’مالیر کوٹلہ مذہبی ہم آہنگی کی مثال ہے‘
بھارتی پنجاب میں صرف مالیر کوٹلہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آج بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور پورے پنجاب میں رمضان کے دوران اتنی رونق کہیں اور نہیں ہوتی جتنی کہ اس شہر میں ہوتی ہے۔
باقی پنجاب میں جگہ جگہ پرانی مساجد ویران پڑی ہیں لیکن مالیر کوٹلہ میں داخل ہوتے ہی تصویر بالکل بدل جاتی ہے۔ یہاں چاروں طرف عالیشان مساجد اور تاریخی عمارتیں ہیں جو ایک گزرے ہوئے دور کی یاد دلاتی ہیں۔
تو آخر ایسا کیوں ہوا کہ تقسیم ہند کے وقت مالیر کوٹلہ محفوظ رہا اور وہاں کے مسلمانوں نے نقل مکانی نہیں کی؟
اس کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔
پنجاب کے محکمۂ تعلیم میں نائب ڈائریکٹر پروفیسر محمد رفیع مقامی تاریخ کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تقسیم کے وقت ملیر کوٹلہ خونریزی سے محفوظ رہا اور یہاں کے مسلمانوں نے کبھی نقل مکانی کے بارے میں نہیں سوچا کیونکہ سکھ قوم مالیر کوٹلہ کے نواب محمد شیر خان کی قدر کرتی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’بات 1705 کی ہے جب ملک پر مغلوں کی حکومت تھی اور سرہند میں سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ کے دو معصوم بیٹوں کو دیوار میں زندہ چنوایا جا رہا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت نواب محمد شیر خان نے اس کی مخالفت کی تھی۔۔۔ اور تب سے ہی سکھ قوم ان کا احسان مانتی ہے۔‘
اسی وقت سے ہی مالیر کوٹلہ مذہبی ہم آہنگی کی مثال بنا ہوا ہے۔ سکھوں نے نواب شیر محمد خان کی یاد میں ایک گرودوارہ بھی تعمیر کیا ہے جسے ’ہا کا نعرہ‘ یا حق کی آواز کا نام دیا گیا ہے۔
اس گرودوارے کی منتظم کمیٹی کے سربراہ اور ریاست کے چیف انفارمیشن افسر اجیت سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ قوم نواب شیر محمد خان کی شکر گزار ہے۔ ’انھوں نے حق کے لیے آواز اٹھائی تھی، انھوں نے کہا تھا کہ بچوں کا کیا قصور ہے اور یہ گرودوارہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں وہ بات اب بھی یاد ہے۔‘
مالیر کوٹلہ کے ایک سرکاری سکول کے ٹیچر محمد خلیل کہتے ہیں کہ اتنے بڑے صوبے میں کسی ایک برادری کے لیے یوں تنہا رہنا آسان نہیں لیکن اب اکیلے پن کا وہ احساس باقی نہیں جو کبھی تقسیم کے بعد کبھی ہوا کرتا تھا۔
’اب ہم تعلیم میں بھی آگے آئے ہیں، ملازمتوں میں بھی، اب کبھی اکیلے پن کا احساس نہیں ہوتا، پہلے ہمارے بزرگوں کو یہ لگتا تھا کہ ہم پاکستان کیوں نہیں چلے گئے لیکن اب ہم یہاں خوش ہیں۔‘
مقامی صنعت کار محمد یٰسین خالد کہتے ہیں کہ یہ شہر مذہبی ہم آہنگی کی مثال ہے، یہاں کبھی کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہوئی۔
’ہم مل کر رہتے ہیں۔ پہلے ہم نے خود کو مالیر کوٹلہ تک محدود کر رکھا تھا لیکن خوشحالی اور تعلیم کے ساتھ یہ فاصلے بھی ختم ہوگئے ہیں۔‘
پرفیسر رفیع کہتے ہیں کہ اتنے بڑے صوبے میں کسی بھی مذہب کی چھوٹی سی آبادی ہو تو اس کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور فائدہ بھی۔
’اب ہمارے یہاں ذات پات کا فرق ختم ہوگیا ہے، اب جب یہاں شادیاں ہوتی ہیں تو ہم ذات نہیں دیکھتے۔‘
مالیر کوٹلہ کے حکمرانوں کا خوبصورت مبارک محل اب کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں کے شاہی خاندان کی کہانی تو ختم ہوگئی لیکن نواب شیر محمد خان کی انصاف پسندی کے قصے ابھی باقی ہیں۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/regional/015/07/150703_maler_kotla_religious_harmony_zs