گیدڑ شور مچاتے ہیں – عامر حسینی
نوٹ : تربت میں ایک نوجوان شاعر سمیت تیرہ بلوچ ایف سی نے دہشت گرد قرار دیکر مار ڈالے
گیڈر شروع مچاتے ہیں
ان کی سربراہی بھیڑیا کرتا ہے
وہ جگنی گاتا ہے
جگنی میں ریاست کی بالادستی کا راگ ہے
نام علی ، شیر مرداں نہیں ہے
کیونکہ ہدف بھی تو ظالم نہیں
مظلوم قوم کا ایک مجبور محکوم شاعر ہے
جس کے شبد سے
ریاست کے کالے جادو کو خطرہ ہے
لوگ بیدار ہوسکتے ہیں
بیدار لوگ اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں
ایسے لوگ زمین پر اچھے نہیں لگتے
گیدڑ شور سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں
بھیڑئے کو ان کا شور
خون کی اشتہا بھڑکانے والی موسیقی لگتا ہے
وہ شاعر کو مجسم سرمچار سمجھتا ہے
اس کے منتروں کو بندوق کہتا ہے
اس شاعر کی جھونپڑی میں
شاعر کے گھر والے
کل ملاکر تیرہ ہوتے تھے
سب کو اپنے بارودی تیز نوکیلے دانتوں سے دبوچ لیتا ہے
بلوچ شاعر کے نرخرے سے
کھڑ کھڑ کی آوازیں
آزادی ، آزادی کے نعرے لگتی ہیں
پنجے مارکر اس کا دل
نکال کر بھنبھوڑنے لگتا ہے
گیدڑ شور مچاتے ہیں
صبح کے اخباروں میں سرخیاں منہ چڑاتی ہیں
تیرہ دہشت گرد تربت میں مورچہ بند مارے گئے
گیدڑوں کا شور اور تیز ہوجاتا ہے
بھیڑیا اپنے فوجی بھٹ میں آرام سے سوتا ہے