دادری واقعے نے بھارتی سیاسی شعور کی قلعی کھول دی

151001082854_narendra_modi_mark_zuckerberg_mother_of_akhlaq_ahmad_640x360_bbcandafp_nocredit

گذشتہ ہفتے دہلی سے ملحق علاقے دادری میں گ‏ا‏ئے کےگوشت کھانے کی افواہ پر ایک 50 سالہ مسلمان کے قتل نے سیاسی شعور کی ناکامی کو اجاگر کر دیا ہے۔

یہ واقعہ بھارتی دارالحکومت دہلی سے محض 50 کلومیٹر دور پیش آیا۔

محمد اخلاق جو پیشے سے لوہار تھے انھیں مشتعل ہجوم نے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا جبکہ اس واقعے میں ان کا 22 سالہ بیٹا دانش شدید طور پر زخمی ہو گیا۔

اخلاق کا دوسرا بیٹا جو بھارتی فضائیہ میں ٹیکنیشين کے طور پر کام کرتا ہے وہ حملے میں اس لیے بچ گیا کیونکہ وہ گاؤں میں نہیں رہتا۔

اس واقعے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے لیکن سوشل میڈیا پر انتہائی سرگرم وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی اختیار رکھی ہے۔

مودی نے اپنے حالیہ امریکی دورے میں وہاں کے لوگوں کی طرف سے کی جانے والی مہمان نوازی کے لیے ٹوئٹر پر ان کا شکریہ ادا کیا، اپنی کابینہ کے ایک ساتھی اور ایک گورنر کو ان کی سالگرہ پر مبارک دی اور چین کے لوگوں کو ان کے قومی دن پر مبارکباد دینا بھی نہیں بھولے۔

مودی نے ٹوئٹر کے ذریعے ایک گلوکارہ کے بیٹے کے انتقال پر غم کا اظہار کیا جبکہ بليئرڈز کے چیمپئن کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی۔

تاریخ داں شیو وشوناتھن کے مطابق دادری معاملے پر مودی کی خاموشی ’بے حسی کی خاموشی ہے، اور یہ متاثرین کے جذبات کی ناقدری کے سبب ناشائستہ ہے۔‘

اکثریت کے ساتھ ملک پر راج کرنے والی ان کی پارٹی نے تو اس سے بھی برا کیا۔

پارٹی کے سینیئر رہنما ترون وجے نے ایک اخبار میں لکھا کہ ’محض افواہ پر ایک شخص کا قتل بالکل غلط ہے۔‘ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر اس نے واقعی گوشت کھایا ہوتا اور ہجوم کے پاس اس بات کے ثبوت ہوتے تو یہ سزا جائز ہوتی۔

کالم نگار پرتاپ بھانو مہتا نے کہا: ’ترون وجے نے انسانی قتل کے معاملے پر بھی معافی مانگنے میں انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’اس کی مکمل ذمہ داری وزیر اعظم مودی پر آنی چاہیے۔‘

سیاسی شعور کی کمی مودی کی خاموشی اور ترون وجے کے مضمون پر ہی ختم ہی نہیں ہوتی۔

مرکزی وزیر ثقافت اور مقامی ایم پی مہیش شرما نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور کہا کہ گائے کے گوشت کی افواہ کے ’واقعے کے رد عمل کے نتیجے میں یہ قتل ہوا ہے۔‘

مہیش شرما نے وہاں موجود صحافیوں سے کہا کہ گھر میں ’اخلاق کی بیٹی بھی تھی، لیکن اسے کسی نے نہیں چھوا۔‘ ان کے اس بیان سے ایسا لگا کہ جیسے بھارت کی خواتین کو اس رحم و کرم کے لیے ان کا ہمیشہ کے لیے شکرگزار ہونا چاہیے۔

بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم نے اتوار کو گاؤں کا دورہ کیا اور مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے کہا کہ اگر ہندو برادری کے معصوم لوگوں کو اس قتل کے لیے ’ذمہ دار قرار دیا گیا تو ہندو منھ توڑ جواب دینے کے قابل ہیں۔‘

اپوزیشن پارٹیاں بھی اس معاملے پر کچھ کم نہیں نكليں۔

129 سال پرانی پارٹی کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی واقعے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اخلاق کے خاندان سے ملنے پہنچے۔ اس کے بعد انھوں نے یکے بعد دیگرے تقریبا نصف درجن ٹویٹ کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ گاؤں والوں کی ہم آہنگی برقرار رکھنے کی خواہش سے وہ بہت متاثر ہوئے اور یہی جذبہ ملک کو مشکل وقت سے باہر نکالے گا۔

ڈاکٹر وشوناتھن کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی ’بھولے پن اور عنفوان شباب کی سیاست‘ فرقہ واریت کے زہر کے خلاف اپنی دورخی سیکیولر حمایت اور ذمے داری سے دامن جھاڑنا اور لوگوں کو اپنی حفاظت کرنے کے لیے اپنے حال پر چھوڑ دینا ہے۔

بھارت کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی اس مسئلے پر اتنا ہی کچھ کر سکی۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اتر پردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سماج وادی حکومت ان سب سے بے نیاز ہے اور ریاست میں مذہبی فسادات اور جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اکھلیش یادو کی حکومت سستے میں جان چھڑانا چاہتی ہے۔ اکھلیش نے اخلاق کے خاندان کو طیارے سے لکھنؤ بلایا اور واقعے کے بعد سے معاوضے کی رقم میں تین بار اضافے کا اعلان کیا اور انھیں انصاف دلانے اور تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

دہلی میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال بھی واقعے کے تقریبا ایک ہفتے بعد گاؤں پہنچے اور پہلے الزام لگایا کہ پولیس انھیں گاؤں میں داخل نہیں ہونے دے رہی ہے اور اس کے بعد جب وہ گاؤں پہنچے تو تمام جماعتوں پر ووٹ بینک کی سیاست کرنے کا الزام لگایا۔

بھارتی فضائیہ کے سربراہ اروپ راہا نے بھی رد عمل کا فوری اظہار کیا اور کہا کہ وہ اخلاق کے خاندان کو فضائیہ کے قریب ترین علاقے میں منتقل پر غور کر رہے ہیں۔

انھوں نے محمد سرتاج کے بارے میں کہا: ’ہم ان کے ساتھ ہیں اور ہمارے لوگ ان کے خاندان کی مدد کرنے کے لیے وہاں ہیں۔‘

اتوار کو ایک ٹاک شو میں سرتاج نے اقبال کی وطن پرستانہ نظم سے ’سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا‘ پڑھی اور کہا، ’کچھ لوگوں کی غلطی کے لیے اکثریت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔‘

بھیڑ جب اخلاق کے گھر میں داخل ہوئی تو انھوں نے مدد کی آخری اپیل اپنے ایک ہندو دوست کے خاندان سے ہی کی۔

اور پھر بہت سے ہندو خاندانوں نے اپنے پڑوسی مسلمانوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا۔ ان باتوں سے ابھی بھی امیدیں باقی ہیں۔

سیاسی ماہر نفسیات آشیش نندی کہتے ہیں: ’دادری واقعہ وسیع پیمانے پر بھارت کے سیاسی شعور کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔‘

وشوناتھن کہتے ہیں: ’ہر پارٹی ہر مسئلے کو سیاسی عینک سے دیکھتی ہے۔ ان کا مقصد صرف انتخابات جیتنا رہ گیا ہے، یعنی انتخابی جمہوریت اصل میں بھارت کے لیے جمہوریت مخالف بن گیا ہے اور بھارت کو اپنی ناکام جمہوریت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

Source:

http://www.bbc.com/urdu/regional/2015/10/151006_india_needs_fix_dysfunctional_democracy_mb?ocid=socialflow_facebook

Comments

comments