پاکستان مخالف ریسرچ روکنے کے طریقے – وسعت اللہ خان
محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے 27 مارچ کو جاری ہونے والے ایک مبینہ سرکلر کے مطابق کئی سیکورٹی ایجنسیوں نے نشاندہی کی ہے کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں طلبا کو پاکستان مخالف اور ثقافتی اقدار سے متصادم موضوعات بغرضِ تحقیق دیے جارہے ہیں۔
مجاز اتھارٹی نے اس صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لیا ہے لہٰذا تلقین کی جاتی ہے کہ تدریسی برادری ملکی نوجوانوں میں فروغِ حب الوطنی کے لیے تعمیری کردار ادا کرے اور تحقیق و مباحث کے لیے ثقافتی اقدار سے متصادم اور پاکستان مخالف موضوعات تفویض کرنے سے گریز کرے۔ توقع ہے کہ مجاز اتھارٹی کی ان ہدایات پر من و عن عمل ہوگا۔( اشتیاق احمد سیکشن آفیسر )۔
ہوسکتا ہے بال کی کھال نکالنے کے عادی دانشور اب یہ کیڑے نکالیں کہ مذکورہ سرکلر میں پاکستان مخالف اور ثقافتی اقدار سے متصادم موضوعات سے کیا مراد ہے ؟اور اگر کسی موضوع پر علمی تحقیق و مباحثہ نہیں ہوگا تو کھرے کھوٹے کا پتا کیسے چلے گا اور اس طرح کی پابندیاں فروغِ تحقیق و جستجو کے لیے کس قدر مضر ہیں اور ایسے اقدامات سے کیا پہلے سے موجود گھٹن اور نہیں بڑھے گی وغیرہ وغیرہ۔
مگر ان فارغ قسم کے نکتہ چینوں کی بات پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ۔ایسی تحقیق کس کام کی جو محقق کو اپنی ثقافتی اقدار سے بیگانہ کرنے کے ساتھ ساتھ حب الوطن بھی نہ رہنے دے۔
پھٹ پڑے وہ سونا جس سے پھوٹیں کان ۔۔۔
چنانچہ یہی بہتر ہوگا کہ نوجوانوں میں پاکستانیت کو فروغ دینے کا کام نااہل اساتذہ اور کج ذہن دانشوروں پر چھوڑنے کے بجائے کچھ ناگزیر فوری علمی و انتظامی اقدامات صرف پنجاب گیر نہیں ملک گیر سطح پر فوری طور پر کیے جائیں۔ مثلاً اعلیٰ تحقیقی موضوعات کی اسکریننگ کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور پڑھے لکھے سیکورٹی اہلکاروں پر مشتمل ایپکس اکیڈمک کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ کسی پاکستان مخالف یا قومی ثقافتی اقدار سے متصادم موضوع پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کا ڈول ہی نہ ڈل سکے۔
زیادہ بہتر ہوگا کہ یونیورسٹیاں اور سکیورٹی ادارے مشترکہ تحقیقی فہرست مرتب کرلیں اور امیدواروں کو بس اسی فہرست سے موضوعات منتخب کرنے کی اجازت ہو۔
بطور نمونہ چند اعلی تحقیقی موضوعات حاضر ہیں ۔
- قبل از محمد بن قاسم برصغیر کی حالتِ جہالت۔
- فروغِ پاکستانیت میں سیکورٹی اسٹیٹ کا نظریاتی و عملی کردار۔
- محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر، حقیقت یا افسانہ۔
- بلوچستان میں صنعتِ مرغبانی کے زوال میں قبائلی سرداروں کا کردار۔
- سندھی اور پختون کلچر کے بنیادی مماثلتی پہلو۔
- وفاقی ڈھانچے کے استحکام میں پنجاب کا کردار۔
- قومی یکجہتی کےفروغ میں جہادی کلچر کی اہمیت۔
- افغانستان کی تعمیر وترقی میں پاکستان کی خدمات ( 1980 تا 2014 )۔
- پاکستان کو کمزور کرنے کی بھارتی، اسرائیلی و مغربی سازشوں کی 68 سالہ تاریخ
- پاکستان کی خارجہ پالیسی: نظریہِ پرامن بقائے باہمی کا مثالی ماڈل ( اے کیس سٹڈی آف پاک چائنا ریلیشنز )۔
- پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آسودگی اور تحفظ کے ضامن ماڈل ریاستی قوانین کی برکات ( 1973تا حاضر ) ۔
- با اختیار عورت، با اختیار ریاست۔ پاکستان میں خواتین کی مساوی ترقی کیسے ممکن ہوئی۔ ( دورِ ایوبی تا دورِ ضیا مطالعہ )۔
- استحکامِ پاکستان کے لیے سعودی عرب کی گراں قدر کوششیں۔
- نظریاتی ریاست میں جہادی ثقافت اور مقامی ذیلی ثقافتوں کا تقابل۔
- پاکستان میں سائنسی علوم اور سوچ کے پھیلاؤ اور ترقی میں علما کی خدمات وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی کے امیدواروں کو ایک اکیڈمک گائیڈ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کچے ذہن کو سیدھی راہ سے یہی نام نہاد اکیڈمک گائڈز بھٹکاتے ہوں۔ لہذا جس طرح سرکاری تعمیراتی ٹھیکے صرف گورنمنٹ سے منظور شدہ ٹھیکیداروں کو ہی ملتے ہیں اسی طرح اکیڈمک ریسرچ گائیڈز بھی سیکورٹی اداروں کے لائسنس یافتہ ہونے چاہئیں۔ پھر بھی تحقیقی امیدواروں پر لازم ہونا چاہیے کہ فائنل مقالہ جمع کرانے سے پہلے مجاز نگراں کمیٹی سے منظور کروائیں۔ تب کہیں جا کے قومی ثقافتی اقدار اور پاکستانیت کے منافی بے لگام تحقیقی رجحان کا خاتمہ شروع ہو گا۔
اس بابت یو ٹیوب پر پابندی اور قومی اسمبلی میں نیا سائبر کرائم بل متعارف ہونے کے بعد محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کا تازہ سرکلر درست سمت میں مثبت قدم ہے ۔لیکن ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ پاکستان پہلے ہی علمی میدان میں باقی دنیا سے انتہائی پیچھے رھ گیا ہے۔ اس لیے تدریس و تحقیق کے پردے میں غیر محب ِ وطن اور قومی ثقافت کے درپے عناصر کو مزید کھل کر کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/05/150503_baat_se_baat_hk