صوفی بریلوی عقائد بمقابلہ تکفیری دیوبندی سلفی دہشت گردی – اخترعباس
posted by Guest Post | August 5, 2015 | In Original Articles, Urdu Articles
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے فیس بک پر میرے ایک اییر فورس کے دوست نے ایک ویڈیو شییر کی۔ کسی مزار کی تقریب تھی اور ایک متولی صاحب اپنے مریدوں کے حلقے میں گھرے ہوے تھے۔ کوی ہاتھ چوم رہا تھا اور کوی پیروں کو ہاتھ لگا رہا تھا۔ کچھ لوگ جھوم بھی رہے تھے۔ اگر آ صوفی اسلام کی رسومات سے واقف نہیں، تو ایک پڑھے لکھے انسان کی حیثیت سے شاید آپ کو بہت ساری باتیں قابل اعتراض لگتیں۔ نتیجتا کچھ لوگوں نے تبصرے اور تنقید بھی کی۔ میری راے میں ان تبصرہ کرنے والوں کو حق تھا کہ وہ اپنی راے کے مطابق اس مزار کے ماحول کو غلط سمجھتے۔ میرے نزدیک وہ مزار والے لوگ بھی اپنی مرضی کی عبادت یا رسوم و رواج کے مطابق عمل کرنے کے حق دار تھے۔ لیکن مجھے چھٹکا تب لگا جب ایک صاحب نے ( جو رسالپور اکیڈمی میں میرے سینیر تھے اور فوج میں میجز بن چکے تھے) تبصرہ کیا کہ یہ خود کش حملہ کرنے کے لئے بہترین جگہ ہے اش وہ صاحب مزاق کر رہے ہوتے، حالانکہ یہ ایک بھیانک مزاق تھا مگر بھر بھی میں اس ان کی نا سمجھی کہتا۔ مگر وہ صاحب سیریس تھے۔
اس دن مجھے احساس ہوا کہ مسلہ صرف چند ہزار طالبان کا نہیں ہے۔ مسلہ ان سارے داڑھی والے اور بغیر داڑھی والے بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کا ہے جنہوں نے دین کے نام پر عدم برداشت اور جہاد کے نام پر تشدد کو اپنا نظریہ مان لیا ہے۔ یہ خود کچھ کریں نہ کریں، لیکن اس نظریاتی ماحول کا ضرور حصہ ہیں جن میں ایک خود کش حملہ آور پروان چڑھتا ہے۔ دہشت گردی ایک پیرامڈ کی طرح ہے، جس کے سرے پر حملہ آور ہوتا ہے لیکن اس معاشرے کی ایک ایسی وسیع بنیاد ملتی ہے جو ہر قدم پر نفرت کے پتھروں سے بھری ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تب تک دھماکے ہوتے رہیں گے جب تک ایسے متشدد زہنیت کے افراد اپنی سوچ نہیں بدل دیے۔ اختلاف را ے رکھو، ایک دوسرے کو کافر بھی کہو، مگر یہ بم دھماکوں اور گولہ بارود والی بات نہ کرو۔