دھانو (افسانہ) – عامر حسینی

download

نوٹ : ستمبر 2011 کی بات ہے جب سردیوں کی آمد ہوچکی تھی اور میں ملتان گیا تھا ، اس دن بادل چھائے ہوئے تھے ، فضا میں خنکی بہت تھی ، خورشید کالونی مظفر شاہ کے گھر سے میں ، رفعت عباس ، شمیم عارف قریشی ، صابر چشتی مرحوم ، باسط بھٹی ہم سب دمدمہ قلعہ کہنہ قاسم باغ آکر بیٹھ گئے تھے وہیں ایک عورت دھانو نام کی ہمیں دکھائی دی تھی اور اس نے آکر مظفر شاہ سے ایسے ہی وظیفے کے لئے کہا اور پانچ روپے مانگے تھے ، رفعت عباس اس عورت کی شکل ، بت ،قد دیکھ کر وجد میں آگئے تھے اور انہوں نے اس کو وادی سندھ کی دروارڑ نسل کی عورت قرار دے دیا تھا ، صابر چشتی وسمل کا چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جذبات سے دھکنے لگا تھا اور شمیم عارف قریشی بھی اس موقعہ ہر نئی متھ بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے تھے اور میں بھی ایک اور ہی جہان میں پہنچ گیا تھا

اور جب میں رات کو گھر آیا تو میں نے یہ افسانہ لکھا تھا ، ایک نشست میں اور وجدانی کیفیت کے ساتھ لکھے گئے اس افسانے نے بعد ازاں مجھے ایک ناول لکھنے کی طرف بھی مائل کیا تھا لیکن وہ ناول شروع ہوا ، اس کے تین باب لکھے گئے اور اس کے بعد دماغ کی بتی گل ایسی ہوئی کہ کچھ لکھنا محال ہوگیا ، 2011ء سے لیکر 2013ء تک تخلیق کی دیوی مہربان بہت تھی ، عشق کی نئی نئی بہار اپنے رنگ دکھا رہی تھی اور کہانی پر کہانی لکھی جارہی تھی ، اس مختصر دورانئے میں تیس کے لگ بھگ کہانیاں لکھی گئیں اور پھر چھے ماہ مسلسل نظمیں جیسے صف در صف اترتی رہیں اور کمپوز شدہ وہ نظمیں اب بھی میری دراز میں رکھی ہیں ، ایک دوست تھے ان دنوں جن کو یہ نظمیں صفحہ قرطاس پر اتارنے کے بعد ہمیشہ سنایا کرتا تھا پھر وہ دوست کسی جبری غیبت کا شکار ہوگئے اور یہ غیبت اب تک ہے اور انتظار ہے کہ طویل ہوتا جاتا ہے اور عجل عجل کی صدائیں میرے اندر سے اٹھتی رہتیں ، آج میں نے نوٹیفیکشن میں آپا شہناز نقوی کا ” دھانو ” پر تازہ لائک دیکھا تو سوچا کہ ایک تو اس افسانے میں زبان وبیان کی نوک پلک درست کردوں ،

دوسرا اس کو ازسرنو لکھ دوں کیونکہ ایک دو نئے خیال اس دوران میرے زھن میں آگئے تھے ، رفعت عباس کہتے ہیں کہ ملوھا شہر پر وجدانی تحریر وہی لکھ سکتا ہے جس کا سر معرفت کی تلوار سے قلم ہوگیا ہو اور وہ ملوھا میں قبضہ گیروں اور حملہ آوروں کی خون خواری کی زد میں آکر شھید ہونے والوں کی موجود اور ناموجود قبروں کے ساتھ ہم کلام ہونے کی صلاحیت حاصل کرلے اور جب یہ افسانہ میں نے ان کو سنایا تھا تو انہوں نے رات کے آخری پہر بالی کے ہوٹل ملتان صدر میں منڈلی کی موجودگی میں کہا تھا کہ میرا سر بھی معرفت کی تلوار سے قلم ہوچکا ہے اور مجھے ارزل اور دھاڑل کا شکار قوم کی موجود اور ناموجود مگر محسوس قبروں میں استراحت کرنے والوں سے مکالمہ کا شرف حاصل ہوگیا ہے ، رفعت عباس کی مائی تھالوجی بہت پرکشس ہے اگرچہ ان کے سماجیاتی ، سیاسی اور معاشی اطلاقات سے مجھے اتفاق نہیں ہے لیکن یہ مجھے ویسے ہی کھینچتی ہے جیسے مجھے اس افسانے کے مارکسسٹ فلسفے کے ساتھ جڑے کردار مظفر کو ملامتی صوفیا کے مزارات ، آئمہ اہل بیت اطہار اور نہج البلاغہ کھینچتی ہے

2011ء

میں بہت سے لوگوں نے یہ افسانہ نہیں پڑھا ہوگا اور کئی ایک نے فیس بک پر یہ میرا نوٹ بھی نہین دیکھا ہوگا ، سجاد جہانیہ نے اس کو سماج صفحہ پر روزنامہ خبریں میں شایع کیا تھا لیکن مجھے یاد پڑھتا ہے کہ وہ زرا رف سا تھا اسقدر کسا ہوا نہیں تھا اور میں نے بھی شاید ” ناموری ” کے لئے اس کو اخبار کے لئے بھیج دیا ہوگا ، اب فیس بک پر ایسے دوستوں کی منڈلی موجود ہے جن کو یہ افسانہ میں بطور خاص پڑھوانا چاہتا ہوں اور ایک اور بات کہ 2011ء میں یہ افسانہ فیس بک پر پوسٹ کرتے وقت میں اردو کی بورڈ استعمال نہیں کرنا جانتا تھا اور اس زمانے میں پہلے میں گوگول ٹرانسلیشن میں جاکر رومن اردو لکھتا جو اسے اردو رسم الخط میں بدل دیتا خودبخود لیکن ایک پرابلم تھا کہ یہ لیکن خو لکین اور بی بی کو بیبی اور کئی اور الفاظ کا حلیہ بھی بگاڑ دیا کرتا تھا جبکہ ہ اور ھ کے درمیان فرق بھی نہیں کرپاتا تھا ، کہانی اور نظم لکھنے کی ترغیب مجھے میرے گمشدہ دوست نے دلائی تھی وہ اب تک جبری گمشدہ ہے اور اس کا کیس کس عدالت میں نہیں ہے ، اس کہانی نے اس جبری گمشدہ دوست کی یاد دلائی ہے اور میرا وجدان کہتا ہے کہ وہ جس بھی عقوبت خانے میں ہے ابتک زندہ ہے اور کسی گمنام قبر میں اس کو ابھی تک اتارا نہیں گیا تبھی تو اس کی تانگھ ہے کہ لگی ہوئی ہے

ایک دن پہلے صفدر نوید زیدی صاحب کا میسج ملا کہ وہ فون پر بات کرنا چاہتے ہیں یہ وہ آدمی ہے جس سے بات کرنے کو میں آپ بھی مشتاق تھا اور اس فہرست مشتاقان میں بہت سارے نام اور بھی شامل ہیں ان سے ملاقات نہ ہوسکی بات ہوگئی ، باتوں ہی باتوں میں وہ کہنے لگے کہ ان کا ایک اور نیا ناول آنے والا ہے جو ایک ایسے بچے کے بارے میں ہے جو تکفیریوں ک ہتھے چڑھ جاتا ہے اور وہ سفاک جلاد بنکر مسیحاوں اور طبیبوں کو قتل کرنے لگتا ہے اور اس ناول کی پہلی لینڈ سکیپ سرائیکی دھرتی ہے ، مجھے احساس ہوا کہ دھانو جیسی عورتوں کے محبوب جن نیلی آنکھوں والے ، گھوڑے پر سوار بندوقوں سے مسلح اچانک ساحل ہر اترآنے والوں کے ڈر سے ساون میں جب ھڑ آتا ہے اور دریاوں کے کنارے رہنے والے دور اندر جنگل میں بسیراکرتے ہیں ان کو کیا معلوم کہ اب نیلی آنکھوں والوں نے یہ تباھی کا زھر مدرسہ و یونیورسٹی کے اندر موجود خود ان کے اپنے جیسے رنگ روپ رکھنے والی نسل کی رگوں میں اتار دیا ہے ، سعد عزیز ، حافظ ناصر ، اظہر عشرت ، طاہر سائیں اس کی آج کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں ،مجھے شاہد حمید ، مسعود اشعر سے زیادہ اس موضوع سے انصاف کرنے والے اردو افسانہ نگار ابتک نہیں ملے اور صفدر نوید زیدی کے ناول کا مجھے انتظار رہے گا

عامر حسینی
افسانہ

وہ سردیوں کی ایک شام تھی-اس دن دھند بہت تھی-لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے -سڑکوں پر ویرانی کا راج تھا-ٹریفک بہت کم تھی -وہ بھی بس دل کی ویرانی سے گھبرا کر گھر سے نکل پڑاتھا-اس کا گھر ملتان کے شمال میں ایک متوسط طبقے کی رہائشی کالونی میں تھا-کئے سال پہلے اس کے باپ نے یہ مکان بنا لیا تھا -ورنہ اس کی کمائے سے تو گھر چلنا مشکل تھا-وہ ذات کا سید تھا-سنتے تھے کہ پدرم سلطان بود والا معاملہ تھا-لکین کالج کے زمانے میں اس کی یاری چند سرخوں کے ساتھ ہو گئی-بس پھر تو سماج کو بدل ڈالنے کی خواہش نے دل میں،دماغ میں ایسا گھر کیا کہ سب کچھ بھول گیا -اس کے باقی رشتہ دار تو پیری مریدی اور مجلس خوانی سے کافی پیسہ کما رہے تھے -لکین اس نے تو جوڑے ہوئے پیسے بھی خدمت خلق پر لگا دئے تھے-اس پر اسے کوئی ملال بھی نہیں تھا-بیوی اس کو بہت شاکر صبر ملی تھی-ویسے وہ اس کے برعکس مذہبی لحاظ سے مومنہ تھی-نماز روزہ کی پابند،عشرہ محرم کو تزک و احتشام کے ساتھ منانے والی،لکین اس نے کبھی اس پر کوئی زور نہ دیا تھا-

مظفرعلی نام تھا اس کا-اکثر ایسا ہوتا تھا کہ اس کو گھر بیٹھنا محال ہو جاتا اور وہ گھر سے نکلتا ،سڑکیں ماپتا ہوا شمس تبریز کے مزار پر ان نکلتا تھا-وہ ملحد تھا لکین اسے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئے تھی کہ اسے ملامتی صوفیوں سے اس قدر پیار اور لگاو کیوں تھا ؟ وہ جب بھی لاہور جاتا تو شاہ حسین،میاں میر ،بی بی پاک دامن ،قصور میں بابا بلھے شاہ کے مزار پر ضرور جاتا-پاکپتن میں بابا فرید کے مزار پر حاضری دیتا تھا


ان سب مزاروں پر اسے ایسا لگتا تھا جیسے وہ ساری شخصیات اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئی ہوں اور وہ ان سے باتیں کر رہا ہو-ایک مرتبہ جب وہ عراق گیا تھا اور وہاں جا کر وہ نجف اشرف میں امام علی کے مزار پر گیا تو نجانے کب کی پڑھی ہوئی نہج البلاغہ کے چند خطبے اس کو یاد آ گئے تھے اور اس نے امام سے خوب باتیں کی تھیں-کئی سوال کے تھے


اور اسے ایسا لگا تھا جیسے یہ سارے سوال اپنا جواب لیکر لوٹے ہوں-اسے یاد ہے کہ بغداد سے امام موسیٰ کاظم کے مزار کی اور جاتے ہوئے اس کے ساتھ ایک اور فیملی بھی شریک سفر ہو گئے تھی-یہ لوگ پاکستان سے آئے تھے -اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر جانا چاہتی تھی-امام موسیٰ کاظم اور شیخ عبد القادر جیلانی کے مزارات قریب قریب پڑتے ہیں-اس فیملی نے امام موسیٰ کاظم کا نام پہلی مرتبہ سنا تھا-ان کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑی شخصیت تھی-مظفر علی نے ان کو امام موسیٰ کاظم کے مزار پر چلنے کو کہا تو وہ چل پڑے -وہاں اس وقت ٢ لاکھ سے زیادہ افراد جمع تھے-یہ شوال کا دوسرا ہفتہ تھا-اور امام جعفر صادق کی وفات پر ان کو پرسہ دینے کی مجلس ہو رہی تھی


مظفر وہاں جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا تھا-اور اس نے اس خاندان کو امام موسیٰ کاظم کی داستان الم سنائے تھی-اس خاندان کے سربراہ خالد نے اچانک اس سے پوچھا تھا ،کیا تم شیعہ ہو؟وہ یہ سوال سن کر ہنس پڑا تھا-اس نے کہا کہ وہ ملحد ہے-وہ تو میٹا فزکس پر یقین نہیں رکھتا تو وہ سب بہت حیران ہوئے تھے-جب اس نے بتایا کہ وہ ایک مارکسسٹ ہے تو وہ اور حیران ہوئے کے ایک کافر، مادیت پسند فلسفے کا شیدائی یہاں موسیٰ کاظم کے مزار پر کیا کرنے آیا ہے؟

بس ایسا ہی تھا وہ-آج بھی وہ شمس سبزواری کے مزار کے صحن میں آ کر بیٹھ گیا تھا-حالانکہ سردی بہت تھی-لیکن اسے یہ سرد اور ٹھنڈا فرش بہت اچھا لگ رہا تھا-اس کے دل و دماغ کو یہ ٹھنڈک سکون پہنچا رہی تھی-وہ آج اس صحن میں بیٹھ کر شمس کے گنان کو دوہرانا چاہتا تھا


شمس سبزواری سے منسوب ایک حکائت اس نے ایک مرتبہ ایک دوست سے سنی تھی کہ جب شمس سبزواری کی کھال کھینچ دی گئی تو انہوں نے ملتان میں سورج دیوتا کے بت کے پیچھے پناہ لے رکھی تھی اور ملتان کے ہنود کی روائت تھی کہ جب بھی گھر میں نئی نویلی دلھن آتی تو شب زفاف کے بعد گھر والے اس کو ایک پرات میں حلوے اور دودھ کی پرشاد سورج دیوتا کی نذر کرنے کو کہتے تھے ، تو ایک نئی نویلی دلھنحلوے اور دودھ کی پرشاد اٹھائے سورج دیوتا کے حضور آئی تھی اور جب اس نے سورج دیوتا کے حضور آکر پرشاد کو سوئیکار کرنے کو کہا تو شمس سبزواری کو اس عورت کے بھولپن پر ترس آیا اور ھاتھ بڑھا کر اس تکلیف کے عالم میں وہ سارا حلوہ کھاگئے اور دودھ پی گئے

عورت خالی پرات کے ساتھ گھر لوٹی اور جب گھر والوں خو سورج دیوتا کی شفقت بارے بتایا تو لگے سب مذاق اڑانے ،جب عورت اپنے بیان پر قائم رہی تو ایک مرتبہ پھر ہرشاد تیار ہوئی اور سب چلے سورج دیوتا کی اور عورت نے ایک مرتبہ پھر سورج دیوتا کی بارگاہ میں عرض کی کہ اس کی پرشاد کوسیوئیکار کرے لیکن آگے خاموشی تھی اور ادھر سورج دیوتا کے پیچھے پڑے شمس تبریز کی روح کا اپنے رب سے وصال کا موقعہ آن پہنچا تھا کہ جب عورت نے کافی دیر بعد بھی خاموشی پائی اور اہل خانہ کے چہروں پر طنز دیکھا تو بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی کہ سورج دیوتا مانا کہ مجھ جیسی نمانی کے لئے آپ کے پاس کہاں وقت ہوگا لیکن کسی کی مجبوری بھی سمجھا کرتے ہیں

ان الفاظ نے شمس سبزواری کی روح نے رفیق الاعلی سے ملاقات کو کچھ دیر کے لئے موخر کیا کیا اور ایک مرتبہ پھر حلوہ کھایا اور دودھ پی لیا اسے شمس سبزواری سے منسوب یہ حکائت انسانیت پسندی کی اعلی مثال معلوم ہوتی تھی اور اس لئے وہ شمس سبزواری کے مزار پر اکثر آکر مراقبہ زن ہوجایا کرتا تھا آج بھی جب وہ مزار پر آیا تو اس پر سرشاری کی کیفیت طاری تھی اور وہ بس ایک طرح کی وجدانی کیفیت میں گم تھا کہ اتنے میں کہیں سے ایک عورت آ نکلی

اس عورت کا سات فٹ قد ہوگا -چھریرا سا بدن،جسم نہ دبلا تھا نہ ہی موٹا تھا-اس نے ہاتھوں میں کہنیوں تک چوڑیاں ڈال رکھی تھیں-ناک میں ایک سونے کا کوکا تھا جو اس کے چہرے کو بہت بھلا لگ رہا تھا-سر ننگا تھا -جب کہ اس نے ایک چولی اور لہنگا پہن رکھا تھا-پیروں سے لگی جھانجر جب وہ حرکت کرتی تو کھنکنے لگتی تھی-عجب سی با وقار چال تھی اس کی-ایک رعب تھا اس کی چال میں


شائد وہ سحر زدہ ہو گیا تھا-اتنی سردی میں وہ عورت مزار کے احاطے میں سیدھی اس کی طرف آئی-وہ مزار کے اندر نہیں گئی-اس کے قریب آ کر چند قدموں کے فاصلے پر بیٹھ گئی-اس کی طرف خاموشی سے کافی دیر تک دیکھتی رہی-کچھ نہ بولتے ہوئے بھی وہ کافی کچھ بول رہی تھی-
اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کی آنکھیں کوئی سکینر ہیں اور اس کے اندر تک جھانک رہی ہیں
اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس سے پوچھے

بی بی کیا کام ہے ؟
وہ بھی بس خاموش بیٹھا رہا
-اچانک اس نے خاموشی توڑ ڈالی اور کہنے لگی

شاہ جی !
میکوں کوئی ایہوجہیا وظیفہ چا ڈسو کہ میڈا سانولا میڈھے پیچھے چھیتا تھی ونجے
مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتلائے کہ میرا محبوب میرے پیچھے پاگل ہو
جائے-
اوہ میڈی ھک نئیں سنیندا ، میں تاں اودھے پیچھے جھلی تھی گئی ہاں ، اوہ کملا تے ہر ویلے نیلی اکھیاں آلے ، اسپ سواراں دی گال کریندا رہھندا اے جیڑھے بندوقان چاکے حملہ کریندے ہن
شاہ جی میکوں کوئی وظیفہ ڈسو ہور میکوں پنج روپے دیو ، میں اوکوں فون کرینا چاہندی آں کہ ساون آگیا ھے تے اس موسم چہ دریا تے کم کرنا ٹھیک نئین ہوندا
شاہ جی ! اوہ جھلا میڈی گال نئیں سنندا تے دریا دا کنارا وی نئیں چھڈدا
وہ میری بات نہیں سنتا ہے-میں اس کے پیچھے جھلی ہو گئیں ہوں-وہ
کملا ہر ویلے نیلی آنکھوں والے.ہاتھوں میں بندوں لئے ،گھوڑوں پر سوار حملہ
آوروں کی بات کرتا رہتا ہے-شاہ جی!اس کو بہت سمجھاتی ہوں کے گھوڑوں کا زمانہ چلا گیا -پر وہ مانتا ہی نہیں ہے-مجھے کوئی وظیفہ بھی دو اور پانچ روپیہ بھی –
تاکہ میں اس کو فون کر سکون کہ واپس لوٹ آ -ساون آ گیا ہے-اس موسم میں دریاؤں پر کام کرنا اچھا نہیں ہوتا-پر شاہ جی وہ جھلا کبھی دریا کا کنارہ نہیں چھوڑتا
ہے کہتا ہے “کملی یہ جو گھوڑے والے ہوتے ہیں -یہ بہت ظلم ہوتے ہیں-جب دریاؤں کی طغیانی عروج پر ہوتی ہے تو یہ دہرایا میں گھوڑے اتر دیتے ہیں-اور ہم دراوڑ ملیچھ بن کر صدیوں کے غلام بن جاتے ہیں-

کہتا ہے”سب تو چلے گئے ،میگھ ملہار کو خوش آمدید کہنے
اگر میں بھی چلا گیا تو یہ ساون عذاب بن جائے گا-
دھانو نے اچانک اس کے پیر پکڑ لئے -کہنے لگی شاہ جی !آل محمد ہو -بی بی فاطمه سے کہو اپنے سر کے سائیں علی کے صدقے میرے محبوب کا جھلا پن ختم کردے -اس کے دل سے نیلی آنکھوں والوں کا خوف اتر جائے-وہ ساون میں تو گھر آ جائے


شاہ جی !میں دھانو برسوں سے سرگرداں پھر رہی ہوں-کئی مزاروں پہ گئی ،مگر کہیں میری بات نہیں سنی گئی اور کسی بزرگ نے اب تک میری بات نہیں سنی-حکیم جی کے پاس بھی گئی تھی -اس نے مجھے جھلی کہ کر جھڑک دیا

-شاہ جی تم ہی بتاؤ کیا میں جھلی ہوں-اپنے محبوب کی سلامتی چاہنا کوئی جھلا پن ہوتا ہے-

بس یہ کہہ کر روتی ہوئی دہانو چلی گئی-اب اسے مزار کے صحن میں بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا-اس کے دماغ پر نیلی آنکھوں والے ،ہاتھ میں بندوق لئے ،گھڑ سوار قبضہ جماچکے تھے-اسے شمس کے گنان بھول گئے تھے-کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا-بس کانوں میں دھانوکی آواز گونج رہی تھی-
شاہ جی !کیا محبوب کی سلامتی چاہنا -جھلا پن ہوتا ہے؟

Comments

comments