غزہ کے مظلوموں کے لئے آواز اٹھانے والے یمن کے مظلوموں کے لئے کب آواز اٹھایں گے ؟ – شہرام علی
گزشتہ برس موسم گرما میں تمام اخبارات اور چینلز غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں اور شہید و زخمی ہونے والے فلسطینی بچوں کی تصویروں سے بھرے پڑے تھے – مسلم دنیا سمیت مغربی میڈیا کا رد عمل بھی شدید تھا – لگ بھگ اسی قسم کا رد عمل شام و عراق میں داعش کی جانب سے تاریخی مقامات کی تباہی پر بھی دیکھنے میں آیا
اب اس کا موازنہ کرتے ہیں سعودی بمباری کے شکار ملک یمن سے، جو کہ ہمارے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے غایب ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کچھ خاص توجہ حاصل نہیں کر پا رہا – یہ بات درست ہے کہ یمن کا مسلہ اتنا آسان نہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ اسرائیل و فلسطین کا مسلہ بھی کوئی آسان مسلہ نہیں ہے – لیکن مغربی میڈیا نے اس بارے میں دہرے معیارات مقرر کر رکھے ہیں –
مارچ سے اب تک ہونے والے سعودی حملوں میں اسرائیل کے حملوں کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں سے زیادہ یمنی نشانہ بن چکے ہیں لیکن مغربی میڈیا اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ملکوں کا میڈیا بھی اس معاملے پر کسی پر اسرار خاموشی کا شکار نظر آتا ہے –
عالمی تنظیم صحت کے مطابق یمن پر جاری سعودی حملوں میں اب تک تین ہزار کے قریب لوگ شہید اور گیارہ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں – بی بی سی کے مطابق بھی یہ تعداد لگ بھگ اتنی ہی ہے – لیکن اس کی کوریج نا ہونے کے برابر
اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن مغربی میڈیا اور مسلمان ملکوں کے میڈیا کے اس منافقانہ روش پر غور کرنا ضروری ہے – کیا وجہ ہے کہ اسرائیلی بمباری کا شکار معصوم فلسطینی تو ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جب کہ سعودی بمباری کا شکار معصوم یمنی اس ہمدردی سے محروم ہیں ؟