ملّا عمر کا جانا اور آنا ملّا اختر منصور کا – افسانہ اور حقیقت – صداے اہلسنت
جولائی کے آغاز ہی میں پاکستانی میڈیا میں 80ء کی دھائی میں “افغان جہاد ایکسپرٹ اور تجزیہ نگار ” بنکر ابھرنے والے صحافی اور پھر ” ماہر طالبانیات ” کے بارے میں یہ خبریں موصول ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ طالبان لیڈر ملاّ اللہ داد کی اپنے گارڑ کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت کے بعد ملّا اختر محمد منصور سے شدید اختلافات رکھنے والا ایک گروپ جو فدائی محاذ کے نام سے کام کررہا ہے سامنے آیا ہے سے ہمارے یہ ” افغان جہاد ایکسپرٹ اور ماہر طالبانیات ” ملاقاتیں کررہے ہیں اور ان کی انوسٹی گیشن رپورٹنگ کو نئے پر لگنے والے ہیں ،
ان ماہرین کی یہ سرگرمیاں ہمارے لئے اس لئے بھی دلچسپی کا باعث تھیں کہ افغانستان میں اشرف غنی صدر بن گئے تھے اور ان کے پاکستان کے بارے میں خیالات مثبت انداز مین سامنے آرہے تھے ، آئی ایس آئی اور افغان انٹیلی جنس ڈائریکوریٹ کے درمیان ایک ایم او یو سائن ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آرہی تھیں اور پھر یہ اشرف غنی پاکستان آئے تو سیدھے وہ جنرل راحیل شریف سے ملنے جی ایچ کیو گئے ، اس کے بعد جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس آئی ، پاکستان میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ و سیکورٹی امور کے بھی افغانستان کے دورے ہوئے ، اس ساری پیش رفت کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور اس حوالے سے باضابطہ بیان بھی سامنے آگیا اور مری میں اس حوالے سے مذاکرات کا پہلا راؤنڈ ہوگیا
پاکستان نے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع کراکر اور دونوں کے درمیان ان مذاکرات کی شروعات پاکستان میں کرکے بڑی کامیابی حاصل کی اور ان مذاکرات نے خطے میں امن کے قیام کے امکانات کو روشن کیا ، لیکن جوں ہی یہ مذاکرات آگے کی جانب بڑھے تو سب سے پہلے 27 جولائی 2015ء کو دی نیوز انٹر نیشنل کے پشاور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رحیم اللہ یوسف زئی کی ایک رپورٹ سامنے آئی
Amid uncertainty over Mulla Omar’s fate….Power struggle flares up in Afghan Taliban movement
یہ وہ رپورٹ ہے جو اصل میں بعد میں ” اففان طالبان اور افغان حکومت ” کے درمیان امن مذاکرات پر شکوک و شبہات کی گرد ڈالنے سے لیکر افغان طالبان کے نومنتخب امیر ” ملّا اختر محمد منصور ” کو تحریک طالبان افغانستان کا سب سے بڑا داخلی دشمن ثابت کرنے والی نام نہاد انوسٹی گیشن رپورٹنگ پر منتج ہوئیں ، کیا ہم یہ سوال اٹھاسکتے ہیں کہ اخر 27 جولائی کو رحیم اللہ یوسف زئی کی اس رپورٹ سے پہلے بی بی سی ورلڈ ، الجزیرہ ٹی وی چینل ، بی بی سی کا چینل 4 اور پاکستانی میڈیا کے ” جہادی صحافی ” کہاں سورہے تھے اور ان کی جانب سے یہ انکشاف کیوں سامنے نہيں آیا کہ تحریک طالبان افغانستان کے نام پر مذاکرات کا پروسس اور پھر یہ مری مذاکرات کا پروسس افغان طالبان کی اکثریت کی حمائت سے محروم ہے اور یہ محض ملّا اختر منصور اور ان کے گرد جمع تین سے چار طالبان لیڈرز کے دماغ کا ساختہ ہے
رحیم اللہ یوسف زئی نے اپنی اس رپورٹ میں ملّا منصور کے درانی قبیلے کی شاخ اشک زئی کے تحریک طالبان پر اجارہ داری کا افسانہ بھی گڑھا اور کہا کہ افغان حکومت سے بات چیت کا محالف گروپ کا تعلق درانی قبیلے کی شاخ نور زئی اور علی زئی سے ہے جوکہ تحریک طالبان پاکستان میں اکثریت میں ہیں ، رحیم اللہ یوسف زئی نے لکھا
The anti-talk factions among the Taliban felt outraged by both decisions and soon consultations began in Afghanistan and Pakistan to end the monopoly of power by Mansoor and his Ishakzai Durrani clan in the movement.Those opposed to Mansoor include Taliban commanders and fighters mainly from the Noorzai and the Alizai clans of the Durrani tribe and the Kakar tribe.
Source :http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-38799-Amid-uncerta…
اسی رپورٹ میں رحیم اللہ یوسف زئی نے ملّا اللہ داد کے قتل اور نیٹو و ایساف کی اس کی لاش کے ساتھ فوٹوز کے مںظر عام پر آنے اور پھر اس قتل کا الزام ملّا اختر منصور پر لگانے کی ایک پوری داستان بیان کی اور اسی کہانی سے اس نے اینٹی ٹاک طالبان گروہ کے ابھرنے کا زکر کیا اور پہلی مرتبہ اپنی رپورٹ میں ملّا یعقوب جو کہ ملّا عمر کا بیٹا ہے ، اور ملّا عبدالقیوم زاکر کا زکر اینٹی ٹاک گروپ کے طور پر کیا ، اس رپورٹ کو پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ جیسے اصل ہدف اس رپورٹ میں مذاکرات کے پروسس کو مشکوک بنانا تھا اور ملّا منصور کو نشانے پر اس لئے رکھا گیا کہ وہ اس مری مين افغان طالبان کے مذاکراتی وفد کو بھیجنے اور اس میں حقانی نیٹ ورک کی نمائندگی کرانے میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں میں سے ہيں اور ان کی جانب سے ملّا عمر کی جانب سے عید پر افغان طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی تائید کا پیغام ميڈیا کو فیکس اور ای میل کے زریعے روانہ کیا گیا
بی بی سی نے اگلے تین سے چار دن میں یکے بعد دیگرے جو رپورٹس شایع کیں ان میں اور اس کے علاوہ الجزیرہ اور دیگر انٹرنیشنل میڈیا آؤٹ لیٹس میں جو خبریں آئیں ، اور تجزئے نمودار ہوئے ان میں استعمال کیا گیا مواد اور بیان کیا گیا اینٹی ٹاک طالبان دھڑے کے سرکردہ نام وہی تھے جو رحیم اللہ یوسف زئی کی رپورٹ مين استعمال ہوئے
ان رپورٹس اور تجزیوں کو اگر پڑھا جائے تو ان کے اسلوب اور بیانیہ سے ایسے لگتا ہے جیسے ملّا اختر منصور تحریک طالبان افغانستان پر زبردستی قابض ہوا اور اس نے افغان طالبان کی اکثریت کی مرضی کے بغیر مذاکرات شروع کئے ، بین السطور اس کو پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ایک کٹھ پتلی کے سوا اور کچھ بناکر دیکھانے کی یہ رپورٹس کوشش نہیں کرتیں
اس دوران کئی اور لوگ جن کی پاکستان کی جانب سے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اس مذاکراتی عمل میں ثالثی پر شکوک و شبہات پھیلائے جانے کا سلسلہ معروف تھا ، انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ پاکستان افغان طالبان کے اندر ایک اقلیتی پرو پاکستان ملٹری اسٹبلشمنٹ پشتون ٹولے کو افغان تحریک پر مسلط کررہا ہے اور اشرف غنّی بھی اس سازش میں شریک ہے ، کیونکہ ہمیں ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری کی قیادت کی جانب سے افغانستان کی نئی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بنیادی کردار ادا کرنے اور افغانستان سے تاریخ میں پہلی مرتبہ جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے تعلقات میں بہتری ان لوگوں کے لئے برداشت نہیں ہورہی جو پاکستان کی ملٹری قیادت کو ہمیشہ جہادی سٹریٹجک ڈیپتھ یعنی تزویراتی گہرائی کی پالیسی کی عینک سے دیکھنے اور دکھانے پر مصر رہے ہیں اور ملٹری کی پالیسی شفٹ کی کسی تھیوری کو ماننے کو تیار نہیں ہیں ، افغان کیوسچن پر پاکستان کی ملٹری قیادت نے پالیسی شفٹ گئیر کو دبایا اور اس نے افغان طالبان کا مذاکرات کے لئے ذھن بنایا اور کابل میں بیٹھے رجیم کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم کی اور پاکستان کے اندر تکفیریوں کے خلاف سخت سٹینڈ لیا
اس وقت امن ٹاک کے خلاف صحافتی سطح پر پروپیگنڈا میں دو طرح کے گروپ سرگرم ہیں ، ایک وہ جو پاکستان کے اندر ملٹری قیادت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان اور اس کے جملہ سپلنٹرز گروپ ، اور پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ دھشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف بھرپور آپریشن سے نالاں ہیں اور وہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں اور ان کے سہولت کاروں کی حوصلہ افزائی نہ کرنے اور ان کو ایسی سپورٹ فراہم نہ کرنے جس سے وہ پاکستانی ریاست کو ان سے ڈیل پر مجبور کرنے میں قائم ہوجاتے سے نالاں ہیں ، افغان طالبان کی نئی قیادت پاکستان سے معاندانہ رویہ نہیں رکھتی اور اسلام آباد کو ایک دشمن کے طور پر نہیں لیتی ، یہ تکفیری جہادی صحافتی بریگیڈ کے لئے خاصی مایوس کن بات ہے
امن ٹاک کے خلاف دوسرا صحافتی گروہ وہ ہے جس کا چہرہ بظاہر تو غیرمذھبی ، سیکولر ہے مگر اس گروہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے مربی ایسے امریکی ، یورپی ہیں جن کو انڈین نواز لابی خیال کیا جاتا ہے اور اس لابی کے نزدیک افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات اور اس میں پاکستان کی ملٹری کا کردار ان کی صحافتی زندگی کی موت ہے ، اس لئے یہ ملٹری اسٹبلشمنٹ بارے بہت سی غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں ، ان کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان تحریک طالبان افغانستان کی پالیسی سازی کے میکنزم پر اپنی کٹھ پتلیوں کو بٹھارہا ہے ، ان کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ افغانستان کا نمائندہ چہرہ ڈاکٹر عبداللہ کا ہے اور یہ پشتون قوم پرستانہ کارڑ بھی کھیلنے کے خواہاں ہيں
ویسے وہ لبرل جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی اینٹی انڈین پالیسی پر اکٹھے ہوکر ملٹری قیادت کو امن دشمن قرار دیتے ہیں ان میں افغانستان کے ایشو پر دراڑ دیکھی جاسکتی ہے ، نجم سیٹھی ، شیری رحمان سمیت ایک حلقہ ایسا ہے جو افغان ٹاک پروسس کی کھل کر حمائت کررہا ہے لیکن اس کے برعکس ایسے لبرل بھی ہیں جو نجم سیٹھی ، شیری رحمان کی افغان ایشو پر ملٹری کی حمائت پر تنقید کررہے ہیں اور ان میں کئی ایک پشتون لبرل ہیں لیکن کیا یہ اتفاق ہے کہ ایسے پشتون لبرل اپنے دیوبندی پن کو بھی چھپانے میں ناکام ہیں اور وہ ملّا اختر منصور کی مخالفت اوور اس کو ولن کے طور پر پیش کرنے کے لئے مذھبی ہتھیار اور پشتون کارڑ دونوں استعمال کررہے ہیں
ویسے رحیم اللہ یوسف زئی سمیت جن ماہرین طالبانیات نے ” ملّا عبدالقیوم زاکر ” کو ملّا منصور کا سب سے بڑا حریف بناکر دکھانے کی کوشش کی تھی ان کے لئے ملّا عبدالقیوم زاکر ” کا یہ بیان کسی دھچکے سے کم نہیں ہے
Letter of clarification by the respected Mullah Abdul Qayyum Zakir, a member of Leadership Council of Islamic Emirate of Afghanistan
ago 2 days – 102 views
May the peace, mercy and blessings of Allah be upon you:
Respected Muslim brothers and dear Mujahideen! I have heard that Mullah Muhammad Hassan Rahmani, Mullah Abdul Razzaq, Mullah Muhammad Rasul and other individuals have claimed in radios and some gatherings that Mullah Abdul Qayyum is in conflict with Mullah Akhtar Muhammad Mansur Sahib.
These claims are absolutely baseless. I reassure you all that I will exert my complete efforts in working for the Islamic Emirate and hope from Allah that I will be one of the most obedient individuals from it.
Hoping for prayers from everyone and please rest assured.
Wassalam
Your junior brother
Mullah Abdul Qayyum Zakir
31/07/2015
Source :http://shahamat-english.com/letter-of-clarification-by-the…/
ملّا محمد زاکر کا یہ بیان امارت اسلامی افغانستان طالبان کی آفیشل ویب سائٹ پر پوسٹ ہوا ہے اور اس پر تاریخ جولائی کی 31 درج ہے ، اور یکم اگست کو مولوی جلال الدین حقانی کا پیغام درج کیا گیا ہے
Message of great Jihadi Figure, Moulavi Jalaluddin Haqqani regarding the passing away of His Excellency late Amir-ul-Momineen and the appointment of new leader
ago 5 hours – 14 views
الحمد لله الذی جعل کل من علیها فان ویبقی وجه ربک ذوالجلال والاکرام والصلوة والسلام علی سیدنا امام الجاهدین المنعوت بشرح الصدر ورفع الذکر الذی حین ارتحل قام صاحبه وقال من کان یعبد محمدا فان محمداقدمات ومن کان یعبدالله فان الله حی لایموت وعلی اصحابه الذین هم مفتاتیح الرحمة ومصابیح الغرر رضی الله عنهم ورضواعنه
To all the sympathetic Muslim countries, Islamic movements, the Islamic Emirate of Afghanistan and most particularly to the bereaved family members and colleagues of His Excellency Amir-ul-Momineen late Mullah Mohammad Umar Mujahid (may his soul rest in peace)!
Peace and blessings of Allah, the Almighty, be upon you!
On the basis of a sound and rational belief, we would like to state that the passing away of His Excellency the Amir-ul-Momineen is a huge loss for the Islamic Emirate, the whole Muslim world and particularly for the Islamic Jihadi movements. We consider his sincere services and sacrifices as a cherished beneficence for the whole Muslim Umma. May Almighty Allah bestow him with an exalted abode in Paradise, and his family with patient, endurance and unfailing reward! Amin!
We are sure that the new leader Mullah Akhtar Mohammad Mansoor is appointed with complete legitimacy and after due consultation and he is the most suitable successor of His Excellency the late Mullah Mohammad Umar Mujahid (may his soul rest in peace). We fully recommend to all the senior and junior in-charge ranks of the Islamic Emirate to pledge their allegiance with him and to fully obey him. Rest assured on my personal behalf and on the behalf of our Mujahidin that we will follow him as we have obeyed the late Amir-ul-Momineen.
It is usual that the staunch enemies of Islam have always tried to misuse this kind of critical circumstances against both the Islamic movements and the Muslim masses therefore, my particular recommendation to all members of the Islamic Emirate is to maintain their internal unity and discipline. Beware that you should not be deceived by negative propaganda of the enemy otherwise, (God forbid) all the services and sacrifices of last twenty years will be marred. We seek Allah’s refuge from that unwanted situation. Not only will the oppressed people of Afghanistan be affected negatively by the internal disputes but it will definitely affect all the Muslim masses of the world. Therefore, your ranks should remain well-disciplined and fully united. Turn your complete attention towards the enemy who is on the verge of collapse.
Finally, once again, I wish you solidarity, affection, obedience and a manifest victory.
May you live prosperous and victorious!
Regards
Alhaj Moulavi Jalalludin Haqqani
Source :http://shahamat-english.com/message-of-great-jihadi-figure…/
بی بی سی کے رپورٹر الیاس خان نے بھی ملّا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کی خاموشی اور پاکستان کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہ آنے پر ایک نام نہاد تجزیاتی رپورٹ مرتب کی ، اس رپورٹ کا مقصد بھی پاکستان کی ملٹری قیادت پر یہ الزام دھرنا تھا کہ وہ افغان ایشو پر کنٹرولڈ مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے
ملّا عمر کی موت ، نئے امیر کے انتخاب پر اس قسم کی گوسپ رپورٹنگ اور فیک تجزیہ کاری کا سب سے بڑا ہدف ” مذاکرات ” کو سبوتاژ کرنا ہی ہے اور یہ کوشش ایک طرح سے اس پورے خطے کو مذھبی بنیادوں پر خانہ جنگی کے جہنم میں بدلنا ہی ہوسکتا ہے اور اس کا مقصد مجھے تو بادی النظر میں ملٹری قیادت سے کوئی حساب چکتا کرنا بھی لگتا ہے ، اس میں اگر افغانستان اور پاکستان میں امن کا مستقبل اگر تاریک ہوتا ہو تو ہوجائے ، کتنے ہی انسان بے گناہ اس دھشت گردی کی آگ ميں جھلس جائیں ، داخلی اور خارجی بے دخلی سے جنم لینے والی مہاجرتوں کا سلسلہ چلتا ہے تو چلتا رہے ، لاکھوں لوگ پناہ گزینی کی زندگی گزارتے ہوں تو گزاریں
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو تحریک طالبان افغانستان کے نئے امیر ملّا اختر منصور کا آڈیو بیان ان کی ویب سائٹ پر پوسٹ ہوا ہے اور اس بیان میں ملّا اختر منصور نے ” جہاد ” کے جاری رہنے کی بات کی ہے اور گوسپ نیوز ، افواہوں سے پھیلنے والی بے یقینی نے ملّا اختر محمد منصور کو مذاکرات کے لئے ” امن مذاکرات ” کی ٹرم استعمال کرنے کو سازش قرار دے ڈالا ہے اور وہ اپنے آڈیو بیان میں افغانستان میں ” جمہوریت ” کو خلاف اسلام قرار دینے والا بیان بھی دینے پر مجبور نظر آئے ، اینٹی ٹاک طالبان دھڑا زیادہ تر ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ایک تو پاکستان میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے تکفیریوں کا حامی ہے اور وہ تحریک طالبان پاکستان اور اس کے سپلنٹرز دھڑوں کی جانب سے پاکستان کے اندر امارت اسلامی پاکستان کے قیام کے نام پر قتال اور جنگ کو جائز قرار دیتا ہے اور یہ ملّا منصور سمیت بات چیت کے حامی طالب رہنماؤں کے خلاف نیچے اتنی فضا خراب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ خود یہ رہنماء بات چیت کے راستے کو بلاک کردیں
میرے خیال میں اگر طالبان کے بات چیت کے حامی رہنماؤں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور افغان حکومت و افغان طالبان میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوپایا تو اس سے خطے میں عالمی طاقتوں کی مداخلت اور زیادہ ہوگی ، علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار میں اور اضافہ ہوگا جبکہ اس سے القائدہ ، داعش ، لشکر جھنگوی سمیت جتنے بھی تکفیری فاشسٹ گروپ ہیں ان کی جانب سے زیادہ فساد پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ، پاکستان کو مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سے چین – پاکستان اقتصادی راہداری کا پروجیکٹ بھی خطرے میں پڑے گا