تحریک طالبان افغانستان کی نئی قیادت کا انتخاب : کیا افغانستان خانہ جنگی سے نکل پائے گا – خالد نورانی – مدیر صدائے اہلسنت
تحریک طالبان افغانستان جو کہ خود کو امارت اسلامی افغانستان کہلاتی ہے کی مرکزی مجلس شوری نے اپنے امیر ملا محمد عمر کی موت کی تصدیق کردی ہے ، ان کی موت کی تصدیق امارت اسلامی افغانستان نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کی
جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں ان کے مطابق افغانستان میں نامعلوم مقام پر تحریک طالبان افغانستان کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس بلایا گیا جس میں 200 کے قریب دستیاب طالبان کمانڈرز شریک ہوئے اور اس اجلاس میں قندھار کے ضلع میوند سے تعلق رکھنے والے ملا محمد عمر کے نائب ملا محمد اختر منصور کو تحریک طالبان افغانستان کا نیا امیر منتخب کرلیا گیا ، جبکہ معروف افغان جہادی لیڈر ملا جلال الدین حقانی کے سب سے بڑے صاحبزادے سراج الدین حقانی اور طالبان دور حکومت میں چیف جسٹس رہنے والے اخوندزادہ ھیبت اللہ کو ان کا نائب چن لیا گیا
برطانوی اخبار انڈی پینڈیٹ کے مطابق افغان طالبان کی شوری کے اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ ملا محمد عمر دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگئے ، ان کی وفات افغانستان کے ایک نواحی گاوں میں ہوئی ، جہاں وہ امریکی حملے کے فوری بعد منتقل ہوگئے تھے
نئے امیر کے انتخاب کے حوالے سے اخبارات میں یہ خبر بھی آئی ہے کہ ملا عمر کو شوری میں موجود طالبان رہنماوں کی اکثریت نے قبول کیا لیکن ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب نے امارت کے لئے خود کو پیش کیا لیکن اکثریت نے ان کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کے سبب اس منصب کا اہل نہ خیال کیا ، وہ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے بھی گئے جبکہ ملا منصور کی سب سے زیادہ مخالفت ھلمند صوبہ افغانستان میں جڑیں رکھنے والے کمانڈر قیوم زاکر نے سب سے زیادہ کی ، قیوم زاکر افغان طالبان میں سب سے زیادہ سخت گیر رہنما خیال کئے جاتے ہیں
ملا اختر منصور کی عمر 40 سال ہے اور وہ ملا محمد عمر کے محلے دار اور بچپن کے دوست ہیں ، دونوں نے تعلیم بھی ایک ہی مدرسے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے حاصل کی ، جبکہ قندھار میں تحریک طالبان کی بنیاد پڑی تو ملا اختر اس تحریک کا ہراول دستہ تھے ، طالبان نے جب کابل فتح کرلیا اور امارت کی بنیاد رکھی تو وہ امارت اسلامی افغانستان کے پہلے وزیر ایوی ایشن بنے اور وہ شمالی اتحاد کے خلاف فضائیہ کے آپریشنز کی نگرانی کرتے رہے ، وہ قندھار ائر پورٹ پر ہی رہتے تھے اور ساتھ ہی ان کے قریب اسامہ بن لادن بھی رہا کرتا تھا ، اس لئے دونوں میں ملاقات ہوتی رہتی تھی
ملا اختر منصور کے خیالات و عادات کے بارے میں جو تھوڑا بہت میڈیا میں سامنے آیا وہ یہ ہے کہ ملا اختر منصور اسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ دینے کے مخالف تھے اور وہ آغاز کار سے طالبان حلقوں میں عملیت پسند ( Pragtimist ) کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اس وقت بھی ملا منصور اختر ” امن مذاکرات ” کے سب سے بڑے حامی خیال کئے جاتے ہیں
ملا اختر منصور ایک اعتدال پسند دیوبندی عسکریت پسند خیال کئے جاتے ہیں اور ملا اختر منصور کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے طالبان کی جانب سے پبلک مقامات پر خود کش یا ٹائم ڈیوائس حملوں کی مخالفت بھی کی اور طالبان کے حملوں کو صرف امریکی ، نیٹو افواج اور ان کی کٹھ پتلی نام نہاد نیشنل افغان آرمی و پولیس و حکومتی حکام تک محدود کرنے کی کوشش کی
طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر گلف عرب ریاستوں کی حکومتوں ، خاص طور پر سعودی عرب ، یو اے ای اور قطر کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے جبکہ پاکستان کی عسکری قیادت کا بھی ان پر کافی اثر بتایا جاتا ہے ، ان کے دو نائب ملا سراج حقانی اور اخوندزادہ ھیبت اللہ بھی پاکستان نواز اور سعودی عرب کے بہت قریب خیال کئے جاتے ہیں اور ملا اختر منصور ہی وہ رہنماء تھے جن کی قیادت میں قطر دوحہ میں افغان طالبان نے اپنا پہلا باضابطہ سیاسی دفتر کھولا اور امریکہ سے مذاکرات شروع کئے اور ملا منصور کی قیادت میں ہی پہلی مرتبہ افغان طالبان نے الیکشن کا لفظ استعمال کیا اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مثبت اشارے دئے
پاکستان کے صحت افزاء مقام مری میں افغان نیشنل پیس کونسل اور امارت اسلامی افغانستان کے درمیان مذاکرات کا جو پہلا دور ہوا اس میں افغان طالبان کی نمائیندگی ملا اختر منصور نے کی تھی ، جبکہ ان مذاکرات میں حقانی گروپ کی نمائیندگی بھی موجود تھی اور یہ کہا گیا کہ ان مذاکرات میں ملا منصور پاکستان کے دباو کی وجہ سے شامل ہوئے تھے
ملا اختر منصور ، سراج حقانی اور اخوندزادہ ھیبت اللہ کی افغان طالبان ٹرائیکا جو سامنے آئی ہے اس کو کم از کم پاکستان کے لئے نیک شگون قرار دیا جاسکتا ہے کہ تینوں رہنماء پاکستان کے حوالے سے بہت مثبت خیالات رکھتے ہیں اور پاکستان کے اندر قتال و فساد کے بھی سخت خلاف ہیں اور افغانستان میں جاری خانہ جنگی سے بھی نجات کے خواہش مند ہیں
ملا اختر منصور کی امارت پاکستان میں تکفیری دہشت گردوں کے لئے ایک اور بڑا دھچکا ہے جو کہ پاکستانی ریاست سے جنگ کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ ملا منصور ملا عمر کی نسبت ایک تو افغان طالبان کے فیلڈ آپریشن کا حصہ ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے کمانڈرز سے رابطے میں رہتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کی تکفیریت ، بے گناہوں کو قتل کرنے کی پالیسی کے سخت خلاف ہیں
افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان پاکستان کی ثالثی کے ساتھ مذاکرات اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے تعین کی تلاش جنوبی ایشیا میں مذھبی دہشت گردی اور تکفیری فاشزم کے لئے مایوس کن ہے
ملا عمر کی وفات پر افغان طالبان نے تین دن تک ان کی مذھبی رسومات ادا کرنے کا اعلان پاکستان میں ان لوگوں کے لئے دھچکے سے کم نہیں جو اہلسنت سواد اعظم کی جانب سے سے مرگ پر سوئم / رسم قل کو شرک یا بدعت کہتے تھکتے نہیں ہیں
افغانستان میں امن کی کنجی ” جیو اور جینے دو ” کا اصول ہی ہوسکتی ہے کہ افغان معاشرہ ایسا بنے جہاں ہر مذھب ، مسلک ، فرقے کے لوگ اپنی اپنی آئیڈیالوجی کے ساتھ پرامن طریقے سے آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں اور کوئی دوسرے کی مذھبی آزادی میں دخل نہ دے اور افغانستان میں پرائیویٹ لشکر سازی ختم ہوسکے ، وار لارڈ سے عوام کی جان چھٹے اور اس کا اب زیادہ انحصار تحریک طالبان افغانستان کے نئے امیر ملا اختر منصور پر ہے
پس نوشت : ڈچ مصنف اور صحافی Batte Damn جس نے حامد کرزئی سابقہ صدر افغانستان اور ملا عمر کی سوانح عمریاں لکھی ہیں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ افغان طالبان دور حکومت میں ملا اختر منصور پہلی مرتبہ دبئی گئے اور اسے دیکھ کر انھوں نے دبئی کو ونڈرفل فنٹاسٹک شہر پایا یہ اس صحافی کو ملا اختر منصور کے ایک دوست نے یہ سب بتایا تھا
ملا منصور طالبان کی حکومت گرنے کے بعد ابتدائی طور پر سرنڈر کرگئے تھے لیکن کرزئی کی حکومت میں نیٹو و امریکی افواج کے رات کے پے در پے آپریشنوں سے تنگ آکر ملا اختر منصور فرار ہوکر پاکستان آئے اور پھر منظم ہوکر دوبارہ افغانستان چلے گئے ، ان کو ملا عبدالغنی بردار کی کوئٹہ میں گرفتاری کے بعد نائب ملا عمر بنایا گیا