بنو امیہ کے پورے دور میں سب علی کا ثبوت – عرفان قادری
معاویہ کا حضرت علی کے بارے میں لعنت و سب یعنی گالی کا حکم
ثبوت نمبر ایک
صیحیح مسلن جلد 7 صفحہ 120 مطبوعہ دارالجبل بیروت
حدثنا قتیبة بن سعید ومحمد بن عباد ( وتقاربا فی اللفظ ) قالا حدثنا حاتم ( وهو ابن إسماعیل ) عن بکیر بن مسمار عن عامر بن سعد بن أبی وقاص عن أبیه قال : أمر معاویة بن أبی سفیان سعدا فقال ما منعک أن تسب أبا التراب ؟ فقال أما ذکرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله علیه و سلم فلن أسبه لأن تکون لی واحدة منهن أحب إلی من حمر النعم
.
حضرت عامر جو سعد بن ابی وقاص کے بیٹے تھے نے اپنے والد سے روائت کیا کہ معاویہ نے ان کے والد کو سب علی کا کہا ، انھوں نے نہ کیا تو معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے سب ” ابو تراب ” مٹی کے باپ کو گالی دینے سے روکا ؟
معاویہ نے ابو تراب کنیت کو طنزیہ انداز میں استعمال کیا تھا جس پر سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ تم نے جو طنزیہ انداز میں حضرت علی کے بارے میں ابوتراب کہا وہ ان تین ارشادات میں سے ایک ہے جو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے بارے میں فرمائی تھیں تو میں ہر گز مولا علی کو گالی نہیں دوں گا ، اور ان تین میں سے ایک چیز بھی مرے لئے سو سرخ اونٹوں سے زیادہ بیش قیمت ہے
یہ روائت صحیح مسلم کی ہے اور یہ بہت بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ معاویہ نہ صرف عام لوگوں کو بلکہ کبار مہاجر و انصار صحابہ کرام کو مجبور کرتا کہ وہ جناب علی المرتضی کو گالی دیں مصنف ابن ابی شیبہ میں اسانید صحیح کے ساتھ یہ ہی روائت تفصیل سے موجود ہے
۳۲۰۷۸ – حدثنا أبو معاویة عن موسى بن مسلم عن عبد الرحمن بن سابط عن سعد قال قدم معاویة فی بعض حجاته فأتاه سعد فذکروا علیا فنال منه معاویة فغضب سعد فقال تقول هذا الرجل سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول له ثلاث خصال لأن تکون لی خصلة منها أحب إلی من الدنیا وما فیها سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول من کنت مولاه فعلی مولاه وسمعت النبی صلى الله علیه و سلم یقول أنت منی بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبی بعدی وسمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول لأعطین الرایة رجلا یحب الله ورسوله
.
عبدالرحمان بن سابط تابعی نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روائت کیا کہ حج کے موقعہ پر معاویہ ان سے ملنے آیا ، دونوں کے درمیان حضرت علی کا زکر چھڑا معاویہ نے حضرت علی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تو سعد بن ابی وقاص غضب ناک ہوگئے ، آپ نے فرمایا کہ رسول کریم نے حضرت علی کے بارے میں تین باتیں کی تھیں ، اگر میرے بارے میں ان میں سے ایک بھی ہوتی تو مجھے سو اونٹوں سے زیادہ عزیز ہوتیں
ایک آپ نے فرمایا جس کا میں مولا ، اس کا علی مولا
دوسرا آپ نے فرمایا
اے علی تیرا میرے ساتھ وہی رشتہ ہے جو موسی کا ھارون سے تھا ، میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے ، لیکن مرے بعد کوئی نبی نہیں ہے
تیسرا آپ نے فرمایا
کل میں جھنڈا اس آدمی کو دوں گا جس سے اللہ اور اس کا رسول بھی محبت کرتا ہے ( اور وہ رجل علی تھے
)
یہی روائت امام التکفیر ابن تیمیہ نے منھاج السنہ کی جلد پانچ میں درج کی ہے
۳٫منهاج السنه ابن تیمیه (خدای وهابیت) جلد ۵ صفحه ۴۲ چاپ جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامیة سال طبع : الأولى، ۱۴۰۶ هـ – ۱۹۸۶وأما حدیث سعد لما أمره معاویة بالسب فأبى فقال ما منعک أن تسب علی بن أبی طالب فقال ثلاث قالهن رسول الله صلى الله علیه و سلم فلن أسبه لأن یکون لی واحدة منهن أحب إلی من حمر النعم الحدیث فهذا حدیث صحیح رواه مسلم فی صحیحه وفیه ثلاث فضائل لعلی
.
اور اس میں وہ حدیث بھی ہے جس میں معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو علی المرتضی کو گالی دینے کو کہا ، آپ نے انکار کیا تو معاویہ نے پوچھا …………،الخ
ابن تیمیہ کہتا ہے کہ اسے مسلم نے روائت کیا اور یہ سند صحیح کے ساتھ وارد ہونے والی حدیث ہے
اور تاریخ طبری کی جلد 7 ص 52 پر درج ہے معاویہ کے بارے میں
إذا قنت لعن علیا وابن عباس والاشتر وحسنا و حسینا
معاویہ جب بھی نماز پڑھتا تو دعائے قنوت میب حضرت علی ، ابن عباس ، اشتر ، حسن و حسین پر لعنت کرتا
نوٹ : دعائے قنوت نازلہ دشمن کفار کے خلاف فجر کی نماز میں عمومی طور پر پڑھی جاتی اور خاص طور پر اس کا اہتمام جہاد کے دوران کیا جاتا تھا ، معاویہ نے اس میں بدعت یہ کی کہ جناب علی المرتضی کے ساتھ جنگوں اور عام دنوں میں بھی نماز فجر کے وقت دعائے قنوت نازلہ میں لعن علی کا سلسلہ شروع کردیا تھا
مسند احمد بن حنبل جلد ہفتم ص 323 پر ام سلمہ سے یہ روائت ہے
۲۶۷۹۱ – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا یحیى بن أبى بکیر قال ثنا إسرائیل عن أبى إسحاق عن عبد الله الجدلی قال دخلت على أم سلمة فقالت لی : أیسب رسول الله صلى الله علیه و سلم فیکم قلت معاذ الله أو سبحان الله أو کلمة نحوها قالت سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول من سب علیا فقد سبنی
.
ابی اسحاق عبداللہ الجدلی کہتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم رسول اللہ کو گالی دیتے ہو ، میں نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی
نوٹ : ام سلمہ کا یہ فرمان ظاہر کرتا ہے کہ ان کے زمانے میں سب علی کا فعل ہورہا تھا اور شاید الجدلی سے بھی اس کا ارتکاب ہوا ہو تو ام سلمہ نے ان کو سنایا
اس واقعہ کو تفصیل سے حاکم نیشاپوری نے اپنی المستدرک میں درج کیا ہے کہ عبداللہ جدلی نے بتایا کہ وہ لڑکے تھے یعنی کم عمر تھے جب انھوں نے حج کیا ، وہ مدینہ سے گزرے ، جب اہل مدینہ کی گردنوں پر ایک ہی شخص مسلط تھا اور سب اس کی اتباع کررہے تھے اور سب علی جیسا فعل عام تھا ، جدلی کہتے ہیں کہ وہ ام سلمہ کے پاس گئے ، وہ کہہ رہی تھیں کہ یا شبیب بن ربیعہ کیا تم رسول اللہ کو گالی دیتے ہو ، اس نے کہا نہیں میں تو علی کے بارے میں کہہ رہا تھا تو ام سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا جس نے علی کو گالی دی ، اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اللہ کو گالی دی
۳٫المستدرک علی صحیحین حاکم نیشابوری جلد ۳ صفحه ۱۳۰ چاپ دار الکتب العلمیة – بیروت – سال طبع الطبعة الأولى ، ۱۴۱۱ – ۱۹۹۰ حدیث ۴۶۱۶ :
۴۶۱۶ – حدثنا أبو جعفر أحمد بن عبید الحافظ بهمدان ثنا أحمد بن موسى بن إسحاق التیمی ثنا جندل بن والق ثنا بکیر بن عثمان البجلی قال : سمعت أبا إسحاق التمیمی یقول : سمعت أبا عبد الله الجدلی یقول : حججت و أنا غلام فمررت بالمدینة و إذا الناس عنق واحد فاتبعتهم فدخلوا على أم سلمة زوج النبی صلى الله علیه و سلم فسمعتها تقول : یا شبیب بن ربعی فأجابها رجل جلف جاف لبیک یا أمتاه قالت یسب رسول الله صلى الله علیه و سلم فی نادیکم قال و أنی ذلک قالت : فعلی بن أبی طالب قال : إنا لنقول أشیاء نرید عرض الدنیا قالت : فإنی سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول : من
سب علیا فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله تعالى
.
ان شواہد سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دور معاویہ میں کثرت سے مولا علی پر لعنت اور گالی کا سلسلہ جاری تھا اور یہ سب حواریان معاویہ و معاویہ کررہے تھے
حدثنا خالد بن يزيد عن معاوية قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر فقال كثير عزة
:
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم
وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم
.
تاريخ مدينه دمشق ، ج50 ، ص96 .
خالد بن یزید نے معاویہ سے روائت کیا کہ بنو امیہ میں سب ہی علی کو گالی دیتے تھے مگر عمر بن عبدالعزیز نے ان کو گالی نہ دی اور ، شاعر کثیر عزت نے ان کے بارے میں کہا کہ اے عمر تم نے اختیار ہوتے ہوئے علی المرتضی پر شتم نہ کیا اور نہ ہی نیکی کو چھپایا اور تم نے مجرموں کے راستے کی پیروی نہ کی اور تم نے سچ بات کی اور راستی کا راستہ اپنایا اور تم سے ہر ایک مسلمان خوش و خرم ہے اور یہی بات ابو نعیم نے حلیتہ الاولیا میں ایک اور سند کے ساتھ درج کی
خالد بن يزيد عن جعونة قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر بن عبد العزيز فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تتبع سجية مجرم
حلية الأولياء ، ابو نعيم ، ج5 ، ص356 ، ط الثانيه ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1423
محمد سعد نے طبقات ابن سعد میں اور حافظ زھبی نے اعلام النبلاء میں درج کیا
برنا علي بن محمد عن لوط بن يحيى الغامدي قال كان الولاة من بني أمية قبل عمر بن عبد العزيز يشتمون عليا رحمه الله فلما ولي عمر أمسك عن ذلك .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج5 ، ص393 و سير اعلام النبلاء ، ج5 ، ص147 .
یحیی الغامدی نے کہا بنو امیہ کے پورے دور حکمرانی میں علی المرتضی پر سب وشتم کا سلسلہ جاری رہا بس عمر بن عبدالعزیز اس سے رک گئے
زھبی نے یہ بھی لکھا کہ
فی آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزيز
… .
آل مروان کے دور میں علی المرتضی سے دشمنی اور سب ظاہر تھا سوائے عمر بن عبدالعزیز کے دور میں
سير اعلام النبلاء ، ج 5 ، ص113
ابن تیمیہ کے شاگرد ابوالفداء عماد الدین ابن کثیر نے اپنی تاریخ ابن کثیر میں ایک عنوان کے تحت لکھا
كان خلفاء بني أمية يسبون علياً رضي الله عنه من سنة إِحدى وأربعين وهي السنة التي خلع الحسن فيها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعين آخر أيام سليمان بن عبد الملك فلما ولي عمر أبطل ذلك وكتب إِلى نوابه بإبطاله … .
تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر إبطال عمر بن عبد العزيز سب علي بن أبي طالب علي المنابر ، ج1 ، ص287 .
خلفاي
خلفائے بنو امیہ کے دور میں منابر سے امام علی کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کا سلسلہ جاری وساری رہا اور یہ سلسلہ امام حسن کے خلافت سے الگ ہونے کے سال سے شروع ہوا اور 99 ہجری تک سلیمان بن عبدالمالک کے دور تک جاری رہا یہ سلسلہ صرف عمر بن عبدالعزیز کے دور میں رکا جنھوں نے اس کا ابطال کیا اور اس سے رک جانے کے لئے اپنے گورنروں کو لکھا
یہ ایک اور مستند حوالہ ہے تاریخ سے اور لکھنے والے اہل سنت کے ہاں بہت مستند ہیں بلکہ ان کے بارے میں وھابیہ تو یہ کہتے ہیں کہ ان کی تاریخ میں سوائے درست روایات کے اور کوئی روایات نہیں ہیں
سورہ نحل کی آیت ان اللہ یامر بالعدل والاحسان کی تفسیر کے زمرے میں علامہ سید محمود احمد آلالوسی نے تفسیر روح المعانی میں لکھا
: «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ … » (النحل / 90)
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، ج7 ، ص456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ
.
جب تک عمر بن عبدالعزیز کی حکومت نہ آئی تب تک بنوامیہ والے اللہ کا غضب ہو ان پر اپنے خطبات کے آخر میں علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر سب و شتم کرت تھے اور ان سب پر لعنت ہو جنھوں نے آپ کو گالی دی اور آپ سے بغض رکھا
نوٹ : عمر بن عبدالعزیز نے جمعہ اور عیدین کے خطبات میں جہاں پر سب و شتم کے الفاظ ہوا کرتے تھے وہاں پر ان اللہ یامر بالعدل والاحسان الخ والی آیات کا اضافہ کیا اور علی و فاطمہ و حسن و حسین کے ناموں کا اضافہ بمعہ درود و سلام کروایا تھا اور اہل سنت کے خطبات میں اب یہ معمول ہے ، سید محمود آلوسی نے اسی طرف اشارہ کیا ہے اپنی تفسیر میں ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں بھی اس کا زکر کیا
وكان بنو أمية يسبون عليا فكتب عمر إلى الآفاق بترك ذلك
.
تاريخ ابن خلدون ، ج3 ، ص75 .
بنو امیہ علی کو گالی دیتے تھے پھر عمر بن عبدالعزیز نے پوری مملکت کو اس کے ترک کرنے کا حکم لکھ بھیجا شهاب الدين احمد بن عبد الوهاب نويري نے نهاية الأرب في فنون الأدب میں فصل بيعت عمر بن عبد العزيز میں لکھا
وكان من أول ما ابتدأ به عمر بن عبد العزيز أن ترك سب علي بن أبي طالب رضي الله عنه على المنابر، وكان يسب في أيام بني أمية إلى أن ولي عمر فترك ذلك .یہ عمر بن عبدالعزیز تھے جنھوں نے سب علی کو منابر پر سب سے پہلے ترک کرنے کی ابتداء کی اور بنو امیہ کے ایام میں کھلے عام علی کو گالی دی جاتی تھی ، عمر بن عبدالعزیز آئے ، انھوں نے یہ سلسلہ ترک کیا
نهاية الأرب في فنون الأدب ، النويري ، ج21 ، ص216 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1424 هـ .
حافظ جلال الدين سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا :
كان بنو أمية يسبون علي بن أبي طالب في الخطبة فلما ولي عمر ابن عبد العزيز أبطله وكتب إلى نوابه بإبطاله .
تاريخ الخلفاء ، السيوطي ، ص194 ، ط الأولي ، مصر ، دار الفجر للتراث ، 1420 هـ .
بنو امیہ کے خلفاء سب علی کرتے تھے الخ
نيز ابن أثير نے اپنی تاریخ میں لکھا
:
كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه .
بنوامیہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کو گالی دیتے تھے یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز حکمران بنے تو انھوں نے اسے ترک کیا اور اپنے گورنروں کو لکھا کہ وہ بھی اسے ترک کردیں
الکامل في التاريخ ، حوادث سال 99 هـ ، ج5 ، ص42
خير الدين زركلي نے كتاب الأعلام میں ترجمه عمر بن عبد العزيز میں لکھا
:
وولي الخلافة بعهد من سليمان سنة 99 ه ، فبويع في مسجد دمشق . وسكن الناس في أيامه ، فمنع سب علي بن أبي طالب ( وكان من تقدمه من الأمويين يسبونه على المنابر ) .
الأعلام ، خير الدين الزركلي ، ج 5 ، ص50 .
عہد سلیمان بن عبدالمالک 99 ھ میں تمام ہوا تو عمر بن عبدالعزیز حاکم ہوئت ، مسجد دمشق میں ان کی بیعت ہوئی تو ان کے دور میں لوگوں کو سکون ملا تو انھوں نے سب علی ابن ابی طالب سے منع کیا ان کو تقدم حاصل ہے ان لوگوں میں جنھوں نے منابر پر علی المرتضی کو گالی دینے سے منع کیا مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں تاریخ ابن خلدون میں لکھا ہے
ابن خلدون :
كان المغيرة بن شعبة أيام امارته على الكوفة كثيرا ما يتعرض لعلى في مجالسه وخطبه ويترحم على عثمان ويدعو له .
تاريخ ابن خلدون ، ص603 .
مغیرہ بن شعبہ ایام خلافت علی کے دوران کوفہ میں علی المرتضی پر اپنی مجالس اور خطبے میں اعتراض کرتے تھے اور وہ عثمان کے قتل کی زمہ داری ان پر ڈالتے تھے اور قصاص عثمان کے لئے خروج کی دعوت دیتے تھے
ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں اس کی تصدیق کی ہے :
كان المغيرة ينال في خطبته من علي ، وأقام خطباء ينالون منه .
سر اعلام النبلاء ، ج3 ، ص31 .
مغیرہ اپنے خطبے میں علی کی بدگوئی کرتے تھے تو وہ جب بھی خطبے کے لئے کھڑے ہوتے علی کی بدگوئی کرتے تھے
مروان بن الحکم اور سب علی
عساكر نے تاريخ مدينه دمشق و احمد بن حنبل نے العلل میں لکھا :
عن ابن عون عن عمير بن إسحاق قال كان مروان بن الحكم أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة على المنبر ثم عزل فاستعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم عزل وأعيد مروان فكان يسبه فقيل يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا فجعل لا يرد شيئا قال وكان حسن يجئ يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فيقعد فيها فإذا قضيت الخطبة خرج فصلى ثم رجع إلى أهله .
تاريخ مدينه دمشق ، ج57 ، ص243 و العلل ، احمد بن حنبل ، ج3 ، ص176 .
ابن اسحاق نے کہا کہ مروان بن الحکم ہم پر 6 سال حاکم رہا تو وہ ہر جمعہ علی المرتضی کو منبر پر گالی دیتا ، پھر وہ معزول ہوا تو سعید بن عاص حاکم بنے ، انھوں نے ایسا نہ کیا پھر وہ معزول ہوئے اور مروان دوبارہ حاکم ہوا تو پھر وہ سب و شتم کرنے لگا تو کسی نے حسن سے کہا کہ مروان جو کہتا ہے کیا آپ نے سنا تو انہوں نے اس سے اعتناء نہ کیا تو پھر جب جمعہ آیا تو حسن حجرہ نبی کریم میں داخل ہوئے تو وہ اس میں بیٹھ گئے تو جیسے ہئ اس نے خطبہ ختم کیا تو آپ نے نماز پڑھی اور اپنے اہل کی طرف چلے گئے
ياقوت حموي ، تاريخ نويس مشهور اهل سنت نے لکھا :
لعن علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، على منابر الشرق والغرب … منابر الحرمين مكة والمدينة .
شرق غرب کے منابر ، مکہ و مدینہ کے منابر مساجد سے علی ابن ابی طالب پر لعنت کی گئی
معجم البلدان ، ج3 ، ص191 .
زمخشري ، اور دیگر نے لکھا :
إنّه كان فى أيّام بنى اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها علىّ بن أبى طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلك.
ایام بنو امیہ میں 18000 سے زیادہ منبروں سے علی ابن ابی طالب پر معاویہ کے دور سے لعنت کا سلسلہ شروع ہوا
ربيع الأبرار ، ج 2 ، ص186 و النصايح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص79 به نقل از سيوطي
ويي بني اميه :
شيخ محمود سعيد بن ممدوح نے نقل روايات و نصوص بارے وقائع سبّ امير المؤمنين عليه السلام لکھا کہ اس جرم عظیم کے بارے میں اثار اور اس شنیع فعل کے بارے میں اخبار متواتر ہیں اور ہم نے یہاں اس کے بہت کم شواہد پیش کئے ہیں :
الآثار في هذه الجريمة البشعة وأخبارها الشنيعة متواترة ، وهذه عظيمة تصغر عندها العظائم ، وجريمة تصغر عندها الجرائم وشنيعة تتلاشي أمام بشاعتها الشنائع
غاية التبجيل ، محمود سعيد ، ص283 ، ط الأولي ، مكتبة الفقيه ، الإمارات ، 1425
م محمد بن ابراهيم الوزير اليماني ، بارے هنگام نقل فضائل جماعتي از روات و محدثين لکھا :
روايتهم لفضائل علي عليه السلام وفضائل أهل البيت في أيام بني امية وهو عليه السلام ـ حاشا مع ذلك ـ يُلعنُ علي المنابر ولا يروي فضائله إلا من خاطر بروحه .
العواصم والقواسم في الذب عن سنة أبي القاسم ، ابن الوزير ، ج2 ، ص400 ، ط الثالثة ، مؤسسه الرسالة ، بيروت ، 1415 هـ .
علی علیہ السلام اور فضائل اہل بیت کی روایات بنو امیہ کے دور میں روائت کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ وہ علی المرتضی پر لعنت کرتے تھے اور ان کے فضائل میں سے بس وہی روائت کرتے جو ان کی روح کو بھاتا تھامروان نے امام سجاد کو کہا کہ سوائے علی کے عثمان کا ساتھ کسی نے نہ دیا تو امام سجاد نے پوچھا کہ پھر علی المرتضی کو گالی کیوں دیتے ہو تو اس نے کہا اس کے بنا ہماری حکومت قائم نہیں رہے گی
ابن عساكر ، نے نقل کیا امام سجاد عليه السلام سے ، اس نے لکھا :
قال مروان بن الحكم ما كان في القوم أحد أدفع عن صاحبنا من صاحبكم يعني عليا عن عثمان قال قلت فما لكم تسبونه على المنبر قال لا يستقيم الأمر إلا بذلك.
تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص 438 و الصواعق المحرقة ، ابن حجر هيثمي ، ص 33 و النصائح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص 114 از دار قطني و شرح نهج البلاغة ، ج13 ، ص220
و بلاذري نے بھی اس کی تصدیق کی ہے :
قال مروان لعلي بن الحسين : ما كان أحد أكف عن صاحبنا من صاحبكم . قال : فلم تشتمونه على المنابر ؟ ! ! قال : لا يستقيم لنا هذا إلا بهذا ! ! .
أنساب الأشراف ، ص 184.
خطيب بغدادي نے تاريخ بغداد میں لکھا :
قال إسماعيل بن عياش: رافقت حريزا من مصر الى مكة فجعل يسب عليا ويلعنه، وقال لي: هذا الذي يرويه الناس ان النبي (ص) قال لعلي: «انت مني بمنزلة هارون من موسى» حق، ولكن اخطا السامع.
قلت: فما هو ؟ قال: إنّما هو: «أنت منيبمكان قارون من موسى»، قلت: عمّن ترويه؟ قال: سمعت الوليد بن عبد الملك يقوله على المنبر
.
اسماعیل بن عیاش نے کہا کہ میں حریز کے ساتھ مصر سے مکہ گیا تو اس نے علی کو گالی دی اور ان پر لعنت کی اور مجھ سے کہا کہ یہ جو لوگ علی کے بارے میں نبی کریم سے روائت کرتے ہیں کہ آپ نے علی کو کہا کہ اے علی تو مرے لئے ایسے ہی ہے جیسے ہارون موسی کے نزدیک تھے ..،،، یہ بات حق ہے لیکن سامع نے خطا کی تو میں نے کہا اصل بات کیا کہی تھی تو کہا روائت ایسے ہے کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسی کے لیے قارون میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تونے کس سے روائت کئ ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے ولید بن عبدالمالک بن مروان کو ایسے ہی کہتے سنا
تاريخ بغداد ، ج8 ، ص262 و تاريخ مدينة دمشق ، ج12 ،ص349 و تهذيب الكمال ، مزي ، ج5 ، ص577 و تهذيب التهذيب ، ابن حجر ، ج2 ، ص209 و تاريخ الإسلام ، ذهبي ، ج10 ، ص 122 و ميزان الاعتدال ، ذهبي ، ج3 ، ص389 شماره : 6894.
سمهودي نے وفاء الوفاء نے کہا :
حدثنا هارون ابن عبد الملك بن الماجشون أن خالد بن الوليد بن الحارث بن الحكم بن العاص وهو ابن مطيرة قام على منبر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة فقال : لقد استعمل رسول الله على ابن ابى طالب رضى الله تعالى عنه وهو يعلم أنه خائن ، ولكن شفعت له ابنته فاطمة رضى الله عنها
.
خالد بن الولید بن الحارث بن الحکم بن العاص منبر پر کھڑا ہوا یوم جمعی کو اور اس نے کہا کہ رسول اللہ نے علی المرتضی کو عامل بنایا جبکہ وہ جانتے تھے کہ علی خائن ہیں لیکب اپنی بیٹی فاطمہ کی وجہ سے ان سے چسم پوشی کرتے تھے
نوٹ : یہ اور اس قسم کے جھوٹ دشمنان علی منابر مساجد پر کھلے عام بولتے تھے
وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ، ج4 ، ص 356 و ينابيع المودة ، ج2 ، ص372 ، به نقل از أبي الحسن يحيى در كتاب أخبار المدينة .
ارتداد به امير المؤمنين عليه السلام:
ابن أبي الحديد شافعي نے شرح نهج البلاغه ، ج4 ، ص 63 پر بعد نقل از استادش ابو جعفر اسكافي لکھا :
أن معاوية وضع قوما من الصحابة وقوما من التابعين على رواية أخبار قبيحة في علي عليه السلام ، تقتضي الطعن فيه والبراءة منه ، وجعل لهم على ذلك جعلا يرغب في مثله ، فاختلقوا ما أرضاه ، منهم أبو هريرة وعمرو بن العاص والمغيرة بن شعبة ، ومن التابعين عروة بن الزبير
.
معاویہ نے صحابہ اور تابعین میں سے ایسے لوگ تیار کیے جو علی علیہ السلام کے بارے میں اخبار قبیحہ روائت کرتے تاکہ ان پر طعن کیا جاسکے اور ان سے بیزاری ہو اور انھون نے اس حوالے سے جو مرغوب تھیں جعل ساز باتیں معاویہ کو بنادیتے تھے جو اس کو خوش کرتی اس کو گھڑ لیتےان میں ابوھریرہ ، عمرو بن العاص ، مغیرہ بن شعبہ اور تابعین میں عروتہ بن الزبیر تھے
مسلم بن شہاب زھری نے عروہ بن زبیر سے یہ روائت نقل کی بعد در ادامه مينويسد
:
روى الزهري أن عروة بن الزبير حدثه ، قال : حدثتني عائشة قالت : كنت عند رسول الله إذ أقبل العباس وعلى ، فقال : يا عائشة ، إن هذين يموتان على غير ملتي أو قال ديني
عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ صدیقہ سے نقل کیا کہ میں رسول اللہ کے پاس تھی جب عباس اور علی آئے تو آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ یہ دونوں جب مریں گے تو ان کی موت میری ملت پر نہیں ہوگی یا میرے دین پر نہیں ہوگی
نوٹ : یہ تو طے ہے کہ یہ من گھڑت روائت ہے جو عائشہ صدیقہ سے زبردستی منسوب کی گئی ، کس نے کی عروہ نے یا مسلم بن شھاب نے ابن کثیر نے لکھاہے کہ امام نسائی دمشق آئے 320 ھ نے جب دیکھا کہ دمشق والے علی المرتضی سے نفرت کرتے ہیں تو انھوں نے خصائص النسائی فی الفضائل علی ابن ابی طالب لکھی
وأنه إنما صنف الخصائص في فضل علي وأهل البيت ، لأنه رأى أهل دمشق حين قدمها في سنة ثنتين وثلاثمائة عندهم نفرة من علي .
البداية والنهاية ، ج11 ، ص141 .
إنّ النسائي خرج من مصر في آخر عمره إلى دمشق ، فسئل بها عن معاوية وما جاء في فضائله ! فقال : لا يرضى رأسا برأس حتى يفضل ! فما زالوا يدفعون في خصيتيه حتى أخرج من المسجد وحمل إلى الرملة أو مكة فتوفي بها
.
نسائی مصر سے دمشق کی طرف آخری عمر میں گئے تو ان سے وہاں معاویہ کے بارے میں اور اس کے فضائل کے بارے میں سوال کیا تو وہ اس حوالے سے کہا کہ تم چاھتے ہو کہ معاویہ کو برتر دکھایا جائے جبکہ میں تو صرف علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو برتر دیکھتا ہوں تو ان کو اتنا مارا گیا کہ ان کے خصیوں تک کو شدید مضروب کیا گیا ، پھر ان کو ایک گدھے پر لاد کر رملہ یا مکہ کی طرف روانہ کردیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوگئی
المنتظم ، ج6 ، ص131 و تذكرة الحفاظ ، ذهبي ، ج2 ، ص700 و سير أعلام النبلاء ، ذهبي ، ج14 ، ص132 و تهذيب الكمال ، مزي ، ج 1 ، ص132 و … .
و ابن كثير نے لکھا :
ودخل دمشق فسأله أهلها أن يحدّثهم بشئ من فضائل معاوية ، فقال : أما يكفي معاوية أن يذهب رأسا برأس حتى يروى له فضائل ! فقاموا إليه فجعلوا يطعنون في خصيتيه حتى أخرج من المسجد .
البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج11 ، ص140
ظهير الدين اردبيلي کو خطبے کے دوران مدح صحابہ نہ کرنے سے جمعہ میں خلل نہ پڑنے کا اعتقاد رکھنے کی وجہ سے حاکم نے قتل کردیا :
>ابن عماد حنبلي نے شذرات الذهب میں لکھا :
ظهير الدين الأردبيلي الحنفي الشهير بالقاضي زاده … كان عالماً كاملاً صاحب محاورة ووقار وهيبة وفصاحت و كانت له معرفة بالعلوم خصوصاً الأنشاء والشعر و كان يكتب الخط الحسن … قال أن مدح الصحابة علي المنبر ليس بفرض ولا يخل بالخطبة فقبض عليه مع أحمد باشا الوزير يوم الخميس عشري ربيع الثاني و قطع (قطعت) رأس صاحب الترجمة [ظهير الدين ] وعلق (علقت) علي باب زويلة بالقاهرة .
شذرات الذهب في اخبار من ذهب ، أبي الفلاح عبد الحي بن العماد الحنبلي ، المجلد الرابع ، جزء 8 ، ص173 ، دار الكتب العلمية ، بيروت
متوکل کے دور میں فضائل اہل بیت بیان کرنے کی سزا ہزار تازیانے تھی نصر بن علی نے جب ایسا کیا تو اسے متوکل نے ہزار تازیانے لگانے کا حکم دیا
هزار تازيانه ، جزاي نقل فضائل حسنين عليهما السلام :
ابن حجر عسقلاني در تهذيب و التهذيب و بسياري از بزرگان اهل سنت نوشتهاند:
وقال ابن أبي حاتم سألت أبي عن نصر بن علي وأبي حفص الصيرفي فقال نصر أحب إلي وأوثق وأحفظ من أبي حفص قلت فما تقول في نصر قال ثقة وقال النسائي وابن خراش ثقة وقال عبيد الله ابن محمد الفرهياني نصر عندي من نبلاء الناس وقال أبو علي بن الصواف عن عبد الله ابن أحمد لما حدث نصر بن علي بهذا الحديث يعني حديث علي بن أبي طالب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ بيد حسن وحسين فقال من أحبني وأحب هذين وأباهما وأمهما كان في درجتي يوم القيامة . أمر المتوكل بضربه ألف سوط فكلمه فيه جعفر بن عبد الواحد وجعل يقول له هذا من فعل أهل السنة فلم يزل به حتى تركه .
تهذيب التهذيب ، ابن حجر ، ج 10 ، ص 384 و تهذيب الكمال ، المزي ، ج 29 ، ص 360 و تاريخ بغداد ، الخطيب البغدادي ، ج 13 ، ص 289 و… .
ٹوٹنا منبر حاكم نيشابوري کا اس کی وجہ عدم نقل فضائل معاويه تھی :
سمعت أبا عبد الرحمن السلمي يقول : دخلت على أبي عبد الله الحاكم وهو في داره لا يمكنه الخروج إلى المسجد من أصحاب أبي عبد الله بن كرام ، وذلك أنهم كسروا منبره ومنعوه من الخروج ، فقلت له : لو خرجت وأمليت في فضائل هذا الرجل شيئا لاسترحت من هذه المنحة . فقال : لا يجيء من قلبي ، ) لا يجيء من قلبي ، يعني معاوية .
تاريخ الاسلام ذهبي ، ج28 ، ص132 و سير أعلام النبلاء ، ج17 ، ص175و … .
ابوعبدالرحمان السلمی نے کہا کہ میں علی ابو عبداللہ الحاکم نیساپوری کے پاس گیا وہ اپنے گھر محصور تھے اور ان کا مسجد کی طرف نکلنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ابی عبداللہ بن الکرام اور ان کے ساتھیوں نے ان کا منبر توڑ ڈالا تھا اور ان کو گھر سے نکلنے سے منع کیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ اگر میں باہر نکلتا اور اس شخص کے فضائل بیان کرتا تو یہ سب میرے پر نہ گزرتا اور میں اطمینان سے رہتا اور پھر کہا کہ لیکن میرا دل اس طرچ نہیں آتا ، یعنی معاویہ کی طرف
عطيه بن سعد جوکہ راويان كتاب صحيح بخاري ، أبي داود ، ترمذي ، ابن ماجه میں سے تھا . محمد بن سعد نے الطبقات الكبري مین اس کے بارے لکھا :
فكتب الحجاج إلى محمد بن القاسم الثقفي أن ادع عطية فإن لعن علي بن أبي طالب وإلا فاضربه أربعمائة سوط واحلق رأسه ولحيته فدعاه فأقرأه كتاب الحجاج فأبى عطية أن يفعل فضربه أربعمائة وحلق رأسه ولحيته
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم ثقفی فاتح سندھ کو لکھا کہ عطیہ کو بلاو کہ وہ علی پر لعن کرے ، اگر وہ اس سے انکار کرے گا تو اس کو چار سو درے لگیں گے ، اس کی دارھی مونڈھ دی جائے گی اور سر بھی تو اس نے اس کو بلایا اور حجاج ثقفی کا خط پڑھوایا تو عطیہ نے اس سے انکار کردیا تو محمد بن قاسم نے عطیہ کو چار سو درے مارے ، اس کا سر اور داڑھی مونڈھ دی
الطبقات الكبري ، ج6 ، ص304 و تهذيب التهذيب ، ابن حجر ، ج7 ، ص201 .
اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کیسے علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی کردار کشین، اپ پر لعن طعن کو ایک باقاعدہ طریقے سے منظم انداز سے پھیلایا گیا یہ سب حوالے اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں لیکن اہل سنت کے شعور سے ان کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش نظر آتی ہے