کربلا و امام حسینؑ غیر مسلم مشاہیر کی نظر میں – از ایس ایچ بنگش

Imam Hussain12-300x224

محسن انسانیت امام حسین علیہ سلام نے میدان کربلا میں اپنے انصار و اصحاب سمیت تاقیامت انسانی اقدار کو بچانے کے لئے ایسی لازاول قربانی دی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے،یہی وجہ ہے کہ نواسہ رسول ص ،محسن انسانیت حضرت امام حسینؑ کی یاد تمام باشعور و حریت پسند انسانوں میں بغیر کسی تفریق مذہب رنگ و نسل آباد ہے اور انشا اللہ تاقیامت یاد رہے گی۔امام حسین علیہ اسلام نے راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت، اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو آزاد کرنے کے لئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔کیا یہ چیزیں کبھی پرانی اور فراموش ہونے والی ہیں؟ ہر گز نہیں

حضرت امام حسین (ع) نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین (ع) سلسلے میں نقل کرتے ہیں
آج اگر شام دمشق میں صیہونی و تکفیری مثلث امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج اسرائیل کے حامی اور فلسطین مخالف قوتوں کو شکست کا سامنا پڑا تو وہ بھی کربلا کو آئیڈیل قرار دینے والے حزب اللہ و انقلاب اسلامی کے ہاتھوں اسی طرح لبنان کی 33 روزہ اور غزہ فلسطین کی 22 روزہ جنگ میں صیہونیت کے خلاف مقاومت حزب اللہ و حماس کی فتح بھی کربلا کے مرہون منت ہے، کیونکہ حزب اللہ و حماس عالم اسلام کے دونوں بازوں کا منبع انقلاب اسلامی اور فکر خمینی ہے ۔ وہ امام خمینی ؒ جب کسی نے امام خمینیؒ سے پوچھا کہ آپ نے اتنا عظیم انقلاب کیسے برپا کردیا تو امام خمینیؒ کا جواب تھا ،،،ما ہر چہ داری از کربلا و عاشورا دارای۔۔۔یعنی ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ کربلا و امام حسینؑ کی مرہون منت ہے ۔محرم اور صفر کے مہینے کو زندہ رکھیں کیونکہ انہیں نے اسلام کو زندہ کردیا۔علامہ اقبالؒ کا بھی یہی کہنا تھا۔

حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق

یک حسین ع رقم کرد و دیگر زینب س

کربلا شناس امام خمینیؒ کا فرمان ہے کہ ہم امریکہ کے عوام کے دشمن نہیں بلکہ امریکہ کے انسان دشمن پالیسیوں کے دشمن ہیں۔۔۔چند دہائیاں پہلے لوگ اس فرمان کے مقصد کو سمجھے بغیر اسے دوغلی پالیسی سمجھتے تھے، لیکن اکیسیویں صدی میں امریکہ کی طرف سے افغانستان عراق اور حالیہ شام پر امریکی حملوں کے خلاف امریکہ کے اندر لاکھوں افراد کا احتجاج اور امام حسین ع کے متعلق دنیا بھر کے باضمیر سکالرز کا ذیل میں دیا ہوا خراج تحسین اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جس طرح کربلا و امام حسین ع کا ذکر تاقیامت ذندہ ہیں، اس طرح کربلا شناس امام خمینیؒ کا زکر بھی تاقیامت زندہ و جاوید رہے گا۔۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

لبنان سے تعلق رکھنے والے عیسائی سکالر انٹویا بارا کہتے ہیں۔ کہ اگر ہمارے ساتھ حسین(امام حسینؑ) جیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام حسینؑ کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی طرف بلاتے، لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین نہیں۔

انگلستان کے مشہور سکالر و ناول نگارچارلس ڈکسن کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ حسین(امام حسینؑ) کو کوئی دنیاوی لالچ تھی یا اگر ایسا ہوتا تو حسین( امام حسینؑ) اپنا سارا خاندان بچے و خواتین کیوں دشت کربلا میں لاتے۔ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ  حسین( امام حسینؑ) نے فقط اسلام اور رضائے الہی کے لئے قربانی دی۔


ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:حسین(امام حسینؑ)نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔حسین(امام حسینؑ) بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔

۔امریکہ کا مشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتا ہے۔حسین(امام حسینؑ) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین(امام حسینؑ) نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین(امام حسینؑ”)”::

برصیغر کے معروف رہنما مہاتما گاندھی کہتے ہیں۔۔کہ اسلام بذور شمشیر نہیں پھیلا بلکہ اسلام حسین(امام حسینؑ) کے قربانی کی وجہ سے پھیلا اور میں نےحسین(امام حسینؑ) سے مظلومیت کے اوقات میں فتح و کامرانی کا درس سیکھا ہے۔

گویا انگریزوں سے پاکستان و ہندوستان کی آزادی بھی امام حسینؑ کی قربانی سے سبق لینے کی وجہ سے ہے۔ ایک طرف گاندھی برمالا اس بات کا اقرار کرتا ہے تو دوسری طرف بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے والد پونجا جناح اور بعد میں خاندان کے ساتھ جناح کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ ان کی عاشورا کے دن امام حسینؑ کے شبیہہ ذوالجناح کے وسیلے سے دعا پوری ہونے(کیونکہ قرآن میں بھی اللہ سے دعا مانگنے کے لئے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ہے) کی وجہ سے یہ خاندان محب اہل بیت ؑ اور پیروکاران سید الشہدا امام حسینؑ بن گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے عناصر اور بات بات پر کفر کے فتووے لگانے والے اسلام کے لبادے میں یذید ملعون کے پروکار مٹھی بھر فسادی ٹولے اورفسادی ملاؤں نے اس وقت قائد اعظم کو بھی کافر اعظم(نقل کفر کفر نہ باشد) کہہ کر پکارا اور آج بھی یہی مٹھی بھر خارجی و فسادی ٹولہ پاکستان میں اسلام کے نام پر فساد برپا کر رہا ہے۔

 

کربلا شناس و حکیم الامت علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری اور اکیسویں صدی کی یذیدیت کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کٹا حسینؑ کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

اسی طرح آج کے دور اکیسیویں صدی کے ٰیزید وقت امریکہ کے ایجنٹ اسلام کے نام پر جہاد بنام فساد کی صورت میں ہو ان خواراج و یذیدان عصر کی اسلام دشمنی اور فتنہ کے بارے میں بھی اقبال نے پیشن گوئی کی تھی۔اور یوں برملا اظہار کیا تھا۔

ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

امام حسینؑ اور عزاداری کی طاقت وجہ سے عراق سے امریکی افواج کا انخلا۔۔ امریکی فوجی ٹام کا عراقی شہر کربلا سے اپنی مام(ماں۔  امریکی شہرہوسٹن) کے نام خط۔۔

عراق پر جب یذید وقت امریکہ نے اپنے ہی پالے ہوئے پٹھو صدام کی حکومت کے خاتمے اور کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے چرھائی کرکے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے تو دوسری طرف عراقی عوام نے اس دور کے یذید امریکہ

کے سامنے جھکنے کی بجائے امام حیسنؑ کی عزاداری اور ماتم کی طاقت و فلسفے سے ظلم و یذیدیت کے خلاف آواز اٹھا کر آخر کار امریکہ کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا۔ عراق میں عاشورا اور چہلم کے موقع پر لاکھوں حتی

کہ چہلم و اربعین شہدائے کربلا کے موقع پر ایک کروڑ سے ذیادہ پاپیادہ عزاداروں کے کربلا کی طرف مارچ و عزاداری اور لبیک یا حسینؑ، حسینت ذندہ باد و یذیدیت مردہ باد کے نعروں نے وہاں ڈیوٹی پر مقیم امریکی فوجیوں کے نفسیات پر اثر ڈالا اور یوں امریکی افواج میں امریکی حکومت کے خلاف بغاوت پیدا ہونے کے ڈر سے امریکہ عراق سے دم بھگا کر بھاگ گیا یقینا امریکہ کا عراق سے بھاگ جانا ٹام جیسے سینکڑوں فوجیوں کی نفسیات پر اثر اور ان

کے دل میں عزاداری و ماتم امام حسینؑ کی وجہ سے جنگ مخالف جذبات پیدا ہوئے ،ٹام کا خط سن دو ہزار تین میں مختلف میڈیا ذرائع و اخبارات بشمول پاکستان کے روزنامہ ڈان کے سنڈے ایڈیشن میں بھی شائع ہوا۔ جس کے ایک پیراگراف کا یہاں ترجمہ اور مکمل خط کی لنک و تفصیل یہاں قارئین کے لئے دی جا رہی ہے۔

http://archives.dawn.com/weekly/dmag/archive/030413/dmag3.htm

ٹام لکھتے ہیں۔۔میری ماں، میں آپ کا بیٹا ٹام ہوں، اور یہ کربلا شہر کے ایک بیرک یا مورچے میں میری ڈیوٹی کا تیسرا دن ہے۔یہاں ایک مقدس مقام زیارات کی طرف لوگ جا رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ مقدس مقام یا زیارت ان کے نبی (حضرت محمد ص) کے نواسے کی اس قربانی کی یاد میں بنایا گیا ہے کہ آپ (امام حسینؑ) نے اپنے خاندان کے تمام مرد بشمول چھ ماہ کے شیر خوار کو اللہ کی راہ میں قربان کیا۔ماں۔ میں بھی ہوسٹن امریکہ سے بہت دور اس صحرا میں آیا ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ میں یہاں اللہ کی رضا کے لئے نہیں آیا بلکہ میں اور میرے دوسرے ساتھی(امریکی فوجی) ہم سب یہاں اسلئے ہیں کہ ہمارے صدر (امریکی صدر) نے ہمیں یہاں مامور کیا ہے۔

ٹام کے اس خط سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح عراق سے امریکہ کی ذلالت بھری شکست میں سید الشہدا اور امام حسینؑ کی عزاداری نے اہم کردار ادا کیا۔ کیونکہ عراق میں سینکڑوں امریکی فوجی نفسیاتی و ذہنی مریض بن گئے تھے۔

دوسری طرف اس خط نے صیہونی زیر اثر امریکی حکومت اور ان کے عوام حتی کہ افواج میں موجود بعض ذندہ ضمیر افراد کے جنگ مخالف اقدامات اور حال ہی میں امریکہ میں شروع کی جانی والی وال سٹریٹ قبضہ کروں تحریک نے دراصل امام خمینیؒ کے کئی دہائی پہلے اس فرمان کہ ہم امریکی عوام کے نہیں بلکہ امریکہ کے انسان دشمن پالیسیوں کے مخالف ہیں۔۔اور امام خمینیؒ کے اس فرمان کو دنیا نے عراق اور افغانستان پر امریکی چڑھائی کے بعد لاکھوں امریکیو کا ماریکی پالیسیوں کے کلاف احتجاج کی سورت میں مشاہدہ کیا اور جس کا حال ہی میں ایک اور عبرت آموز واقعہ بیس امریکی ریاستوں کا امریکہ سےآزادی کا مطالبہ کرنا ہے۔جس طرح  کربلا شناس امام خمینیؒ کے گورباچوف کے نام ایک خط نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اسی طرح کربلا کے مکتب کے پروردہ  نظریہ ولایت فقیہہ کے مطابق رہبر و رہنما امام خمینیؒ اور اس کے پیشرو سید علی خامنہ ای کے  پہلے سے جاری مشاہدات  اور پیشن گئوئیوں کے مطابق بہت جلد یذید وقت امریکہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے، اور وہ وقت دور نہیں۔کیونکہ  اس سال محرم کے آغاز میں امریکی ایما پر اسرائیل کی طرف سے غزہ پر بربریت و یزیدیت ہی امریکہ کو لے ڈوبی گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینیؒ نے کربلا اور عاشورا کی طاقت بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ لوگ ہمیں محرم میں رونے والے( گریہ و فریاد ماتم و عزاداری کرنے والے) کہہ کر مذاق اڑاتے تھے لیکن ان انسوؤں کی طاقت سے ہم نے کئی صدیوں پر محیط شاہی نظام اور اس کے سرپرست شیطان بزرگ امریکہ کا بستر گول کرکے بساط لپیٹ  کر شکست دےدی، ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ کربلا کی وجہ سے ہے اسلئے کربلا و عاشورااور محرم و صفر (چہلم یا اربعین حسینؑ)کو ذندہ رکھیں۔دو ہزار چھ میں اسرائیل کو بدترین شکست دینے والے حزب اللہ لبنان کے سربراہ حسن نصر اللہ سے جب کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے تو حسن نصر اللہ نے جواب دیا۔دو ہی وجہ ہیں ایک اپنے دور کی کربلا و عاشورا کو ذندہ کرکے ماتم و عزاداری حسینؑ سے درس حریت لینا اور دوسرا تہران میں بیٹھے میرے رہبر ولی فقیہہ امر المسلمیں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے حکم و مشورے کی اطاعت کرنا۔ گویا لبنانی ہو کر بھی حسن نصر اللہ حکیم الامت  و کربلا شناس علامہ اقبالؒ  کی اس پیشن گوئی کی تفسیر کررہے ہیں، اور ہم بحثیت پاکستانی اب تک  علامہ اقبالؒ کو نہ سمجھ سکیں۔۔

دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا

ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

تہران ہو گر عالم مشرق کا جینیوا

شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

 

عراق سے امریکی کی ذلت آمیز پسپائی عزاداری اور ماتم امام حسینؑ کی طاقت جیسا کہ امریکی فوجی ٹام کے خط سے واضح ہے کے علاوہ امام خمینیؒ کے اس فرمان کہ محرم تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔ یذید وقت امریکہ کے ساتھ تمام تر قوت تھی لیکن وہ اس قوت اور اسلحے سے فتح حاصل نہ کرسکیں بلکہ عراق کے نہتے عوام نے سید الشہدا امام حسینؑ کے فلسفے اور عزاداری کی طاقت سے امریکہ کے عزائم خاک میں ملا کر تلوار پر خون کی فتح رقم کرکے اکسٹھ ہجری کی طرح اکییسویں صدی میں بھی اس شعر کی عملی تفسیر کردی۔کہ

قتل حسینؑ اصل میں مرگ یذید ہے

اسلام ذندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

 

ئیامام حسین (ع) کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحیی (ع) کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت ” فما بکت علیھم السماء وا لارض ” کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی اور حضرت امام حسین (ع) کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ہے۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین (ع) اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔!

تو جب تک حضرت امام حسین علیہ اسلام کا ہدف و مقصد یعنی خدا ،اسلام اور حق طلب انسان باقی ہیں تو اس وقت تک امام حسین علیہ اسلام فراموش نہیں ہو سکتے۔

زندگانی امام حسین علیہ اسلام کی اہمیت کہ جو تاریخِ بشریت کا ایک زریں ورق اور ہیجان انگیز ترین واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ فقط اس وجہ سے نہیں کہ ہر سال لاکھوں کروڑوں انسانوں کے احساسات کو ابھارتا ہے اور دیگر تمام مراسم سے زیادہ ہیجان انگیز مراسم بپا ہوتے ہیں۔ بلکہ اس کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں دینی اور انسانی عواطف و احساسات کے علاوہ اور کوئی چیز محرک نہیں اور یہ حقیقت بھی کسی پر مخفی نہیں کہ اس واقعہ کے لیے جو پر شکوہ اور باعظمت اجتماعات بپا ہوتے ہیں اس اعتبار سے بھی بے نظیر ہیں کہ وہ کسی قسم کے پروپیگنڈے کے محتاج نہیں۔

البتہ جو سوال ابھی تک کافی لوگوں کے لیے واضح نہیں ہوا۔ اور ان کے نزدیک ایک معمہ کی صورت میں باقی ہے وہ یہ ہے کہ اس تاریخی واقعہ کو کیوں اس قدر اہمیت دی جاتی ہے جبکہ کمیت و کیفیت کے اعتبار سے اس کے مشابہ اور واقعات بھی موجود ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ہر سال اس واقعہ کے اجتماعات گزشتہ سال سے بھی زیادہ پر شکوہ اور باعزت منائے جاتے ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ بنی امیہ جن کو ظاہری فتح ہوئی ان کا نام و نشان تک باقی نہیں لیکن واقعہ کربلا نے ایسا ابدی رنگ اختیار کر لیا ہے کہ لوگوں سے فراموش نہیں ہوتا ؟یہ سوالا ت اور ان سے ملتے جلتے جوابات واقعہ کربلا اور اس کے اہداف و مقاصد میں غور و فکر کرنے سے بخوبی واضح ہو جاتے ہیں اس مسئلہ کا تجزیہ و تحلیل ان لوگوں کے لیے جو تاریخِ اسلام سے واقف ہیں اتنا زیادہ پیچیدہ اور مشکل نہیں۔

واقعہ کربلا دو سیاسی پارٹیوں کی کرسی یا مال و دولت اور زمین وغیرہ حاصل کرنے پر جنگ نہ تھی۔ یہ واقعہ دو گروہوں اور دو قبیلوں کی ذاتی دشمنی پر رونما نہیں ہوا۔ یہ واقعہ دو فکری و عقیدتی مکاتب کا مبارزہ تھا یا درحقیقت حق و باطل کی جنگ تھی جو ابتدائے تاریخ بشریت سے جاری تھی اور ابھی تک ختم نہیں ہوئی ۔ یہ مبارزہ اور جنگ تمام پیغمبروں اور تمام اصلاح طلب افراد کے مبارزہ کہ ایک کڑی تھی۔

بالفاظِ دیگر یہ واقعہ جنگِ بدر و احزاب ہی کے مقاصد کی تکمیل کا ایک حصہ تھا۔ یہ بات واضح و روشن ہے کہ جب پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشریت کو بت پرستی یا خرافات اور جہالت و گمراہی سے نجات دینے کے واسطے فکری و اجتماعی انقلاب کی رہبری کے لئے قدم اٹھایا اور ضلالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے حق طلب افراد کو اپنے ارد گرد جمع کیا تو اس وقت اس اصلاحی قیام کے مخالفین نے متحد و منظم ہو کر اس آواز کو خاموش کرنے کی خاطر اپنی تمام تر کوششیں شروع کر دیں۔ان اسلام و انقلاب دشمن عناصر کی باگ دوڑ بنی امیہ کے ہاتھ میں تھی مگر ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود عظمتِ اسلام کے سامنے انہیں مجبوراً گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں ۔

ان کی ناکامی کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ پوری طرح ختم ہو چکے ہوں بلکہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ظاہری طور پر اس انقلاب کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تو انہوں نے ہر ناکام اور ضعیف دشمن کی طرح اپنی ظاہری و آشکارا کوششوں کو پسِ پردہ اور خفیہ صورت میں شروع کر دیا اور مناسب وقت و فرصت کے انتظار میں بیٹھ گئے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بنی امیہ نے لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی طرف لے جانے کے لیے حکومت اور حکومتی عہدوں میں نفوذ پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی اور مسلمان جس قدر زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہوتے گئے بنی امیہ کے لیے منساب موقع فراہم ہوتا گیا اور تقوی اور علمی، اخلاقی اور معنوی لیاقت کی بناء پر کسی کو کوئی عہدہ و مقام دیا جاتا تھا ۔مگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بہت سے ایسے لوگ عہدوں پر فائز ہو گئے جو اپنے دل میں اسلام کے لیے بغض و عناد رکھتے تھے۔

اور انہوں نے لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی طرف واپس لے جانے کی کوششیں شروع کر دیں یہ کوشش اس قدر شدید تھی کہ حضرت علی علیہ اسلام جیسی پاک ترین شخصیت کو بھی اپنی خلافت کے دوران اسی منافقین اور اسلام دشمن عناصر کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ اسلام دشمن سازش اس قدر آشکارا تھی کہ خود اس کے رہبر بھی اس کے غیر اسلامی اور اسلام دشمن ہونے پر پردہ نہ ڈال سکے ۔بلکہ ان کے اپنے بیانات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے اہداف و مقاصد کیا تھے۔اور وہ اسلام سے کس قدر محبت رکھتے تھے۔

جیسے بنی امیہ کے سب سے معتبر شخص کا بنی امیہ اور بنی مروان کے پاس خلافت منتقل ہونے کے بعد پوری بے شرمی سے یہ عجیب و غریب جملہ کہنا۔’’اے بنی امیہ، کوشش کرو کہ حکومت کو ایک ہاتھ میں لے لو ۔اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بہشت و دوزخ کا وجود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام ایک سیاسی چال تھی۔‘‘یا شام کے گورنر کا عراق پر قبضہ کرتے وقت یوں اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرنا’’اے لوگو!میں اس لئے نہیں آیا کہ تم لوگ نماز پڑھواور روزہ رکھو ، میں تم پر حکومت کرنے آیا ہوں جو شخص میری مخالفت کرے گا اس کو ختم کر دوں گا‘‘اور یزید لعین کا شہداء کے سروں کو دیکھ کر یہ کہنا’’ اے کاش آج میرے بزرگان زندہ ہوتے،جو جنگِ بدر میں مارے گئے اور دیکھتے کہ میں نے کس طرح بنی ہاشم سے بدلہ لیا ہے‘‘یہ بیانات ان کے غیر اسلامی اور اسلام دشمن اہداف و مقاصد پر بہترین دلیل ہیں اور ان کے ان بیانات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کے دلدادہ تھے اور لوگوں کو کس طرف لے جانا چاہتے تھے۔کیا امام حسین علیہ اسلام اس خطرے کے مقابلے میں خاموش بیٹھ سکتے تھے؟جو اسلام کو لاحق تھا اور یزید کے دور میں اپنی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔کیا خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ ہستیاں جنہوں نے اپنے پاک دامن میں انہیں تربیت دی تھی ، اس پر راضی ہوتے؟

کیا ان پر لازم نہیں تھا کہ گزشت و فداکاری کے ذریعے اس حکومت کو توڑ دیں جو معاشرہ پر سایہ فگن تھی ۔ بنی امیہ کے مذموم اور اسلام دشمن مقاصد کو آشکارا کریں اور اپنے پاک خون سے تاریخِ اسلام کے لئے درسِ عبرت اور مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کے طور پر باقی رہیں۔

امام حسین علیہ اسلام نے یہ کام اور اسلام کے مقابلہ میں اپنا فریضہ انجام دیا۔تاریخ کا رخ موڑ دیا اور بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کی ظالمانہ کوششوں کو ہمیشہ کے لیے ناکام بنا دیا۔

یہ ہے قیامِ حسین علیہ اسلام کی حقیقی صورتِ حال اور یہیں سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ نام و تاریخِ حسین علیہ اسلام کیوں فراموش نہیں ہوتی؟کیونکہ امام حسین علیہ اسلام اور ان کا مقصد ایک خاص زمانہ اور ایک خاص عصر سے مختص نہ تھے۔امام حسین علیہ اسلام اور ان کا ہدف و مقصد جاودانی اور ہمیشگی تھا۔

واقعہ کربلا اورامام عالی مقام کی لازوال قربانی کے اردوزبان پرگہرے اثرات مرتب ہوئے اسے کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے ایک تووثائی ادب ہے جس میں مرثیہ، نوحہ ، سلام، سوز اوردہہ وغیرہ شامل ہیں جوخالصتاً کربلا اورامام حسینؑ اوران کے جانثاراں کے عظیم کارنامے کونہ صرف بیان کیاگیا بلکہ اپنی عقیدت کااظہار بھی کیاگیا یہ ایک اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ جس کی اہمیت اورمعنویت مسلم ہے اس کے علاوہ بھی اردو، غزل اورنظم میں جابجا کربلا، قربانی، علم، پیاس، خون وغیرہ ذکرکرکے شاعر نے اپنے مخاطبین پیغام دیا ہے،حتی کہ غیر مسلموں ہندوں و عیسائیوں تک نے امام حسینؑ کی شان میں گلہائے عقیدت پیش کئیے ہیں۔

جبین کائنات

ہندوستان کے مشہور اور معروف ہندو شاعر اہلبیت(ع) جناب مرحوم ماتھر لکھنوی کا کلام

یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شان حسین

بن گیا اسلام کی بنیاد ایمان حسین

کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدان حسین

معرفت کی انتہا ہے نور ایمان حسین

عصر کو عاشور کی کیونکر نہ ہو جاتا وفا

وعدہ پیغمبری تھا عہد و پیمان حسین

جھکتے جھکتے جھک گئی در پر جبین کائنات

رفتہ رفتہ ہو گیا تعمیر ایوان حسین

فہم انسان سے بھی اونچی ہیں یقیں کی منزلیں

حد امکان بنی ہے حد امکان حسین

سر بسجدہ ہیں پیمبر اور نواسہ پشت پر

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی بھلا شان حسین

بہتی دھاروں میں لہو کی رفتہ رفتہ ڈوب کر

خوشنما ہوتی گئی زلف پریشان حسین

اب تو کوئی قوم بھی باہر نکل سکتی نہیں

چھا گیا خالق کی رحمت بن کے دامان حسین

آنسوؤں میں روح غم اور دل میں حق کی روشنی

ضوفشاں ہے آج بھی شمع شبستان حسین

ڈوب کر خون وفا میں بن گیا اک یادگار

ہے شفق کے رنگ میں عکس گریبان حسین

آیتیں نیزے پہ پڑھ کے کر دیا حق کو بلند

اب کلام اللہ ہے لیکن بعنوان حسین

دو وسیلے ہیں گنہگاران امت کے لیے

حضرت زینب کی چادر اور دامان حسین

جلوے یک جا ہو رہے ہیں قلب ماتھر کے لیے

روشنی پہونچا رہی ہے شمع عرفان حسین

نام حسین(ع

)

حسین نام ہے باغ وفا کی نکہت کا

حسین نام ہے ہر پھول سے محبت کا

دوبارہ دین محمد نے زندگی پائی

حسین نام ہے اسلام کی حفاظت کا

بدل دیا تھا لہو نے نظام کون و مکاں

حسین نام ہے عاشور کی قیامت کا

بلندیاں ہیں انہیں کی ولا سے وابستہ

حسین نام ہے دونوں جہاں کی عظمت کا

یہی سمجھ کے تو آئے تھے دہر میں آدم

حسین نام ہے انسان کی خلافت کا

نہ ہوتے یہ تو نہ ہوتا جہاں میں دین خدا

حسین نام ہے توحید کی قدامت کا

خدا کا شکر مصیبت سے بچ گیا اسلام

حسین نام ہے رد بلائے بیعت کا

بلند نیزے پہ جنبش لبوں کی کہتی ہے

حسین نام ہے قرآن کی فصاحت کا

حسینیت نے دہائی ہے شرک کی طاقت

حسین نام ہے معبود تیری وحدت کا

وہ جذب جس میں کہ مذہب کی کوئ قید نہیں

حسین نام ہے انسان سے محبت کا

نہ سمجھے کوئی مگر ہم سمجھتے ہیں ماتھر

حسین نام ہے اسلام کی صداقت کا

قطعہ

یہ روز روز کا جھگڑا تمام ہو جائے

ہر اک شریک عزائے امام ہو جائے

یہ فرقہ وار فسادات ہو نہیں سکتے

اگر حسین کی تعلیم عام ہو جائے

علامہ اقبالؒ کی کربلا شناسی

اس کے علاوہ بھی بہت سے اشعار ایسے ہیں کہ جن میں کربلا کے حوالے سے براہ راست کوئی علامت بیان نہیں ہوئی مگرشعر کامفہوم بتا دیتا ہے کہ اس کاپس منظر کربلا سے حاصل کیاگیا ہے مثلاً

؂ قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علم اورنکلیں گے عشاق کے قافلے

گواس شعر میں بظاہر کربلا کی مناسبت سے کوئی تذکرہ نہیں ہے مگرپڑھنے والاکربلا کے پس منظر تک پہنچ جاتا ہے زیر نظر مضمون میں وثائی ادب کے بجائے اردو ادب کاایک مختصر ساجائزہ پیش ہے کہ جہاں کربلا کی نسبتیں اشعار میں جلوہ گرہوئی ہیں۔

اردو‘ میرتقی میرؔ سے پہلے بولی اورلکھی جارہی ہے میرؔ کے دور سے ہی عموماً اردو کاحوالہ بیان کیاجاتا ہے مثلاً میرؔ کے یہ اشعار اگرچہ کسی سلام یامرثیہ کاحصہ نہیں ہیں مگر کربلا کی مناسبت دیکھے:

؂ شیخ پڑے محراب حرم میں پہروں دوگانہ پڑھتے رہو سجدہ ایک اس تیغ تلے کاان سے ہوتوسلام کریں

یایہ شعر

؂ زیر شمشیرستم میرؔ تڑپنا کیسا سربھی تسلیم محبت میں ہلایانہ گیا

یایہ شعر

؂ وا اس سے سرحرف توہوگوکہ یہ سرجائے ہم حلق بریدہ ہی سے تقریر کریں گے

بظاہر یہ اشعار کسی عشقیہ غزل سے لئے گئے ہیں مگران میں اسی تاریخی روایت کاحوالہ ہے کہ جہاں سے ایمانی رشتوں کی روشنی ملتی ہے۔

مرزا غالبؔ کواردو شاعری میں جومقام حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر اس کے شعری مجموعہ میں اس حوالے کوئی تذکرہ نہیں ملتا ’’یادگارغالب‘‘ میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ جب انھو ں نے کسی کے کہنے پرمرثیہ لکھنا شروع کیاتوچند بندلکھ کرچھوڑ دیااورکہا’’یہ ان لوگوں کاحصہ ہے جنھوں نے اس وادی میں عمریں بسر کی ہیں ۔‘‘ مگرغالب فارسی غزل میں حمد کے انداز میں کہہ چکے ہیں

؂ بزم ترا شمع وگل خستگی بوتراب ساز ترا زیروبم واقعہ کربلا

جب برصغیر میں آزادی کی تحریک چلی توکربل کی روایت اردو شاعری پھولی پھلی مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کے روح رواں تھے انھوں نے اپنی جدوجہد اورشاعری سے ہندوستان کے مسلمانوں کوزبان دی ان کے اشعار میں جابجا کربلا کی مناسبت سے تذکرہ ملتا ہے ان کے یہ مشہور شعر جوآج بھی زبان زدعام ہے ملاحظہ کیجئے

؂ قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد

اس کے علاوہ بھی مولانا کے اشعار ہیں کہ جن میں انھوں نے ظلم وجور ، جبراستبداد کے خلاف کربلا کوہی اپنا نمونۂ عمل بنایا ہے

؂ پیغام ملا تھا جوحسینؑ ابن علیؑ کو

خوش ہوں وہی پیغام قضا میرے لئے ہے

؂ فرصت کسے خوشامد شمرویزید سے

اب ادعائے پیروی پنجتن کہاں

؂ کہتے ہیں لوگ ہے رہ ظلمات پُر خطر

کچھ دشت کربلا سے سوا ہوتوجانیے

؂ جب تک کہ دل سے محو نہ کربلا کی یاد

ہم سے نہ ہوسکے گی اطاعت یزید کی

؂ بنیاد جبروقہر اشارے میں ہل گئی ہوجائے

کاش پھروہی ایمائے کربلا

؂روزازل سے ہے یہی اک مقصد حیات

جائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربلا

؂اب بھی چمک رہا ہے حسینؑ و علی ؑ کا نام

اور خاک اڑ رہی ہے یذید و ذیاد کی

شہادت امام حسینؑ کے نئے پہلوؤں پرسب سے پہلے علامہ اقبالؔ نے اظہار خیال کیا ہے اقبال نے اردو فارسی میں اس کاتذکرہ ملتا ہے علامہ اقبال امام حسینؑ سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے

؂ غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ

؂ صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشق

معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق

علامہ اقبال کربلا اورامام حسینؑ کوقربانی اسماعیلؑ کاتسلسل جانتے ہیں بلکہ ’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیتے ہیں جس کااظہار انھوں نے اپنے فارسی کلام میں بھی کیا ہے

؂ اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر

یعنی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کوجس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے اوریہ نکتہ کوئی آگاہ شخص ہی بیان کرسکتا ہے اوریہ قربانی مفہوم کی دلربا تفسیر بھی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ قربانی حسینؑ کااسلام میں کیامقام ہے اورمنشاء ایزدی میں قربانی حسینؑ کب سے جلوہ گرتھی۔

اقبال کی شاعری میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں

؂ حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی

؂ قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات

بال جبرائیل ‘ ‘ میں علامہ ’’فقر‘‘کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

؂ اک فقر سکھاتا ہے صیاد کومخچیری

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی ودلگیری

اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری

اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری

میراث مسلمانی ، سرمایہ شبیری

علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اورحجروں میں بند بزرگان دین کودعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ میدان عمل یعنی سڑکوں شاہراہوں پر آکر امام حسینؑ کے پیغام کو عملی بنائے۔

؂ نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

ارمغان حجاز)

جس وقت علامہ نے یہ بات کی توپوری امت محمدیؐ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی مگر علامہ انھیں رسم شبیری اداکرنے کاکہہ رہے ہیں اقبال کی فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایران میں ایک مرد جلیل نے رسم شبیری اداکرکے اس فکر کودنیا میں جیتا جاگتا مجسم کردیا ہے آ ج جہاں بھی مسلمان مجبور ہیں وہ رسم شبیری اداکررہے ہیں یااسی فکرکو اپنانے کی فکرمیں ہیں لیکن اقبال یہ فکردینے میں فوقیت حاصل کرگئے۔اس

شخصیت امام خمینیؒ نے کربلا و امام حسین ؑ کو آئیڈیل بناکر انقلاب اسلامی برپا کردی۔

امام خمینیؒ برملا فرماتے تھے کہ دنیا ہمیں رونے والا قوم اور عزاداری و ماتم والے کہہ کر مذاق اڑاتے تھے،لیکن ہم نے انہیں آنسوؤں اور عزاداری و ماتم سیدالشہدا مام حسینؑ کی مدد سے صدیوں پر محیط ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ کردیا،ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ محرم و کربلا کی وجہ سے ہے۔محرم و صفر کے مہینوں نے اسلام کو زندہ کردیا ہے۔

علامہ اقبال نے بھی اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انقلاب اسلامی ایران کی پیشن گوئی کی تھی، اور انقلاب و واقعہ کربلا کی وجہ سے حزب اللہ و حماس جیسی حریت پسندوں کی امریکہ و اسرائیل کے عزائم کو شکست دینا واقعہ کربلا ہی کی مرہون منت ہے۔

؂احدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق

یک حسین رقم کرد و دیگر زینب

؂تہران ہو گر عالم مشرق کا جنینوا

شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے نہ صرف کربلا و حقیقی اسلام کو عیاں کیا بلکہ اسلام کے نام و لبادے میں خوارج و یذیدی عناصر چاہے چودہ سال پہلے کے ہو تا آج کے دور کے ٰیزید وقت امریکہ کے ایجنٹ القاعدہ طالبان و سپاہ یذید کی صورت میں ہو ان سب کو عیاں کردیا۔

  کربلا شناس و حکیم الامت علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری اور اکیسویں صدی کی یذیدیت کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کٹا حسینؑ کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

اسی طرح آج کے دور اکیسیویں صدی کے ٰیزید وقت امریکہ کے ایجنٹ اسلام کے نام پر جہاد بنام فساد کی صورت میں ہو ان خواراج و یذیدان عصر کی اسلام دشمنی اور فتنہ کے بارے میں بھی اقبال نے پیشن گوئی کی تھی۔اور یوں برملا اظہار کیا تھا۔

ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

یعنی اسلام کو چودہ سال پہلے بھی اسلام کے لبادے میں موجود خوارج و یزیدیوں نے بدنام کرکے نواسہ رسول ص سید الشہدا امام حسینؑ کو نعرہ تکبیر کے شعار بلند کرکے شہید کردیا۔اور آنے والے زمانے میں بھی ٰیزید وقت امریکہ کے ایجنٹ القاعدہ طالبان و سپاہ یذید کی شکل میں مساجد،عوامی مقامات امام بارگاہوں و مزارات کو نعرہ تکبیر کی شعار کے گونج میں قتل عام و خودکش حملے کرکے اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کریں گے۔

علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار فکر قرآنی کے ہر دور میں طالم و مظلوم اور حق و باطل کا سامنا ہوگا،اسی طرح امام جعفر صادقؑ کا فرمان کہ۔۔۔ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا۔۔۔یعنی ہر روز عاشورا و ہر شہر کربلا ہے۔۔۔ کی تفیسر نظر آتے ہیں۔

علامہ اقبال کاکچھ کلام باقیات اقبال کے نام سے شائع ہوا ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے کلام کومرتب کرتے وقت نظر انداز کردیا تھااس میں سے دوشعر پیش ہیں

؂ جس طرح مجھ کوشہید کربلا سے پیار ہے

حق تعالیٰ کویتیموں کی دعا سے پیار ہے

؂ رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں

کیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

علامہ اقبال نے اپنے کلام کووسعت اورزندہ وجاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا علامہ کے فارسی کلام کوپڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ’’نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہوسکتی۔

علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں’’درمعنی حریت اسلامیہ وسیر حادثہ کربلا‘‘کے عنوان سے امام عالی مقام کوخراج عقیدت پیش کیا ہے اس علامہ اقبال اسلام کی خصوصٰات بیان کرتے ہوئے کربلاکاتذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل وعشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پرآئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسینؑ کوکس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اورکن پہلوؤں پرزور دینا چاہتے ہیں حسینؑ کے کردار میں انھیں عشق کاوہ تصور نظرآتا ہے جوان کی شاعری مرکزی نقطہ ہے اوراس میں انھیں حریت کاوہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب وتاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے آئیے ان فارسی اشعار کامطالعہ کرتے ہیں

؂ ہرکہ پیماں باھُوَالمَوجود بست گردنش از بندہرمعبود رست

جوشخص قوانین خداوندی کی اتباع کومقصود زندگی قرار دے لے اوراسی طرح اپنا عہدوپیمان اللہ سے باندھ لے اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اورمحکموی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘

پہلے شعر کے بعد علامہ نے عشق وعقل کاخوبصورت موازنہ پیش کیا ہے یہ موازنہ پیش کرکے اقبال بتانا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ اورکربلا کوسمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہئے امام عالی مقام کایہ کارنامہ عقل کی بنا پرظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرماتھی اس لئے ایسے لوگ جوعقلی دلائل پرواقعہ کربلا کی توضیح کرتے ہیں وہ ہمیشہ شک وتردید کااظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جوعشق کی نظر سے دیکھتے ہیں توپھر وہ اس نتیجہ پرجاپہنچتے ہیں جہاں علامہ اقبال پہنچ گئے ہیں

؂ عشق را آرام جاں حریت است ناقہ اش را ساربان حریت است

عشق کوکامل سکون اوراطمینان آزادی ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘

؂ آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد عشق باعقل ہوس پرورچہ کرد

اقبال تمہیدی اشعار کے بعد واقعہ کربلا کی طرف آتے ہیں اورکہتے ہیں’’تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیاکیا۔

؂ آں امام عاشقان پسر بتولؑ سرد آزادے زبستان رسولؐ

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر

عاشقوں کے امام حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد اورحضورؐ کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علیؑ ان کے والد بزرگوار ہیں اس میں’’اللہ اللہ‘‘وہ کلمہ تحسین ہے جومرحبا اورشاباش کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حضرت علی ؑ کو‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یادکیاگیا ہے یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیتؑ شناسی پرایک دلیل ہے امام حسینؑ کو’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیا ہے علامہ اقبال قربانی امام حسینؑ کوقربانی اسماعیل ؑ کاتسلسل قرار دیتے ہیں۔

؂ بہرآں شہزادہ خیرالعملل دوش ختم المرسلین نعم الجمل

روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ اپنے دونوں نواسوں کوکندھوں پرسوار کرکے کھیلا رہے تھے آپؐ نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اوراس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

؂ سرخ رو عشق غیور از خون او شوخی ایں مصرع از مضمون او

امام حسینؑ کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اوررعنائی پیدا ہوگئی ہے۔

؂ درمیاں امت آں کیواں جناب ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب

امت محمدیہؐ میں آپؑ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے اسی طرح امام حسینؑ کوبھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

؂ موسیٰ وفرعون وشبیر ویزید

ایں دوقوت از حیات آید پدید

؂ زندہ حق از قوت شبیری است

باطل آخر داغ حسرت میری است

دنیا میں حق وباطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کاغلبہ ہوتا ہے اورباطل شکست ونامرادی سے دچار

؂ چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت رازہراندرکام ریخت

خاست آں سرجلوہ خیرالامم چوں سحاب قبلہ باراں درقدم

برزمین کربلا بارید ورفت لالہ درویرانہ کارید رقت

جب خلافت کاتعلق قرآن سے منقطع ہوگیااور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکرونظر باقی نہ رہی تواس وقت امام حسینؑ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹااٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پربرسا اوراسے لالہ زار بنادیا۔

؂ تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد

آپؑ نے اس طرح قیامت تک ظلم واستبداد کے راستے بندکردیئے اوراپنے خون کی سیرابی سے ریگزاروں کوچمنستان بنادیا۔

؂ بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ است پس بنائے لاالٰہ گرویدہ است

آپؑ نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اوراس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ’’لاالٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے اس مصرع کی طرف:’’حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسینؑ

؂ مدعایش سلطنت بودے اگر خودنکردے باچنیں سامان سفر

دشمناں چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزداں ہم عدد

اگر آپؑ کامقصد حصول سلطنت ہوتا تواس بے سروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان واسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تویہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کالشکر لاتعداد تھامگر آپؑ کے ساتھ صرف بہتر(72)نفوس تھے یہاں علامہ نے یزداں کے عدد’’72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔

؂ سرابراہیمؑ واسماعیلؑ بود یعنی آں جمال راتفصیل بود

کربلا کے واقع میں قربانی اسماعیلؑ کی تفصیل ہے۔

؂ تیغ بہرعزت دین است وبس مقصد اوحفظ آئین است وبس

مومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ واقتدار کے لئے اٹھتی ہے ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کامقصد آئین اورقانون کی حفاظت ہوتا ہے۔

؂ ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نسیت پیش فرعونی سرش افگندہ نسبت

مسلمان اللہ کے سوا کسی کامحکوم نہیں ہوتا اس کاسرکسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔

؂ خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ رابیدار کرد

امام حسینؑ کے خون نے ان اسرار ورموز دین کی تفسیر کردی اورسوئی ہوئی ملت کاجگایا۔

؂ تیغ لا چوازمیاں بیروں کشید از رگ ارباب باطل خوں کشید

انھوں نے جب’’لا‘‘ کوبے نیام کیاتوباطل کے خداؤں کی رگوں سے خون جاری ہوگیا۔

؂ نقش الا للہ برصحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشت

باطل کے خداؤں کومٹانے کے بعد انھوں نے سرزمین کربلا پرخدا کی توحید کانقش ثبت کردیا وہ توحید جوہماری نجات کاسرعنوان ہے۔

؂ رمز قرآن از حسینؑ آموختیم بہ آتش او شعلہ ھا اندوختیم

ہم نے قرآن کے رموز واسرار امام حسینؑ سے سیکھے ہیں ان کی حرارت ایمانی سے ہم نے شعلہ ہائے حیات کوجمع کیا ہے۔

؂ شوکت شام وسحربغداد رفت سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت

تار ما ازخمہ اش لرزاں ہنو ز تازہ از تکبیر اوایمان ہنوز

مسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اورمٹ گئیں بنی امیہ کی سلطنت دمشق میں بھی اوراندلس میں بھی ،بنی عباس کی حکومت ،یہ اپنے پورے عروج کے بعد ختم ہوگئیں لیکن داستان کربلا ابھی تک زندہ ہے ہمارے تارحیات میں پوشیدہ نغمے اسی مضراب سے بیدار ہوتے ہیں امام حسینؑ نے تکبیر کی جوآواز بلندکی تھی اس سے ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔

؂ اے صبا اے پیک دور افتادگاں اشک ما برخاک پاک او رساں

اے صبا!توہماری نم آلود آنکھوں کاسلام مرقد امام حسینؑ تک پہنچادے۔

علامہ اقبال کے کلام سے مذید مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔لیکن طوالت سے بچنے کے لئے حضرت معین الدین چشتی اجمیری کا وہ مشہور کلام جس نے مقصد امام حسین و قیام کربلا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

شاہ است حسین بادشاہ است حسین

دین است حسین دین پناہ است حسین

سرداد نہ داد دست در دست یذید

حقی کہ بنائے لا اللہ است حسین

اسی طرح ایک اور شاعر نے یوں عقیدت باندھہ کر حقیقت عیاں کی ہے۔

حسینؑ تیرا، حسینؑ میرا
حسینؑ کا سب دلوں پہ ڈیرہ
حسینؑ چندا، حسینؑ سورج
وہ ہی ہے صبح، وہ ہی سویرا

حسینؑ دریا، حسینؑ پانی
حسینؑ ہر دل کی ہے کہانی
حسینؑ عظمت کی انتہا ہے
حسینؑ ہی ہے، نبیﷺ کا جانی

حسینؑ سارے دلوں کی دھڑکن
حسینؑ سے یہ جہاں ہے روشن
حسینؑ کلیاں، حسینؑ خوشبو
حسینؑ گ ±ل اور حسینؑ گلشن

وہ بے سہاروں کا ہے سہارا
وہ ہی کشتی، وہ ہی کنارا
وہ ہی ہے چھایا ہر اک ذہن پر
ہر اک زباں پر اسی کا نعرہ

اسی کی شاہی جہاں میں قائم
وہ ہی ہے سارے دلوں کا حاکم
وہ ہی مقدر سنوارتا ہے
وہ ہی ہے داتا، وہ ہی ہے قاسم

حسینیت کا علم اٹھائے
حسینؑ والے جہاں پہ چھائے
جو باقیاتِ یزیدیت ہیں
جہاں میں پھرتے ہیں منہ چھپائے

حسینؑ گر نہ شہید ہوتا
تو آج گھر گھر یزید(ل) ہوتا
نہ سر کٹاتی جو جانِ احمدﷺ
یزید(ل) کیونکر یزید(ل) ہوتا

ہے تجھ پہ “عاطف” کرم اسی کا
رحم خدا کا، فضل نبی کا
کہ لکھ رہا ہے تو اسکی مدحت
یہی تو مقصد ہے بندگی کا۔<

9 0 2 ??????????????????????????????? 4 5 6

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.