ایک تھی ریاست ، ریاست کا تھا ایک گاؤں اور گاؤں کے تھے ایک قاضی. قاضی صاحب اس بات کے قائل تھے کہ اگر کسی کو حق دینا ہے تو پہلے تو قیصر کو اس کا حق دو اور پھر حسب مراتب چلو تو اسی میں نجات ہے اور حیات بھی. لہٰذا قاضی صاحب تک وہی پنہچ پاتا جس تک قاضی صاحب پہنچنا چاہتے. پھر ہوا ایسا کہ شیخ جمن کے لونڈے نے امام دین درزی کی لونڈیا کو اٹھا لیا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کرتا پکڑا گیا، شیخ جمن بڑے کھاتے پیتے تاجر تھے، کھاتے بھی تھے کھلاتے بھی تھے، پیتے بھی تھے پلاتے بھی تھے. چھوٹے موٹے لوگوں کو بڑا بغض تھا شیخ صاحب سے تو بس لونڈے کی شامت آ گئی، پہلے تو خوب خوب مار پڑی بیچارے کو، پھر لوگ چشم دید گواہ بن کر تھانے دے آئے ، لوگ باگ بلا وجہ بپھرے ہوئے تھے ، اب تیری میری بیٹیوں کے ساتھ تو یہی ہوتا آیا ہے نا، مگر دروغہ جی نے سمجھانے کی کوشش کی تو لوگ باگ ہنگامے پر اتر آئے، کہیں سے کوئی صحافی بھی آ گیا جس کو اس وقت ایمانداری کا ہیضہ ہوگیا تھا جس نے پورا معامله جوں کا توں نہ صرف لکھا بلکہ آگے بھیج دیا ، چھپنے کے لئے. دروغہ جی کے پاس کوئی راستہ نہ تھا سو انہوں نے بھی پرچہ کاٹ لیا. شیخ صاحب کو پتہ چلنے تک معامله ہاتھ سے نکل چکا تھا، حالانکہ شرفو بدمعاش ایسے ویسے لوگوں کو ان کے لئے قابو کر لیا کرتا تھا مگر قسمت کہ لونڈے کو وہی دن ملا جس دن شیخ اور شرفو دونوں ہی کہیں اور کھانے پلانے میں لگے تھے. اب معامله قاضی صاحب کے پاس تھا، چناچہ شیخ صاحب نے فورا سے پیشتر ان کی ڈیوڑھی پہ دستک دے ڈالی ، اب قاضی صاحب شرم و حیا رکھنے والے آدمی تھے، بھلا کیسے کسی شریف کی پگڑی اچھلتے دیکھ سکتے، فورا تقاضہ کیا کہ میاں میرا منہ بند، آنکھیں اندھی اور کان بہرے کرنے کا انتظام کر دو، کہیں ایسا نہ ہو بتقاضا ئے بشریت کوئی بھول چوک ہو جائے اور لونڈا پھنس جائے. شیخ صاحب نے انتظام فرما دیا اور قاضی صاحب نے یقین دہانی کہ کچھ ہو اب شرفا کی عزت کا پاس تو قانون رکھ کر ہی رہے گا
.
جس دن عدالت لگی، لونڈا عدالت میں پیش ہوا، وکیلوں نے معامله قاضی صاحب کے آگے رکھا، بحث مباحثہ ، ردو قدح سب ہوا ، پھر قاضی صاحب نے وکلا کی بحث اور گواہوں کے بیانات کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ بلکل ایسا ہی کیس میاں بفاتی کا بھی ہوا تھا ، اور ان کو سزا نہیں ملی تھی کیونکہ ون سے بھی پہلے ایک لاٹ صاحب تھے مسٹر جیمس جن کا تو روز کا مشغلہ یہی تھا، وہ بھی عدالت آئے تھے مگر با عزت بری کر دیے گئے کہ ثبوت نہ کافی تھے، گواہوں کے بیان سے سوئی دھاگے اور سرمہ دانی اور سلائی کا واقعہ ثابت نہ ہوتا تھا، کہیں سرمہ دانی تھی تو سلائی نہ تھی، کہیں سلائی تھی تو سوئی نہ تھی، سوئی تھی تو دھاگہ نہ تھا. لہٰذا یہ حضرات با عزت بری ہوئے تھے اور الزام لگانے والے اندر، اس لئے عدالت حکم دیتی ہے کہ امام دین درزی کی لونڈیا کو شیخ جمن کے لونڈے پر بہتان لگانے کی سزا دی جائے اور تمام گواہوں کو بھی جھوٹ کا ساتھ دینے پر تحقیر عدالت کا مجرم گردانا جائے. تو جناب اس طرح شیخ صاحب کا لونڈا چھوٹ گیا کہ جب دوسرے مجرم ، معذرت کے ساتھ، ملزم چھوٹ گئے تو اس معصوم لونڈے کو سزا کیوں ہو، سزا اسے ہی ملے جسے سزا ملتی آئی ہے، جب میاں بفاتی اور لاٹ صاحب مزے میں ہیں تو شیخ جمن کا لونڈا کیوں نہ مزے کرے. پوری ریاست کے تمام شرفا اس فیصلے پر پھولے نہ سماۓ کہ یہی انصاف کا تقاضہ تھا، اب ایک صحافی اور چند گواہ لا کر یہ تو نہیں ہو سکتا نا کہ ایک کو سزا ہو جائے جبکہ باقی سب وہی کام کرنے والے مزے میں ہوں، بھائی انصاف ہو تو سب کے ساتھ ایک جیسا ہو ورنہ نہ ہو. امام دین درزی کی لونڈیا کا کیا تھا ، پنہچی وہیں پے خاک جہاں کا خمیر تھا
.
لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، کچھ دن گزرے کہ شرفو نے کھاتے پیتے ، شغل کرتے ایک دن قاضی صاحب کی لونڈیا کو اٹھا لیا اور ون کے ساتھ بھی وہی کیا جو امام دین درزی کی لونڈیا کے ساتھ ہوا تھا، اب عدالت لگی تو ایک اور قاضی صاحب منصب پر تھے کہ اپنے قاضی صاحب اب درخواست گزار تھے، فیصلہ پھر وہی ہوا کہ جب میاں بفاتی ، لاٹ صاحب جیمس، شیخ جمن کے لونڈے کو سزا نہیں ملی تو شرفو کو کیوں ملے ، اس دفعہ اپنے پرانے قاضی صاحب اپنی لونڈیا سمیت خمیر بن کر وہیں جا پنہچے جہاں پنہنچنا تھا. شرفا اب بھی بڑے اطمینان میں تھے ، اس سے بے خبر کہ ان کی لونڈیا کی باری بھی آیا ہی چاہتی تھی، مگر جب میاں بفاتی ، لاٹ صاحب جیمس، شیخ جمن کے لونڈے اور شرفو کو سزا نہ ملی تو اور کسی کو کیوں ملے؟
Comments
comments