بلوچ قوم کی آزادی کو کسی فوجی آپریشن سے دبایا نہیں جاسکتا – عامر حسینی
جنرل راحیل شریف نے تربت کے ایک علاقے گبین میں فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن کے لیے کام کرنے والے مزدوروں کے کیمپ پر حملے اور اس حملے میں شہید ہونے والے مزدوروں کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اور ملک بھر میں بلوچستان کے نام پر غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنٹوں اور آلہ کار کے طور پر کام کرنے والوں کا پیچھا کیا جائے گا اور بلوچستان میں گڑبڑ کرنے والوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ جنگ جاری رہے گی ، ایف ڈبلیو او اپنے منصوبے جاری رکھے گی
جنرل راحیل شریف کے اس بیان سے پہلے ایک معروف خبررساں ایجنسی کی ویب سائٹ پر یہ خبر آئی کہ پاکستان آرمی نے مکران میں ضرب عضب کی طرح کا فوجی آپریشن کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں
ان بیانات اور خبروں سے یہ اب یہ بات پوری طرح سے ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان کی ملٹری قیادت کی جانب سے اس سے قبل بلوچستان کے حوالے سے یہ جو بیانات آتے رہے کہ وہاں فوج کسی قسم کا آپریشن نہیں کررہی ، نہ ہی فوج بلوچستان کی سیکورٹی معاملات پر کنٹرول کررہی ہے بلکہ یہ ایف سی ہے جو صوبائی حکومت کی ھدائیت پر وہاں موجوص ہے جیسے کور موقف کی بجائے کھل کر سامنے آگئی ہے اور وہ ملک میں مذھبی دہشت گردوں ، دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے خلاف بننے والی فضاء کو بلوچ مزاحمت کاروں اور بلوچ قومی تحریک کے سیاسی کارکنوں اور ان کے ہمدردوں کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق لاہور یونیورسٹی آف مینجمینت -لمز کے پروفیسر کو آئی ایس آئی کے لوگوں نے دھمکایا اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر ایک مذاکرے کو زبردستی روک دیا
اس کے بعد پنجاب میں بلوچستان کے حق میں اٹھنے والی ان تھوڑی سی آوازوں کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی گئی جو حق گوئی پر قائم ہیں بلوچ قوم کے ساتھ پاکستان کی ریاست ایک نوآبادیاتی کالونی کا سا سلوک کررہی ہے اور اس قوم کے وسائل اور زمین کی بند بانٹ کا عمل شدت سے جاری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں یہ کالونائزیشن ریاست ٹرانس نیشنل کمپنیوں ، پاکستانی سرمایہ دار کمپنیوں کے ساتھ مل کر کررہی ہے اور اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں بلوچستان میں جن ڈیموگرافک تبدیلیوں اور بربادیوں کے آثار نظر آرہے ہیں اب کے خلاف بلوچوں کی مزاحمتی تحریک کو ریاست فوج سمیت دیگر سیکورٹی آپریٹس ، ایجنسیوں کی بدمعاشی اور کئی ایک غدار بلوچوں میں پیسے بانٹ کر دبانا اور کچلنا چاہتی ہے ، ریاست کی جانب سے کئی ایک قسم کی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ، ایک پالیسی تو بلوچ ، سرائیکی ، سندھی ، پشتون ، ہزارہ کو لڑانے کی ہے ، دوسری طرف بلوچستان میں فرقہ پرستانہ دہشت گردی کی سرپرستی ہے ، تیسری طرف نجی ڈیتھ اسکواڈ ہیں اور پھر خود ریاست کا اپنا جابرانہ نظام ہے جس کو پوری طرح سے بلوچوں کو کچلنے کی طرف لگایا گیا ہے
ریاست کی جانب سے مین سٹریم میڈیا اور سرکاری میڈیا پر بلوچ قومی تحریک کے خلاف پوری طرح سے پروپیگنڈا جاری و ساری ہے اور بلوچ قومی تحریک کے چہرے کو مسخ کرنے اور ان کو آزادی کے مزاحمت کاروں کی بجائے غیر ملکی ایجنسیوں ، غیر ملکی ساذشوں کے ہرکارے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے
بلوچ قومی تحریک کا مقابلہ ریاست کی مشینری سے ہے اور ظاہر ہے ریاست کی جابر مشینری اتنی طاقت ور ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بناکر دکھا سکتی ہے
ریاست اور اس کی سب سے طاقت ور جابر قوت فوج کی یہ تاریخ ہے کہ اس نے کبھی بھی اس ریاست کے اندر رہنے والی اقوام کی شناخت ، وسائل پر ان کے فائق حق کو قبول نہیں کیا اور جس بھی قوم نے اسلام آباد کے حاکموں کے “مہا بیانئے ” ان کے نام نہاد ترقیاتی پروجیکٹ اور ماڈل کے راستے میں روکاوٹ ڈالی ، اپنے ہونے پر اصرار کیا ، اپنی شناخت کو مصنوعی قوم کے نام پر ترک کرنے سے انکار کیا اس کو بری طرح سے کچلا گیا ، جو کھیل ریاست بلوچ قوم کے ساتھ کھیل رہی ہے وہ اس سے پہلے بنگالیوں ، پشتونوں ، سندھیوں کے ساتھ کھیلا جاچکا ہے اور جب کبھی سرائیکی قومی تحریک اس قابل ہوئی کہ وہ ریاست کے مہا بیانئے کو حقیقی طور پر چیلنچ کرنے کے قابل ہوئی تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو آج بلوچوں کے ساتھ کیا جارہا ہے
ریاست کی سب سے بڑی طاقت پاکستان آرمی کا پورا نیٹ ورک ہے جس میں حماعت دعوہ سمیت کئی پراکسی اس کے پاس ہیں اور وہ سب کی سب بلوچوں کی مزاحمت کے خاتمے اور بلوچستان کو مکمل طور پر فتح کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں سندھی ، سرائیکی ، پشتون قوم پرست قیادت اور بائیں بازو کی قوتوں کو ریاستی سازش کا ادراک کرنا چاہئیے اور بلوچ مزاحمتی ےتحریک کے سیاسی کارکنوں ، دانش وروں ، ادیبوں ، شاعروں کے ساتھ مکالمے کی کھڑکی کھول کر ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہئیے کہ وہ مزدوروں ، راج گیروں ، کمزوروں کو نشانہ مت بنائیں
لیکن یہاں ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر یہ جو لیبر کی مائیگریشن ہے اس کو کیسے روکا جاسکتا ہے ، مزدوروں کو بھوک ، افلاس اور بیروزگاری عراق ، افغانستان جانے سے نہ روک سکی جب وہاں امریکی حملے کے بعد طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی ، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ محنت کش پنجاب ، سرائیکستان ، سندھ ، خیبرپختون خوا ، فاٹا ، گلگت بلتستان ، کشمیر سے جہاں روزگار کی امید بندھے گی جاتے رہیں گے چاہے وہ بلوچستان ہو ، کراچی ہو ، دبئی ہو ، لاہور ہو ، ملتان ہو ، سعودی عرب ہو ، قطر ہو ، شاونسٹ قوم پرستی کے ساتھ لیبر کی نقل وحمل کے سوال کے ساتھ معاملہ کرنا ٹھیک نہیں ہوگا
بلوچ قوم پرست جو بلوچستان میں مزدوروں کی ٹارگٹ کلنگ کے جواز تلاشنے کے لئے عذر لنگ تلاشتے ہیں ان کو یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ اس کلئے کے تحت پورے مڈل ایسٹ میں پھیلے بلوچ محنت کشوں اور خود کراچی اور دیگف اربن ایریاز میں بلوچ محنت کشوں کے خلاف جذبات پروان چڑھیں گے اور اقوام کے باہمی اتحاد اور بھائی چارے کے تصور پر سخت ضرب پڑے گی ، قومی سوال کو طبقاتی سوال سے الگ کرنے سے جو خرابیاں قوموں کی آزادی کی تحریک کے اندر سرائت کرتی ہیں اس کا عکس بلوچ تحریک کے اندر موجود ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ خود سندھی اور اس سے پہلے بنگالی تحریک میں بھی موجود رہا ہے
ہم تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر بلوچ قومی تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں اور بلوچ قومی تحریک کو غیرملکیوں کی سازش خیال نہیں کرتے ، نہ ہی بلوچ ایشو کو مصنوعی ایشو خیال کرتے ہیں ، اس ایشو کی تاریخی سماجی مادی جڑیں تو بہت پہلے سے موجود ہیں ، 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے لیکر آج تک برصغیر میں قوموں کی آزادی ، خود مختاری ، وسائل پر ان کی دسترس اور ان کی ثقافت و شناخت کی آزادی کے سوال اپنی جگہ موجود ہی نہیں رہے بلکہ امتداد زمانہ اور نئی وجود مین آنے والی ریاستوں نے ان کو اور مسخ اور زیادہ پیچیدہ بناڈالا ہے اور اس میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہر قوم کا حق خودارایت جس میں حق علیحدگی بدرجہ اتم شامل ہے تسلیم کیا جائے اور اس حق کو دینے میں پاکستان ہو کہ بھارت یا سری لنکا انکاری ہیں اور اپنے ہاں مجبور ، محکوم ، استحصال زدہ قوموں کی حقوق کی تحریک کو کچلنے میں زرا شرم نہیں کرتے بلکہ ان کے مظالم تو برطانوی سامراج سے بھی کہیں زیادہ سنگین اور وحشیانہ ہوچکے ہیں