شمس کویتی : جہنم میں کھلا در باد نسیم کا

sahms

33

اس سے پہلے کہ میں آپ کو ” جہیم العرب ” ( جہنم عرب ) کی اصطلاح استعمال کرنے والی اس آزاد ، خوش گلو و خوش رو عرب حسینہ سے متعارف کراؤں ، پہلے اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس کی پروفائل میں لکھے ان جملوں پر غور کرلیں


أع
شق الغناء أمقت التطرف متمرده احب الحياة اكره التخلف مذهبي الانسانية لا اتبع الظلام


میں موسیقی سے عشق کرتی ہوں اور انتہا پسندی سے متنفر ہوں ، میں زندگی کی چاہ میں مبتلا ہوں اور اور انسانیت کے درمیان مذھب کی بنیاد پر اختلاف سے کراہت کرتی ہوں میں ” اندھیروں کی اتباع نہیں کرتی شمس ایک سعودی باپ اور کویتی ماں کے ہآں پیدا ہوئی ، جب دو سال کی تھی تو اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور اس کی والدہ نے ایک کویتی سے شادی کرلی ، جس کے ہاں اس نے تعلیم و تربیت پائی اور یہیں کویت میں اس نے موسیقی کی تربیت لی اور پھر ایک سعودی سے شادی کرکے متحدہ عرب امارات منتقل ہوگئی ، لیکن یہ شادی اس پر بوجھ بن گئی اور اس نے طلاق لے لی ، سعودی سماج پر اس نے بہت ہی گہرا طنز کرتے ہوئے اپنی طلاق پر کچھ یوں روشنی ڈالی

“لما تتزوجي سعودي تحسي إنك متزوجة المجتمع كله معه، هو كشخص مش معترض تصرفاتي، لكن بعدما أعلنا خبر زواجنا أصبح يهتم بنظرة المجتمع، وأنا إنسانة حرة


جب آپ کسی سعودی سے شادی کرتے ہو تو گویا پورے سعودی سماج سے آپ کا نکاح ہوجاتا ہے ، اور یہ جو مش تھا یہ مرے اعمال پر معترض نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمارے اعلان شادی کے بعد یہ پورا سعودی سماج تھا جو مجھ پر تہمت دھرتا تھا تو میں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ، میں ایک آزاد انسان ہوں


شمس کویتی نے حال ہی ایک ٹی وی چینل میں مذاکرے کے دوران چشم کشا باتیں کیں ، ان سے اینکر نے پوچھا کہ وہ ” عرب دنیا کو ایک جہنم سے تشبیہ دیتی ہیں اور مغربی ملکوں کی شہریت کی حمایت کرتی ہیں تو انھوں نے برجستہ کہا کہ واقعی عرب دنیا ایک جہنم ہے اور اس کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی شہریت ہونا جنت کے شہری ہونے کے مترادف ہے جب شمس کویتی سے میزبان نے کہا کہ ان کے اس خیال پر ان پر غداری کا الزام لگ سکتا ہے تو انہوں نے کہا


مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، میں منافقت نہیں کرسکتی ، عرب دنیا ایک جہنم ہے ، لاکھوں عراقی اور شامیوں مرد ، عورتوں اور بچوں کے لئے عرب دنیا کے ملکوں کی سرحدیں بند ہیں اور کوئی ان کو اپنے ہاں رکھنے کو تیار نہیں ہے ، جبکہ لاکھوں شامی و عراقی عورتیں ، بچے ، مرد بری طرح سے موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں تو اگر یہ شامی یا عراقی برطانوی شہری ہوتے تو برطانوی سفارت خانہ جہاز منگواکر ان شہریوں کو نکال لیتا ، لیکن یہ جو عرب امت ہے یہ فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے


شمس کویتی سے میزبان نے کہا کہ عربوں ملکوں میں جو فساد ہے یہ انہی ملکوں کا پیدا کردہ ہے جن کی شہریت کی آپ حمایت کررہی ہیں تو شمس کویتی نے کہا کہ عرب دنیا میں جنگوں ، خون ریزی کی تاريخ 1400 سال پرانی ہے اور یہ جو داعش یزیدیوں ، شامیوں ، عراقیوں کے ساتھ کررہی ہے ، کیا یہ سب کرنے کو مغربی ملکوں نے کہا ہے ، اس نے نے مزید کہا کہ وہ سیاست دانوں سے نفرت کرتی ہے لیکن سیاسی امور پر ایک انسان پسندانہ نکتہ نظر سے بات کرنا اس کا حق بنتا ہے اور آرٹسٹ کو سیاسی و سماجی امور میں انسانیت پسندانہ نکتہ نظر سے بات کرنی چاہئے


اس نے کہا کہ عرب دنیا میں آئیں ، قانون ، دستور میں کہیں احترام انسانیت کی پابندی کا زکر نہیں ہے لیکن کم از کم جن ملکوں کی شہریت کی وہ حامی ہے وہاں کہ سب موجود تو ہے جبکہ عرب دنیا میں تو کہیں ہاتھ کاٹنے ، کہیں سنگسار کرنے ، کہیں سر قلم کرنے جیسے ضابطے چل رہے ہیں


شمس کویتی کی آواز عرب دنیا کے حکمرانوں کے ایوانوں میں صور اسرافیل کی طرح گشت کررہی ہے ، شمس کویتی نے کہا کہ ” سعودی عرب کی شہریت لینا جہنم میں رہنے کے حقوق حاصل کرنے جیسا ہے ، انہوں نے سعودی شہریت ترک کردی ہے مجھے لگتا ہے کہ شمس کویتی کے بارے میں بھی برگر کمرشل لبرل سعودی نواز پریس بہت جلد یہ انکشاف کرے گا کہ شمس کویتی اصل میں ایران کی ایجنٹ ہے جسے خادمین حرمین شریفین کو بدنام کرنے کے لئے متحرک کیا گیا جبکہ مجھے یقین ہے کہ اگر شمس کویتی ایران میں ہوتی تو ابتک پاسداران انقلاب کے ہاتھوں ماری جاچکی ہوتی یا ایرانی آیت مذھبی عدالتوں نے اسے مرتد قرار دیکر پھانسی چڑھانے کا حکم دے دینا تھا

https://www.facebook.com/1438961109700144/videos/1622619738000946/

Comments

comments