دیوبندیوں کی حماقتیں اور لطیفے – حصہ دوم
دیوبندی اور تبلیغی مولویوں کا پورا زور نماز میں اللہ کی طرف توجہ کی بجائے ظاہری چیزوں جیسا کہ صفیں سیدھی کرانے، پیر سے پیر جوڑنے پر ہوتا ہے – ایک دیوبندی مولوی مسجد میں صفیں سیدھی کروا رہا ہوتا ہے اور اسی دوران لوگوں کو کہتا ہے کہ کسی کا پاؤں آگے نہ نکلے۔ ایکشخص فوراً دیوبندی مولوی صاحب سے دریافت کرتا ہے کہ ’مولوی صاحب اگر پیر آگے نکل گیا تو کیا نو بال ہو جائے گا‘۔
اسی طرح دیوبندی مولوی سب کو تلقین کر رہا ہوتا ہے کہ نماز کے لیئے اگلی صفوں میں چلے جائیں کہ معصومیت سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ ’کیا پیچھے جھٹکے پڑتے ہیں‘
—-
ایک لڑکی مولوی تقی عثمانی دیوبندی کے پاس گئی اور پوچھا
لڑکی: اگر میں کسی لڑکے سے محبت کروں تو کیا گناہ ھوگا؟
مولوی: ارے توبہ کر ورنہ سیدھا دوزخ میں جائوگی
لڑکی: اور اگر مولوی صاحب آپ سے محبت کروں تو ؟
مولوی (ہوسناک نگاہوں سے): بہت شریر ھو جنت جانے کا ارادہ ھے
—-
ایک سنی مسلمان کا گدھا دیوبندیوں کی مسجد میں داخل ھوا تو لوگ گدھے کے مالک کو برا بھلا کہنے لگے
تو مالک نے کہا کہ گدھا ھے نا سمجھ ھے اس لئے یہاں آگیا ورنہ میں کیو ں دیوبندیوں تکفیریوں کی مسجد میں نہیں آتا
—-
ایک تکفیری دیوبندی مولوی کھیتوں سے گزرا، کیا دیکھا کہ ایک بیل کنویں کے گرد گھومے جارہا ہے اور پانی نکل رہا ہے ، مولوی نے دیکھا کہ آس پاس بھی کوئی نہیں اور بیل اپنا کام بھی کر رہا ہے ، جب ادھر اُدھر دیکھا تو کچھ دور ایک شخص پگڈنڈی پر بیٹھ کر حقہ پی رہا تھا ، مولوی نے جا کر پوچھا ، اے شخص یہ بیل کیا تمہارا ہے جو خود ہی گھوم گھوم کر کنویں سے پانی نکال رہا ہے ، رُکتا ہی نہیں حالانکہ تم یہاں دور بیٹھے ہو۔ وہ شخص کہتا ہے نہیں نہیں مولانا اُس کے گلے میں گھنٹی ہے ، وہ جب تک گھومتا رہے گا تو گھنٹی کی آواز آتی رہے گی اور مجھے پتہ چلتا رہے گا کہ بیل پانی نکال رہا ہے ، دیوبندی مولوی صاحب کہتے ہیں ،یہ کیا بات ہوئی اگر بیل ایک جگہ کھڑا ہوکر سر ہلاتا رہے تو بھی تو گھنٹی کی آواز آے گی ، وہ شخص کہتا ہے مولوی، وہ بیل ہے آپ کی طر ح مضاربہ کا حرام کھانے والا کام چور نہیں ہے
—-
ڈاکڑ، مولوی طاہر اشرفی سے: موٹاپے کا ایک ہی علاج ہے کہ تم روزانہ صرف 2 ہی روٹیاں کھایا کرو۔
طاہر اشرفی دیوبندی: ٹھیک ہے لیکن یہ 2 روٹیاں کھانے سے پہلے کھانی ہیں یا کھانے کے بعد ؟
—–
دار العلوم دیوبند کا قصہ ہے،ایک دفعہ تکفیری دیوبندی مولوی محمود الحسن کو کسی امیر سنی نے خیرات میں گوشت دیا، محمود الحسن دیوبندی گوشت لے کراپنے مدرسے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں کوّے نے گوشت اچک لیا۔ دیوبندی ملا فوراً چلایا، اے کوّے، اگر اپنی خیریت نیک مطلوب ہے تو فوراً گوشت واپس کر دے ورنہ مسجد میں اعلان کر دوں گا کہ کوّا حلال ہے۔ کوے نے گوشت واپس نہ کیا، دیوبندیوں نے اپنے دھرم میں کوے کے گوشت کو حلال کر لیا
——
ایک دن جنت میں حوریں بیٹھی گپ شپ کررہی تھیں کہ دنیا سے ان کے لیے “مرد” آرہے ہیں۔ ابھی وہ ان “افواہوں” پربحث کرہی رہی تھی کہ جو مرد آئیں گے وہ خوبصورت ہوں گے یا بدصورت کہ کچھ فرشتوں کاگزر ہوا۔ حوروں نے فرشتوں کو بلا کر پوچھا کہ ان کو معلوم ہے کیسے مرد دنیا سے جنت لائےجارہے ہیں؟
فرشتے: دنیا کا لائیو ٹی وی لگاو
(حوروں نے ٹی وی لگایا تو امریکہ کاچینل لگا تھا اور خوبصورت خوبصورت گورے لڑکے جینز کی پینٹ پہنے گھوم رہے تھے)
حوریں: (خوشی سے) یہ والے مرد جنت میں آرہے ہیں؟
فرشتے: نہیں نہیں اگلا چینل لگاو یہ سب دوزخی ہیں۔
حوروں نے مایوسی سے اگلا چینل لگایا تو انگلینڈ کا ٹی وی سٹیشن لگ گیا اور سمارٹ سمارٹ گورے لڑکے ٹائی اور ٹو پیس سوٹ پہنے دفاتر میں کام کررہے تھے۔
حوریں: (خوشی سے اچھلتے ہوئے) یہ والے مرد ہمیں جنت میں ملیں گے؟
فرشتے: (غصے سے) نہیں یہ سب بھی دوزخی ہیں اگلا چینل لگاو۔
حوروں نے دکھی دل کے ساتھ واپس بیٹھتے ہوئے اگلا چینل لگایا تو پاکستان کا ٹی وی سٹیشن لگ گیا اور مفتی نعیم دیوبندی، تقی عثمانی، لدھیانوی، ندیم پراچہ اور انصار عباسی جیسے کھلے اور چھپے ہوئے دیوبندی خوارج کی تصویر نظرآئی، کچھ دیر بعد طالبان، اوریا مقبول جان اور ندیم پراچہ نسوار کھاتے نظر آنے لگے۔ لمبی لمبی داڑھیوں والے دیوبندی مولوی تقی عثمانی، طارق جمیل وغیرہ طالبان کو جنت کی حوروں کی خوبیاں گنوا رہے تھے۔
(حوروں نے خوفزدہ ہوکر فرشتوں کی طرف دیکھا)
فرشتے: (اطمینان کے ساتھ) یہ جنتی مرد ہیں جوتمہارے لیے جنت میں منگوائے جائیں گے۔
حوریں: (سہمی ہوئی) ایک سوال پوچھ سکتی ہیں؟
فرشتے: ہاں ہاں پوچھو؟
حوریں: (فرشتوں سے) اگر تمہاری اپنی بہنیں ہوتی تو ان مولویوں کودیتے؟