اشاعت توحید والسنّہ اور دیوبندی ازم – عامر حسینی
صوبہ خیبرپختون خوا کے مشرق میں ضلع صوابی ہے اور اس میں ایک علاقہ پنج شیر کہلاتا ہے اور اس کے ایک گاؤں میں دیوبندی مولوی طاہر کا مدرسہ ہے اور یہ وہ مدرسہ ہے جس نے مشرقی خیبر ّپختون خوا کے علاقوں کے دیوبندی پشتونوں کے اندر سلفی انتہا پسند نظریات کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ، ان کو سلفی حنفی بھی کہا جاتا ہے ، کیونکہ یہ عقائد میں سلفی اور فقہ ميں حنفی ہیں ، ان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ خود کو توحید و سنت کی اشاعت کے علمبردار بتلاتے ہیں اور مشرقی پشتونوں میں انھوں نے تصوف ، مزارات اور میلاد وغیرہ کے خلاف تقریری ، تحریری اور پھر مسلح جہاد کیا اور ان کی تحریک ” پنج پیری تحریک ” کے نام سے مشہور ہوئی
مولوی محمد طاہر کے مدرسے سے تحریک نفاذ محمدی کے اکثر رہنماؤں نے تعلیم حاصل کی اور ان کا اثر مالاکنڈ ، سوات ، دیر ، باجوڑ ،کرم ایجنسی تک پھیلتا چلا گیا ، باجوڑ میں مولوی محمد طاہر کے مدرسے اور اس مدرسے کے مولوی محمد طیب اور مردان کے محمد رستمی سے متاثر فقیر محمد نے اپنا مدرسہ قائم کیا اور ان سب کے رشتے اور ناطے افغان طالبان کے دور ہی میں القائدہ سے استوار ہوئے اور ان کے ہآں بریلوی ، شیعہ سے سخت نفرت اور ان کو واجب القتل خیال کئے جانے کا رجحان بہت طاقتور تھا اور مشرقی پشتون خوا سے دیوبندی ازم پلس سلفی ازم اور ان سے آگے تکفیری خارجی آزم نے سفر جنوبی پشتون خوا اور وہاں سے جنوبی وزیرستان تک کیا اور اس نے جنوبی پنجاب کے اوپر بھی اپنے اثرات ڈالے ، جہآں پہلے سے ہی سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی صورت ریڈیکلائزیشن موجود تھی اور اسی نے آج کی دیوبندی تکفیری دھشت گردی یا دیوبندی تکفیری فاشزم کو ہمارے سامنے لاکر کھڑا کیا ہے
مولوی جمیل الرحمان بھی ایک پنج پیری ملّا تھا اور وہ پہلے حزب اسلامی میں شامل ہوا اور پھر وہ اس سے الگ ہوکر اپنا ہی گروپ بناکر بیٹھ گیا ، اس نے تو فقہ حنفی کو بھی ترک کرکے سلفی فقہ اختیار کرلی تھی
پنج پیری تحریک ہی خیبر ایجنسی پہنچی تھی اور اسی نے جاجی نامدار اور اس سے آگے منگل باغ وغیرہ کو ابھارا اور یہاں پر آفریدیوں کی زبردستی سلفائزیشن اور تکفیریت کی کوشش نے بڑا فساد پربا کیا ، دیوبندی ازم مزید تکفیریت اور سلفیت کی جانب جھکا اور یہآں پر لشکر اسلام اور پھر بعد میں ٹی ٹی پی نے وادی تیراہ میں مضبوط مراکز قآئم کرلئے ، اس بارے بھی کافی تفصیل ابوبکر صدیق کی کتاب میں موجود ہے
پشتونوں ميں دیوبندی ازم کو سلفی ازم کے ساتھ ملانے اور یہآں کے اعتدال پسند دیوبندی روائت جس کے ساتھ صوفی آزم کا تڑکا تھا کو ختم کرنے میں پنج پیری تحریک ، افغان جہاد ، طالبان ازم نے کیا کردار ادا کیا ، اس کا تجزیہ ابوبکر صدیق نے خوب کیا ہے اگرچہ یہ تجزیہ بین السطور ہی رہا ہے
ویسے اس کا ایک طبقاتی جائزہ سرتاج خان انٹرنیشنل سوشلسٹ نے بھی کرنے کی کوشش کی ہے ، انھوں نے سوات ، مالا کنڈ میں طالبانائزیشن کے ابھار میں سوشو اکنامک حالات اور اس سے ابھرنے والی نئی سماجی پرتوں اور ان کے پرانی سماجی پرتوں سے بننے والے تضاد پر بہتر روشنی ڈالی ہے لیکن سرتاج کا تجزیہ اس عروج تک نہیں پہنچتا جہآں تک کامریڈ غیاث گیا اور اس نے داعش ازم کے ابھار اور اس کی نوعیت کا تعین بھی ساتھ ساتھ کیا
حیرت انگیز طور پر سرتاج خان نے سوات ، فاٹا اور خیبرپختون خوا میں طالبانائزیشن ، القائدہ اور وہآں سے آگے کی پیش رفت اور آج وہآں پر داعش کی بڑھتی مقبولیت میں ان سماجی پرتوں کے کردار کو زیر بحث لانے کا نہیں سوچا جسے ٹراٹسکی نے فاشزم کو زیر بحث لاتے ہوئے ” ہیومن ڈسٹ ” سے تعبیر کیا تھا اور اس نے انتہائی غریب ، لوئر مڈل کلاس ، مڈل کلاس تاجروں ، پروفیشنلز اور غیاث نے اس میں بے روزگار یوتھ کو اس میں شامل کرتے ہوئے اسے مذھبی نو فسطائيت کا نام دیا جس میں جہاں سوشو اکنامک حالات نے اس کی تشکیل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ، وہیںاس میں خود دیوبندی ریڈیکل و سلفی آئیڈیالوجی کا بھی اس میں کردار ہے اور ان دونوں سے ملکر نئی مذھبی فسطائیت کا جنم ہوا ہے
اس معاملے میں پنج شیری تحریک اور اس سے آگے مولوی فقیر محمد کے باجوڑ مدرسے اور اس سے جنم لینے والی تحریک طالبان پاکستان کے ایک پوری طرح سے تکفیری سلفی دیوبندی حنفی تحریک کے طور پر سامنے آنے کا جائزہ لینے کے لئے ابوبکر صدیق کی کتاب ” پشتون سوال ” کا مطالعہ بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے
میں اس لیے کہتا ہوں کہ اعتدال پسند اور روادار دیوبندی حلقوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ ان کے ہآں ایک ایسا حلقہ موجود ہے جو عقائد اور آئیڈیالوجی ميں سلفی تکفیریت کو اپنا چکا ہے ، آگرچہ وہ فقہ کے طور پر حنفی ہی ہے اور یہ حلقہ بدترین قسم کی ہلاکت آفرین قاتل مشینری کو سامنے لیکر آیا ہے اور اس کو سب سے زیادہ حمائت سپاہ صحابہ پاکستان سے ملتی ہے جو اہلسنت والجماعت کے نام سے مین سٹریم دیوبندی سیاست میں اور اس کے مدارس کی زنجیر میں اپنے پاکٹس رکھتی ہے اور اسے کئی نامی گرامی دیوبندی مفتیان و علمائے کرام کا تعاون ، حمائت حاصل ہے اور اس کو ایک طرح سے دیوبندی ازم کا جائز بازو خیال کرلیا گیا ہے
دیوبندی تکفیری فاشزم کا وجود ہے ، اس کو چھپانے سے ، اس کا انکار کرنے سے اور اس کی ہلاکت آفرینی کو ہمارے معاشرے کے دوسرے اور خود دیوبند کے اندر پائے جانے والے عمومی انتہا پسند یا کفر کے فتوؤں کی ایک موجود روائت کے ساتھ برابری کرکے مبہم اور گول مول موقف بنانے سے یہ وجود غائب نہیں ہوگا اور اس کے خلاف متفقہ موقف اپنائے بغیر بھی کام نہیں چلے گآ ، جتنی جلدی اس پر اتفاق ہوگا ، اتنی ہی جلدی اس کے خلاف مزاحمت کی تعمیر ہوسکے