داعش یرغمالی خواتین کو فروخت کر رہی ہے – بی بی سی رپورٹ

150818133638_isis_feature_624x351_bbc

گذشتہ سال شمالی عراق پر دولت اسلامیہ کے قبضے کے بعد مذہبی اقلیت یزیدیوں نے وہاں سے راہِ فرار اختیار کی تو ان کی بہت سی خواتین اور لڑکیاں یرغمال بنا لی گئیں۔ تاہم بی بی سی فارسی کی نامہ نگار نفیسہ کوہ نورد کی رپورٹ کے مطابق ایک عراقی تاجر کے سمگلروں کے نیٹ ورک کی بدولت ان میں سے سینکڑوں خواتین آزاد کروا لی گئی ہیں۔

اس وقت عراق اور ترکی کی سرحد پر رات کا ایک بجا ہے اور محافٌظ سرحدوں کے دروازے بند کرنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی مسافر ترکی جانے والی آخری بس پر جلدی جلدی سوار ہو رہے ہیں، لیکن ایک یزیدی خاندان خاموشی کے ساتھ چوکی پر نظریں جمائے کھڑا ہے۔

اچانک ترکی کی سرحد کی جانب سے ایک عورت اور چار بچے نمودار ہوتے ہیں جو عراقی سرحد پر کھڑے خاندان سے گلے ملتے ہیں اور پھر سبھی زار و قطار رونے لگتے ہیں۔

ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے انھیں یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ تمام دوبارہ ایک ساتھ ہیں۔

خاتون کی عمر 35 سال اور بچوں کی عمریں چار سے دس سال کے درمیان ہیں۔ وہ پچھلے سال اگست میں عراق میں سنجر کے علاقے میں اپنے گاؤں پر دولت اسلامیہ کے حملے کے بعد اغوا کر لیے گئے تھے۔

اغوا کے بعد ان لوگوں کو شام کے علاقے رقہ لے جایا گیا جسے دو ماہ قبل ہی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اپنا حقیقی دارالخلافہ قرار دیا ہے۔

خاتون بہت کمزور لگ رہی تھیں اور بہت مشکل سے کھڑی ہو پا رہی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’وہ سب بہت دہشت ناک تھا۔ وہ ہمیں ناکافی غذا اور پانی دیتے تھے اور ہمیں نہانے بھی نہیں دیتے تھے۔ وہ ہمیں کبھی کبھار مارتے بھی تھے۔‘

یہ خاتون اور اس کے بچے اپنی رہائی کے لیے ایک عراقی تاجر عبداللہ کے احسان مند ہیں جو پہلے شام سے زراعت کا سامان خریدا کرتے تھے مگر اب دولت اسلامیہ کے ہاتھوں اغوا شدہ لوگوں کے لیے آزادی خریدتے ہیں۔

خاتون اور ان کے بچوں کو ان کے باقی خاندان سے ملانے کے بعد عبداللہ ہمیں اپنے معمولی سے مکان میں لے گئے جہاں انھوں نے ہمیں اپنی 22 سالہ بھتیجی مروہ سے ملوایا۔

خاتون کی طرح مروہ اور ان کے 55 رشتے داروں کو بھی دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے پچھلے سال سنجر کے علاقے سے اغوا کر لیا تھا۔

دو ماہ پہلے مروہ اپنے چچا سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور انھیں بتایا کہ انھیں رقہ کے ایک مکان میں قید رکھا گیا ہے۔

عبداللہ کہتے ہیں: ’میں نے انھیں بتایا کہ ’وہ لوگ کرد زبان نہیں جانتے۔ اس لیے میری بات غور سے سنو۔ اگر تمہیں اس گھر سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے تو میں تمہیں یہاں سے نکالنے کے لیے کسی کو بھیجوں گا۔‘

ایک رات مروہ سامنے والے دروازے کی چابی چرانے میں کامیاب ہو گئیں اور وہاں سے باہر نکل آئیں۔

مروہ نے بتایا کہ ’میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں جانا چاہتی ہوں۔ پہلے تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ خوفزدہ ہے کیونکہ اگر دولت اسلامیہ کے لوگوں نے اسے میرے ساتھ دیکھ لیا تو وہ ہم دونوں کو قتل کردیں گے۔ لیکن بعد میں وہ مجھے شہر کے دوسرے حصے تک لے جانے کے لیے راضی ہو گیا جہاں پر بہت سے اچھے لوگ میری مدد کرسکتے تھے۔‘

اگلے دن مروہ نے اپنے چچا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن دولت اسلامیہ کے اغوا کار کو اس کی قیام گاہ کے بارے میں پتہ چل گیا تھا۔ اس نے مروہ کو پناہ دینے والوں سے کہا کہ یا تو وہ اسے واپس کریں یا پھر7500 ڈالر کے عوض خرید لیں۔

اس نے مروہ کے چچا سے بھی رابطہ کیا۔ عبداللہ نے بتایا کہ ’میں نے اس سے کہا: ’ٹھیک ہے مجھے کچھ وقت دو اور میں تمھیں رقم پہنچا دوں گا۔ لیکن میری بھتیجی کو ہاتھ نہیں لگانا۔‘

اس کے بعد عبداللہ نے شام میں اپنے پرانے کاروباری رابطے استعمال کرنا شروع کیے اور بالآخر مروہ کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے۔

گذشتہ ایک سال کے دوران عبداللہ نے شام، ترکی اور عراق میں سمگلروں اور رابطوں کا نیٹ ورک بنا لیا ہے جس کے ذریعے وہ اب تک 300 سے زائد عورتوں اور بچوں کو دولت اسلامیہ کے چنگل سے آزاد کرا چکے ہیں جن میں زیادہ تر یزیدی ہیں۔

انھوں نے اندازہ لگایا ہے کہ دولت اسلامیہ کی قید سے رہائی کی قیمت فی شخص 6000 سے 35000 ڈالر کے درمیان ہے۔

نوجوان لڑکیوں کے لیے وہ زیادہ رقم طلب کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بچوں کو بھی نہیں بخشتے۔ ’ایک مرتبہ ایک خاندان کو صرف ایک ماہ کے بچے کے لیے 6000 ڈالر دینا پڑے۔‘

بہت سے خاندانوں کے لیے اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

مذکورہ خاتون اور ان کے بچوں کو ان کے سسر مردان نے 35000 ڈالر کے عوض آزاد کرایا۔

مردان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے پاس جو کچھ بھی تھا میں نے بیچ دیا۔ مجھے رقم حاصل کرنے کے لیے گھر گھر جانا پڑا۔ اب مجھے یہ ساری رقم واپس کرنی ہے مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جبکہ میرے خاندان کے 17 افراد ابھی بھی دولت اسلامیہ کی قید میں ہیں۔‘

اس سال کے شروع میں مردان نے اپنی ایک اور بہو اور اس کے دو بچوں کو آزاد کرنے کے لیے بھی 35000 ڈالر کا انتظام کیا تھا۔ لیکن وہ کرد سمگلر جو رقم پہنچانے کا کام کررہا تھا، مارا گیا اور 17500 ڈالر جو اسے دولت اسلامیہ کے اغوا کاروں کو دینے تھے وہ بھی غائب ہو گئے۔

وہ اب مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر مردان اپنی بہو اور پوتے پوتیوں کو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ان کو 10000 ڈالر بھجوائیں۔

عبداللہ کا کہنا ہے کہ تاوان کی زیادہ تر رقم دولت اسلامیہ کو جانے کے بجائے انسانی سمگلروں کے پاس چلی جاتی ہے لیکن ان کو معلوم ہے کہ ان کی اس کارروائی کے ذریعے اس گروہ کے پاس بھی کچھ نہ کچھ آ ہی جاتا ہے۔ لیکن ان کو اغواشدہ یزیدیوں کو ان کے خاندان سے واپس ملانے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔

’دولت اسلامیہ کے لیے عورتیں اور لڑکیاں کسی شے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور ہمارے پاس یہ واحد راستہ ہے کہ ہم سرحد پر دوسرے سامان کی طرح ان کی بھی تجارت کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل مرحلہ رقم دیتے وقت دولت اسلامیہ کے لوگوں کے اصلی ہونے کی تصدیق کا ہوتا ہے۔

پچھلے ایک سال کے دوران عبداللہ کے ساتھ کام کرنے والے 23 سمگلروں کو دولت اسلامیہ کے لوگ قتل کر چکے ہیں۔

عبداللہ نے بتایا کہ ’کبھی کبھار وہ ہمیں فون کرکے یزیدیوں کو لے جانے کو کہتے ہیں۔ لیکن جب ہم اپنا آدمی دولت اسلامیہ کے علاقے میں بھیجتے ہیں وہ اغوا ہونے کے بعد مار دیے جاتے ہیں۔‘

عراقی حکومت اور کرد حکام نے یزیدی قیدیوں کو بحفاطت واپس لانے کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے ایک دفتر قائم کیا ہے لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیابی آسان نہیں ہے۔

کردستان کی علاقائی حکومت کے یزیدی امور کے رابطہ کار نوری عثمان عبدالرحمٰن کے مطابق ’ابھی بھی بہت سارے لوگ دولت اسلامیہ کی قید میں ہیں اور ہمارے پاس ابھی تک اتنی رقم نہیں ہے کہ ان تمام کو واپس لانے کے لئے سمگلروں کو دے سکیں۔‘

بہت سارے خاندانوں کے پاس عبداللہ کی مدد کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

بہت سا تاوان ادا کیا جا چکا ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ قیدیوں اور ان کا انتظار کرنے والے دونوں کے لیے یہ اس تکلیف کی قیمت ہے جو انھیں ان کی زندگی کے سب سے بڑا سانحے سے ملی ہے۔

مروہ ابھی تک اپنے اوپر بیتنے والے واقعے کے صدمے سے باہر آنے کی کوش کرہی ہیں۔

مروہ کہتی ہیں کہ ’جب میں پریشان ہوتی ہوں تو مجھ پر گھبراہٹ کے دورے پڑتے ہیں اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور مجھے اپنے اور دوسری لڑکیوں پر بیتنے والے واقعات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔‘

عبداللہ کی کوششوں کے بعد بھی اپنے خاندان میں یہ واحد فرد ہے جو رہا ہونے میں کامیاب ہو ئی ہے۔

Source:

http://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150818_is_escape_gh

Comments

comments