طاہرہ شاہ: شہیدِ سندھو دریا
سماجی کارکن طاہرہ شاہ، جنہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان کی ماہی گیر برادری کے حقوق کی جدوجہد میں گزار دی، اس مہینے ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔
مجھے یاد ہے میں ان سے پہلے بار جنوری 2010 میں پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کا ممبر بننے کے بعد پہلی بار ابراہیم حیدری میں پی ایف ایف کے سیکریٹریٹ پر ملا تھا۔ ابراہیم حیدری پاکستان کا سب سے بڑا ماہی گیر گاؤں ہے۔
میں نے ایک سادہ لیکن پر وقار خاتون کو دیکھا جو چالیس سے کچھ اوپر کی ہوں گی۔ وہ ڈسکشن کے نوٹس لے رہی تھیں، اور جب بھی انہیں کسی نکتے پر کسی وضاحت کی ضرورت ہوتی، تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرتیں۔
ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ ماہی گیر خواتین کے مسائل، ان کی صحت، ان کی تعلیم، یونٹ (گاؤں) اور پی ایف ایف کے ضلعی اور مرکزی سطح پر ان کے کردار کے بارے میں بہت سنجیدہ تھیں۔ ایک سینیئر ساتھی نے مجھے بتایا کہ وہ پی ایف ایف کی منتخب سینیئر وائس چیئرپرسن ہیں۔
یہ وہ پہلا موقع تھا جب میں نے ان کے اندر لیڈر دیکھا۔
ایک مڈل کلاس سید گھرانے میں پیدا ہونے والی طاہرہ شاہ کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل اپنے خاندان والوں کی مرضی کے خلاف نچلے طبقے کے ماہی گیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے محمد علی شاہ سے شادی کرنا تھا۔
آخر کار طاہرہ شاہ نے کورٹ میرج کرنے کا باغیانہ قدم اٹھایا۔ وہ اپنی زندگی کے بارے میں پراعتماد تھیں۔
اس جوڑے نے ساتھ مل کر اپنی پہلی اور بہت چھوٹی تنظیم ‘انجمنِ سماجی بہبود’ کے نام سے بہت ہی مقامی سطح پر ماہی گیر برادری کے حقوق کے لیے کام کرنا شروع کیا۔
لیکن بعد میں طاہرہ شاہ نے جانا کہ خواتین کے مسائل مناسب انداز میں حل نہیں ہو رہے تھے، اور تنظیم کی فیصلہ سازی میں خواتین کا کوئی موثر کردار نہیں تھا۔
اور تب انہوں نے ایک علیحدہ تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس کا نام انہوں نے ‘ساھڑین ساتھ’ (خواتین کی تنظیم) رکھا۔
وہ در در گئیں، خواتین کو منظم کیا اور انہیں ہمت دلائی، ان کے مسائل سمجھائے اور ان کے حل کا راستہ دکھایا۔
1998 میں جوڑے نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک بھر کے ماہی گیروں کی نمائندہ تنظیم ‘پاکستان فشر فوک فورم’ کی بنیاد ڈالی۔
نہ صرف یہ کہ انہوں نے خود آواز اٹھائی، بلکہ انہوں نے دیگر خواتین کو بھی جنس، ذات، اور مذہب کی بنا پر تفریق کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دلائی۔
پی ایف ایف نے ایک بار ‘دریا آزاد رکھو’ کے نام سے ایک کارواں کا اہتمام کیا تھا۔ کارواں کے سینکڑوں شرکاء میں سے کچھ نچلی ذات کے ہندو بھی تھے۔ طاہرہ نے دیکھا کہ خواتین شرکاء ہندوؤں خواتین سے فرق کر رہی تھیں اور انہیں طعنے دے رہی تھیں۔
انہوں نے فوراً ہی مداخلت کی۔ وہ خواتین سے ایسے گھل مل گئیں جیسے کہ پرانی دوست ہوں اور ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ اس طرح انہوں نے فرق ختم کر کے یہ یقینی بنا دیا کہ ان کا احساسِ کمتری ختم ہو جائے۔
وہ حقیقی لیڈر تھیں۔
طاہرہ کی حقیقی جدوجہد پاکستان رینجرز کے خلاف جدوجہد سے شروع ہوئی۔ رینجرز نے ضلع بدین کے ساحلی علاقوں میں جھیلوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔
انہوں نے خواتین ماہی گیروں کو گھروں سے نکالا اور سڑکوں پر لائیں، مظاہرے کیے، بھوک ہڑتالیں کیں، اور پریس کلب کے سامنے دھرنے دیے۔ رینجرز کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اس طرح سے جدوجہد کرنا واقعی بہت دل گردے کا کام ہے۔
جب ان کے شوہر محمد علی شاہ جیل میں تھے، تو طاہرہ نے ماہی گیر برادری کے مقصد کے لیے جدوجہد جاری رکھی، اور ان تمام مشکلات کا خوشدلی سے سامنا کیا، جو انہوں نے خود اپنے لیے پسند کی تھیں۔
اور پھر سب نے انہیں تب کامیاب ہوتے ہوئے دیکھا، جب طاقتور رینجرز نے نیم فوجی حکومت کے دور میں بھی ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
سانگھڑ میں صحافی برادری مقامی جاگیرداروں کے اثر و رسوخ سے دباؤ کا شکار تھی۔ میرے کئی دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ طاہرہ شاہ ہی تھیں جنہوں نے چوٹیاریوں تالاب پر وڈیروں کے قبضے کے خلاف مہم چلا کر سانگھڑ پریس کلب کو آواز دی۔
طاہرہ نے ایک بار پھر جادو دکھایا۔ انہوں نے سانگھڑ شہر میں ہزاروں لوگوں کی احتجاجی ریلی نکالی، اور پریس کلب کے سامنے شعلہ بیان تقاریر میں وڈیروں کو زبردست چیلنج کیا۔ جلد ہی سانگھڑ کے صحافیوں میں اتنی ہمت پیدا ہوگئی، کہ وہ ان کی تقاریر اور جدوجہد کو کوریج دینے لگے۔
سب کی جیجی
طاہرہ کی شخصیت کئی جہت رکھتی تھی۔ جہاں انہوں نے نظم و ضبط اور ہمت کے ساتھ تحریک چلائی، وہیں انہوں نے تنظیم کی ایک عام کارکن کی طرح بھی کام کیا۔ وہ ہمیشہ ڈسکشن کے نوٹس لیتی ہوئی اور برادری کی میٹنگز کی رپورٹیں مرتب کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔
ماہی گیر برادری کی تقاریب میں وہ لوک گانے گایا کرتیں، اور روایتی رقص بھی کرتی تھیں۔ ورکشاپس اور سیمینارز میں وہ ہمیشہ توجہ سے سنتی تھیں، اور ہمیشہ سب کے ساتھ نرمی سے یش آتی تھیں۔ حالانکہ جس جس نے بھی ان کی ریلیوں اور مظاہروں میں شرکت کی ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھیں۔ وہ ایک چٹان تھیں، ایک صاف کردار والی لیڈر، جنہوں نے کبھی بھی اپنے ساتھیوں کو اکیلا نہیں چھوڑا، چاہے صورتحال کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو۔
طاہرہ کئی غریب گھرانوں کی مالی امداد کیا کرتی تھیں۔ وہ جس سے بھی ملیں، اس کے پاس ان کے بارے میں ایک نئی کہانی ہے۔ پاکستان بھر کی ماہی گیر برادری انہیں جیجی (ماں) کہتی ہے۔
جیجی بہت ہی سادہ تھیں۔ وہ کبھی بھی میک اپ نہیں کرتی تھیں اور زیورات نہیں پہنتی تھیں، تقاریب اور فیسٹیولز میں بھی نہیں، چاہے ساتھ خواتین انہیں میک اپ کرنے کو کتنا ہی کیوں نہ کہتیں۔ لیکن طاہرہ کے پاس ایک چیز ایسی تھی جو کوئی میک اپ نہیں دے سکتا، اور وہ تھی ان کی قدرتی مسکراہٹ۔
مینگروو کے جنگلات کے تحفظ کے لیے پی ایف ایف کی مہم کے دوران لینڈ مافیا نے ہمارے دو ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ طاہرہ نے جب بھی اس مسئلے پر بات کی، انہوں نے ہمیشہ کھلے عام قاتلوں کے نام لیے۔
مجھے یہ بہت ہی خطرناک لگتا تھا۔ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے درخواست کی: ‘جیجی، آپ اتنا کھلے عام نہیں بولا کریں، یہ آپ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔’
جواب میں انہوں نے کہا ‘میں کبھی بھی پس کر مرنا نہیں چاہتی۔ میں سچ بولتے ہوئے اور اس جدوجہد کی راہ میں مرنا پسند کروں گی۔’
مجھے یاد ہے کہ میں نے ان سے کئی دفعہ آرام کرنے کو یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانے کو کہا تھا۔ ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ: ‘میں اپنی برادری کے حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے مرنا چاہتی ہوں، نہ کہ بستر پر۔’
اپنی وفات سے ایک دن پہلے بھی ہمارے سینیئر ساتھی ڈاکٹر علی ارسلان نے نوٹ کیا کہ ان کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا، اور انہوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ مسلسل سفر نہ کریں۔
ان کا جواب ایک بار پھر وہی تھا۔
اور یہی ہوا۔
وہ ایک ہی لمحے میں اس دنیا سے چلی گئیں، اور اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی وہ اپنی جدوجہد کی راہ میں تھیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بدین جا رہی تھیں جہاں انہیں دریاؤں کے عالمی دن پر ایک ریلی کی قیادت کرنی تھی۔ ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور گاڑی ایک گہرے تالاب میں گر گئی۔ یہ حادثہ طاہرہ شاہ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
دریائے سندھ کی بحالی اور تحفظ کے لیے ان کی خدمات اور قربانی کو دیکھتے ہوئے سول سوسائٹی نے انہیں ‘شہیدِ سندھو دریا’ کا لقب دیا ہے۔
وہ ہمارے ساتھ جسمانی طور پر اب نہیں ہیں، لیکن ان کا وژن، ان کی ہمت، ان کا عزم ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے زندگی ویسے ہی گزاری جیسا وہ چاہتی تھیں، اور ان کی موت بھی جدوجہد کے دوران ہوئی، جیسا وہ چاہتی تھیں۔
جیجی طاہرہ زندہ باد۔ پی ایف ایف زندہ باد۔