سرگرم مجاہد تھے اور وہ جامعہ بنوریہ العالمی کراچی کے ان پہلے طالب علموں ميں شامل تھے جو افغانستان میں جہاد کرنے پہنچے تھے سے میں نے رابطہ کیا ، کیونکہ وہ مجھے 80ء سے 82ء تک کی اولین جہادی کوششوں بارے بہت ہی تفصیل سے مستند طریقے سے بتاسکتے تھے اور یہ دوست بعد ازاں اس ” جہاد ” کے امریکی پروجیکٹ ہونے کی تمام تر جزئیات سے واقف ہونے کے بعد ” دائیں بازو کی فلاسفی ” سے ہی منحرف ہوگئے تھے اور آج کل یہ ایک گوشہ نشین کی حثیت سے زندگی گزار رہے ہیں ، انہوں نے بڑے ڈرامائی انداز میں مجھے بتایا کہ
ہم چند طالب علم تھے اور چند فارغ التحصیل علماء جن کی ایک میٹنگ استاد الاساتذہ قبلہ مفتی نظام الدین شامزئی نے اپنے کمرے میں طلب کی تھی

اور یہ جنوری ،1980ء کا زمانہ تھا اور اس موقعہ پر مفتی نظام الدین شامزئی نے ہمیں افغانستان میں سوویت یونین کی ملحد کمیونسٹ فوجوں کی یلغار اور وہاں پر اسلام کو لاحق خطرات کا زکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان مسلمانوں اور اسلام کو دھریت اور الحاد کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے برسر پیکار افغان مجاہدین کا ساتھ دینا انتہائی ضروری ہے اور اس کے لئے انہوں نے ایک تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو افغانستان جاکر ” جہاد ” میں حصّہ لے گی اور اس موقعہ پر جن لوگوں نے نئی تنظیم کے قیام اور اس کے لئے بھرتی کی زمہ داری اٹھائی ان میں مولانا ارشاد احمد ، مولانا عبدالصمد سیال ، مولانا فضل الرحمان خلیل ، قاری سیف اللہ اختر ، مولانا جلال الدین حقانی اور مولوی یونس خالص کے نام بہت نمایاں تھے اور ان سب کی کوششوں سے ہی افغانستان کے اندر ” جمعیت انصار الافغانین ” کی بنیاد مارچ 1980ء میں پڑی تھی

اور اس کا پہلا تربیتی کیمپ خوست کے قریب قائم ہوا تھا اور 1981ء تک یہ تنظیم پوری طرح سے فعال ہوگئی تھی ،یہ تنظیم ایک طرح سے ” جہاد افغانستان ” میں حصّہ لینے والی پہلی ایسی تنظیم تھی جس کی قیادت ” پاکستانی دیوبندی مدارس سے تعلق رکھنے والے عالموں اور طالب علموں ” پر مشتمل تھی اور اس کے لئے بھرتی بھی دیوبندی مدارس سے کی جارہی تھی ،یہ 1982ء کے آخر کا زکر ہے جب ایک انتہائی ” کم عمر ” لڑکا غالبا 13 / 14 سال اس کی عمر ہوگی ، ہمارے کیمپ میں آیا لیکن ڈیل ڈول کے اعتبار سے وہ مکمل جوان لگتا تھا ، اس لئے اسے تربیتی کیمپ میں شامل کرلیا گیا ، یہ لڑکا طاہر اشرفی تھا ، ان دنوں تربیتی کیمپوں میں جو جہادی تربیت ہوتی تھی اس کے دو مراحل تھے ، ایک کو ” کورس مجاہد عامہ ” کہا جاتا اور دوسرے کو ” دورہ مجاہد خاصہ ” کہا جاتا تھا – پہلا کورس تین ماہ کا اور دوسرا بھی تین ماہ کا ہوتا اور یہ کل چھے ماہ کی تربیت کسی بھی نوجوان کو ” مکمل گوریلا ” بنانے کے لئے کافی ہوتی تھی

اس تربیت کا جو آخری مرحلہ تھا وہ دھماکہ خیز ڈیوائس بنانے کی تربیت اور بارودی سرنگیں بچھانے کی تربیت تھی اور یہ دو ہتھیار ایسے تھے جو سوویت فوجی کانوائے کے لئے بہت تباہ کن ثابت ہوئے تھے اور پھر جب امریکی افواج سے تصادم ہوا تو بھی یہ ہتھیار تھے جنہوں نے امریکی فوج کو زبردست نقصان پہنـچایا تھا ، خودکش بم دھماکوں کا ہتھیار بہت بعد میں متعارف ہوا ، طاہر اشرفی ” جمعیت انصار الافغانین ” کی طرف سے افغانستان میں سوویت فوجوں اور افغان سوشلسٹ آرمی سے نبرد آزما رہا اور پھر یہ 1984ء کا سال تھا جب اسے ” حرکۃ الجہاد الاسلامی ” کا نام دیا گیا ، اصل میں ” جمعیت انصار الافغانین ” اپنی کاروائیوں کے سبب ” افغان جہاد پروجیکٹ ” کے معماروں کی ںظر میں آگئی تھی اور اس پر سعودی عرب بہت مہربان ہوگیا تھا اور پاکستانی آئی ایس آئی نے بھی اس کو گود لے لیا تھا ،

یہ وہی زمانہ ہے جب سعودی عرب اور ایران کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے ، عراق نے ایران پر جنگ مسلط کردی تھی اور سعودی عرب عراقی صدام حسین کی کھل کر مدد کررہا تھا اور ایک طرف ایرانی پیشوائے انقلاب آیت اللہ روح اللہ خمینی موسوی نے ” آل سعود ” اور وہابیت کے خلاف طبل جنگ بجایا تو خود سعودی عرب نے بھی ” شیعت اور ایرانی انقلاب ” کے خلاف ” علم جنگ ” بلند کردیا تھا اور اس تناظر میں پاکستان کے اندر سعودی عرب نے جہاں ” اہلحدیث ملائیت ” سے مدد چاہی تو وہیں اسے ” دیوبندی ملائیت ” بھی اہم ترین سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر نظر آئی ، اس زمانے میں دیوبندی مکتبہ فکر کی علمی و فکری و جہادی قیادت کے چار بڑے مرکز تھے ، ایک جامعہ بنوریہ العالمی ، دوسرا جامعہ اشرفیہ لاہور ، تیسرا جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور چوتھا دارالعلوم کراچی – اور یہ چاروں بڑے مراکز ایک طرف تو جنرل ضیاءالحق کے حامی بن گئے تو دوسری طرف سعودی عرب سے بھی ان چاروں دیوبندی مراکز کے رشتے بہت گہرے استوار ہوگئے

یہ چاروں دارالعلوم اس زمانے میں ” سعودی سٹریٹجک لڑائی ” میں سب سے بڑے ہتھیار ” اینٹی شیعہ پراکسی وار ” کے لئے فکری توانائی فراہم کرنے والے طاقتور مراکز بھی ثابت ہوئے اور یہ بات فطری تھی کہ افغان جنگ کے لئے دیوبندی مدارس سے جو بھرتیاں ہورہی تھیں ان میں جو بھی شخص عسکریت پسندی کی جانب آتا تو وہ ایک طرف تو ” ریڈیکل اسلامسٹ ” ہوا کرتا ، دوسرا وہ اینٹی شیعہ خیالات سے بھی پوری طرح سے آراستہ ہوتا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر مذھبی اقلیتوں کے خلاف بھی ایک پورا مائینڈ سیٹ رکھتا ہوتا تھا – حرکۃ الجہاد الاسلامی کی تشکیل کا سال 1984ء ہے اور یہی وہ سال ہے جب پنجاب کے شہر جھنگ میں ” انجمن سپاہ صحابہ پاکستان ” کا قیام عمل میں آیا –

دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والی پاکستانی دیوبندی کمیونٹی کے اندر یہ تبدیلیاں ” دیوبندی تحریک ” کی تاریخ اور اس کے ابتک کے ورثے کو ایک انتہائی سریع الاثر تبدیلی سے گزارنے کا سبب بننے والی تھیں – یہ بات طے ہے کہ ان تبدیلیوں کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے “جمعیت العلمائے اسلام ” کے مفتی محمود گروپ کا رجحان ” مسلم نیشنلسٹ ” کا تھا اور یہ ” سامراج مخالف ” جماعت تھی اور مڈل ایسٹ میں یہ سعودی عرب کے کیمپ کی بجائے ” جمال عبدالناصر ” کے پین عرب سوشلسٹ کیمپ ” کے ساتھ کھڑی تھی اور پاکستان میں بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں یہ نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ ) کے ساتھ تھی اور بہت جلد یہ پی این اے سینڈروم سے باہر نکل کر ایم آرڈی کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی ،

حرکۃ الجہاد الاسلامی جس سال بنی ، اسی سال پاکستان کے اندر ” تحریک بحالی جمہوریت اتحاد ” ایم آر ڈی ” کی تشکیل بھی ہوئی اور مفتی محمود کی پارٹی اس کا حصّہ بنی تھی اور جے یو آئی جو بعد میں جے یو آئی (ایف ) بنی جنرل ضیاء الحق کے خلاف اور ” جہاد افغانستان ” پروجیکٹ سے الگ رہی لیکن علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جو تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی تھیں اس میں سامراج دشمن پشتون دیوبندی سوشلسٹ قوم پرستی کا جو مظہر تھا وہ تیزی سے تحلیل ہونا شروع ہوگیا اور اس پر عالمی فرقہ پرست سعودی نواز دیوبندی جہاد پرستی چھانے لگی اور خود جے یو آئی ( ایف ) کے اندر بھی کافی بدلاؤ آنے لگا مرا سابق مجاہد دوست یہ ساری تفصیل بہت ڈرامائی انداز میں بتارہا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ کہنے لگآ

حرکۃ الجہاد الاسلامی پاکستانی دیوبندی مجاہدین کی جماعت تھی اور یہ وہ تنظیم تھی جس کے ساتھ پاکستان کے اندر شیعہ مخالف زبردست تحریک چلانے والی انجمن سپاہ صحابہ پاکستان بھی مکمل ذھنی ہم آہنگی محسوس کرتی تھی جبکہ پاکستانی دیوبندی مدارس کے اکثر طالب علم اور استاد اسی تنظیم سے اپنی جہادی زندگی کا آغاز کیا کرتے تھے اور اس تنظیم کی فکری رہنمائی کا فریضہ مکمل طور پر جامعہ بنوریہ العالمی کراچی کے مفتی اعظم نظام الدین شامزئی ہی سرانجام دے رہے تھے اور یہی وہ زمانہ بھی ہے جب سعودی عرب کے مفتی اعظم ، امام کعبہ سمیت سعودی وزرات مذھبی امور کے ہاں مفتی نظام الدین شامزئی انتہائی قابل اعتماد دیوبندی عالم ٹھہر گئے اور وہ اس اعتماد پر پورا بھی اترے –

1989ء تک آتے آتے جب افغانستان سے سوویت افواج رخصت ہوئیں اور جینیوا معاہدہ سامنے آیا تو اس زمانے میں ” حرکۃ الجہاد الاسلامی ” کی سرکردہ قیادت جو اب قاری سیف اللہ اختر اور مولانا فضل الرحمان خلیل پر مشتمل تھی کے آئی ایس آئی کے اس وقت کے چیف جنرل حمید گل سے بڑے اچھے تعلقات استوار ہوگئے تھے اور یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ ” افغان جہاد پروجیکٹ ” کے ماڈل کو سامنے رکھکر ” جہاد کشمیر ” کا پروجیکٹ پوری طاقت سے سامنے لانے کا فیصلہ کرچکی تھی اور وہ کشمیر کے اندر ایسا گوریلا گروپ روانہ کرنا چاہتی تھی جو مکمل طور پر ان کی لائن کو فالو کرے ،

کیونکہ آئی ایس آئی اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے جماعت اسلامی سے ” حکمت یار کی حزب اسلامی ” کی وجہ سے اختلافات جنم لے چکے تھے اور کشمیر میں جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ ” حزب المجاہدین ” کی کشمیری قیادت ” یس باس ” کا کردار ادا کرتی نظر نہیں آرہی تھی اور اس زمانے میں ” حرکۃ المجاہدین ” اور ” حرکۃ الجہاد الاسلامی ” کے باہمی انضمام سے ” حرکۃ الانصار ” تشکیل پائی اور اس طرح سے اس تنظیم کا ” جہاد کشمیر پروجیکٹ ” سے وابستگی کا آغاز ہوا اور اسے ہم دیوبندی مدارس کے ” کشمیر جہاد ” سے وابستہ ہونے کا آغاز بھی کہہ سکتے ہیں

نوٹ : اگر اس حوالے سے ہم یہ کہیں کہ ” انجمن سپاہ صحابہ پاکستان ” کا جہاد کشمیر کے لئے زرا تھوڑے پیمانے پر ” رنگروٹ ” مہیا کرنے کا یہ باقاعدہ کردار کا آغاز بھی تھا کیونکہ انجمن سپاہ صحابہ پاکستان کے انتہائی سرگرم رہنما مولانا مسعود اظہر بھی اسی زمانے میں ” جہاد کشمیر ” سے وابستہ ہوئے

مرے دوست کا کہنا ہے کہ 88ء کے بعد طاہر اشرفی سے ان کا رابطہ منقطع ہوا اور اس وقت طاہر اشرفی کو افغانستان سے واپس گئے چار سال ہوگئے تھے ، اور اس کی وجہ ان کو کافی زبردست زخم لگنے اور ان کی کمر میں تین سے چار گولیاں رہ جانا تھا اور وہ اب عملی طور پر لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے اور پتہ یہ چلا تھا کہ وہ ” جامعہ اشرفیہ ” میں اپنی تعلیم مکمل کررہے ہیں اور مرے دوست کے مطابق ان کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ طاہر اشرفی نے واپس جاکر پہلے ” جمعیت العلمائے اسلام ” سمیع الحق گروپ میں جگہ بنانے کی کوشش کی ،

وہاں جگہ نہ بنی تو وہ ” سپاہ صحابہ پاکستان ” سے منسلک ہوگئے اور اس طرح سے وہ پاکستان کے اندر جاری ” سعودی نواز شیعہ مخالف تحریک ” کے اہم رہنماء کے طور پر سامنے آئے ، یہ وہ زمانہ ہے جب طاہر اشرفی ” اینٹی احمدی سرگرمیوں ” میں بھی آگے آگے نظر آئے اور اس حوالے سے ان کے تعلقات عالمی ختم نبوت انٹرنیشنل کے مکہ میں مقیم ” عبدالحفیظ مکّی ” سے استوار ہوئے تو دوسری جانب وہ سپاہ صحابہ پاکستان کی مرکزی قیادت کے بھی قریب آئے لیکن کہا جاتا ہے کہ سپاہ صحابہ پاکستان کی مرکزی قیادت یعنی اعظم طارق کی موت کے بعد جب لدھیانوی و اورنگ زیب فاروقی کا عروج ہوا تو وہ اس تنظیم کے سخت گیر ٹولے کے قریب ہوگئے

جن کی قیادت ملک اسحاق کررہا تھا اور اس زمانے میں طاہر اشرفی کے قریب رہنے والے ایک دوست نے بتایا کہ مشرف کے زمانے میں یہ طاہر اشرفی تھے جنہوں نے سپاہ صحابہ پاکستان کے سابقہ اور حاضر ” مولوی سیکشن ” پر زور دیا کہ پاکستان میں اپنے ” اہداف ” کے حصول کے لئے خود کو ” کیموفلاج ” کرنا بہت ضروری ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ” کیموفلاج ” کرنے کا یہ خیال ” طاہر اشرفی ” کے دماغ کی بجائے ” کہیں اور سے انڈیلا گیا ” تھا اور پھر ہم نے آہستہ آہستہ ” ماڈریٹ اشرفی ” کا ظہور ہوتے دیکھا

اور اسی ” کیموفلاج ماڈریٹ ازم ” سے ہم نے ” پاکستان علماء کونسل ” کا جنم ہوتے دیکھا ، جامعہ بنوریہ العالمی ، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سمیت دیوبندی بڑے مدارس کے بعض انتہائی ” اشراف ” علماء کے قریبی زرایع کا کہنا ہے کہ دراصل طاہر اشرفی ، ضیاء القاسمی کے بیٹے زاہد القاسمی کی جانب سے ” سعودی عرب ” اور ” پاکستان ” کی طاقتور پرو جہاد لابی سے براہ راست قربت کے رشتے استوار کرنے اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ایک سیکشن اور میاں نواز شریف کے ساتھ انتہائی مضبوط نیٹ ورک تعمیر کرنے کا ہدف اس نئے کیموفلاج پروجیکٹ کا مقصد اولین تھا

اور اس میں طاہر اشرفی کو کامیابی مڈل ایسٹ کے انتہائی تیزی سے بدلتے حالات کی وجہ سے بھی ملی جبکہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ” تحریک طالبان پاکستان ” کے انتہائی جارح اور القائدہ و داعش سے جڑے سیکشنز کے خلاف پرو جہادی سیکشن میں اعتدال پسندوں کی تلاش بھی اشرفی کے حق میں گئی -طاہر اشرفی ” سعودی عرب ” کے لئے پاکستان کے اندر انتہائی کار آمد ثابت ہوئے ہیں اور مسلم لیگ نواز کے انتہائی مشکل ترین پریڈ ميں انھوں نے ‘ انتہائی اہم کردار ” ادا کیا اور وہ ان چند دیوبندی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے مسلم لیگ نواز کے لئے پنجاب میں دیوبندی حلقوں کی حمایت کا سامان خوبی سے کیا –

طاہر اشرفی پاکستان میں سعودی عرب کے ایک انتہائی بے باک اور پچ پر آگے جاکر کھیلنے والے کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے اور ان کے پروفائل کو بھاری کرنے اور ان کی مین سٹریم میڈیا میں ” اہم جگہ ” بنانے میں ” میاں برادارن ” کی نوازشات نے اپنا کردار تو ادا کیا ہی ، پراسرار طور پر اس میں نجم سیٹھی کے میڈیا گروپ نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور نجم سیٹھی نے اپنے پٹھے رضا رومی سے یہ کام لیا – ویسے یہ کہانی کبھی تو کھلے گی کہ کیسے ایک میڈیا گروپ ” اشرفی ” کو اور دوسرا میڈیا گروپ ” لدھیانوی و اورنگ زیب فاروقی گروپ ” کو پروجیکشن کی معراج پر کیسے لیکر گیا اور پاکستان کے اندر ” فرقہ پرست ڈسکورس ” کے ستونوں کو کیسے ” ماڈریٹ ” ماسک پہنائے گئے

Source:

https://literary2015.wordpress.com/2015/10/20/%D8%B7%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B5%D9%84%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%A6%D9%84/

Comments

comments