کفری ریاست پاکستان میں خودکش حملے حرام کیوں؟ سوات اور وزیرستان میں پاکستانی فوج کے مظالم – دیوبندی ملحد منیب احمد ساحل
نوٹ: سپاہ صحابہ کے طرفدار دیوبندی ملحدوں کے امیر علامہ ایاز نظامی کے دست راست منیب احمد ساحل دیوبندی وہابی نے طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری خوارج کے خلاف پاکستان فوج کے آپریشن کی مذمت میں یہ تحریر قلمبند کی اور اس کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کی بھی مذمت کی – یاد رہے کہ منیب ساحل دیوبندی کبھی اپنے آپ کو اہلحدیث کہتا ہے اور کبھی اپنے اوپر ملحد کا ملمع چڑھا لیتا ہے – حکیم الله محسود اور حق نواز جھنگوی اس کے ہیرو ہیں اور طالبان، سپاہ صحابہ اور حزب التحریر کے نظریات کا پرچار کرتا ہے -منیب ساحل نے ملالہ یوسفزئی پر طالبان کے حملے کا مذاق اڑایا اور اس حملے کا ذمہ دار شیعہ مسلمانوں کو قرار دیا تاکہ بقول اس کے ناموس رسالت کی مہم سے توجہ ہٹائی جا سکے – یہی شخص لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور طالبان کے طرفدار جریدوں روزنامہ اسلام اور ضرب مومن میں کالم بھی لکھتا ہے – اس کا والد مولانا سلیم اختر انصاری نہایت متعصب وہابی اہلحدیث مولوی تھا اور اس کا اپنا استاد علامہ ایاز نظامی سپاہ صحابہ کا طرفدارجعلی ملحد ہے اور دیوبندی مدرسے سے فارغ التحصیل – ملاحظہ کریں اس کے خیالات اور دیوبندی وہابی ملحدوں کی خباثت اور بد دیانتی کی داد دیں
************
کفری ریاست پاکستان میں خودکش حملے حرام کیوں؟
دیوبندی ملحد منیب احمد ساحل
جون ٢٠٠٧
حکومت تو ہر خود کش بم دھماکے کے بعد مذمتی بیان دے کر بری الذمہ ہو جاتی تھی مگر کچھ دن قبل وزیر داخلہ رحمان ملک نے علمائے کرام سے دہشتگردی اور خود کش حملوں کیخلاف فتوی مانگا تھا جو کہ علمائے کرام جن میں مولانا مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، مولانا مفتی سرفراز خان صفدر، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی منیب الرحمان، مفتی فضل کریم، مفتی خالد محمود، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا نعیم الرحمان، حافظ ریاض حسین نجفی، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر طاہر القادری، و جماعت اسلامی سمیت تمام علمائے کرام کا متفقہ فتوی ہے کہ ”اسلامی ملک” پاکستان میں خود کش حملے اور دہشتگردی کی کاروائیاں حرام میں ان میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی، جب شروع میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو امریکا نے کچھ خیال نہیں کیا کہ تباہ حال ملک کو چلانا مشکل ہی نہیں نا ممکن کام ہے لیکن جوں جوں طالبان حکومت مستحکم ہوتی گئی تو امریکا کو تشویش لاحق ہوئی کیونکہ طالبان پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان کی مدد سے ہی انہیں بنایا تھا ،35لاکھ گوریلا جنگ کی ماہر فوج(طالبان)اور 12لاکھ جدید ترین ہتھیاروں اور اعلی عسکری تربیت سے لیس پاک فوج کی تعداد کل ملا کر 47 لاکھ ہو رہی تھی جو کہ امریکی بالا دستی کیلئے کھلا خطرہ تھا ،امریکا نے اس خطرے کو ختم کرنے کیلئے پہلے پاکستان کی حکومت کو پر مشرف کو نازل کیا اور اس کے بعد نائن الیون کا ڈرامہ کھیلا اوردہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ،جب افغانستان میں طالبان کا مقابلہ امریکی فوج سے ہوا تو انہوں نے پلٹ کر پاکستان کی طرف دیکھا لیکن پاکستان نے یو ٹرن لیا اور جو طالبان پاکستان کی جانب آئے انہیں مارنا شروع کیا تو طالبان ادھر ادھر ہو گئے۔یہ پاکستان کی سامراجی حکومت کا کام تھا جس کے باعث پاکستان کے شہروں میں موت بے دھڑک طریقے سے پھر رہی ہے اور خود کش بمبار اپنی جانیں قربان کر کے پاکستان کی سامراجی حکومت کیخلاف جدوجہد کر رہے ہیں،پاکستان میں موجود ابلیسی جمہوری نظام ہی دراصل سارے مسائل کی جڑ ہے۔
جمہوریت میں 9 باکردار و عقلمند افراد کی رائے پر 10بے وقوفوں کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ 10بے وقوفوں کو عددی برتی حاصل ہوتی ہے۔جبکہ اسلام میں افراد کو گنا نہیں جاتا بلکہ ان کا کردار تولا جاتا ہے جو جتنا متقی ہو گا اس کی رائے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہو گی۔مگر ان درباری اقتداری علمائے سو کو جمہوریت جیسے کفری نظام کا غم ستاتا رہتا ہے کیونکہ اگر دنیا میں خلافت قائم ہو گئی تو تمام فیصلے مرکز کرے گا ان نام نہاد علمائے سو کی کوئی نہیں سنے گا اور ان کی آمدن بند ہو جائے گی اس لئے یہ ہامان کے پیروکار دجالی جمہوریت کی دل و جان سے حفاظت کرتے ہیں اور اس کیخلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیتے ہیں ،آج میںمولانا مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، مولانا مفتی سرفراز خان صفدر، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی منیب الرحمان، مفتی فضل کریم، مفتی خالد محمود، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا نعیم الرحمان، حافظ ریاض حسین نجفی، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر طاہر القادری، و جماعت اسلامی سمیت تمام علمائے کرام سے سوال کرتا ہوں کیا جمہوریت اسلامی ہے؟میں ان تمام علمائے سو کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہ عوام کے سامنے قران و حدیث کی روشنی میںیہ ثابت کر دیں کہ جمہوری نظام اسلامی ہے تو میں آئندہ دجالی جمہوریت کیخلاف جدوجہد ترک کر دونگا وگرنہ یہ درباری اقتداری مولوی چند ٹکوں کی خاطر اسلام کا نام بدنام کرنا بند کردیںعوام کو چاہئے کہ وہ صیح صورتحال جاننے کیلئے ازخود علم حاصل کریں اور ان نام نہاد مولویوں کے چنگل سے نکلیں جو کہ عوام کا خون چوس رہے ہیں ، ان نام نہاد علماء سو کو اپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے صحابہ اکرام کی طرح جدوجہد کریں یاد رکھیں کہ ،حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ،حضرت عثمان غنی ،حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام مولانا ،مفتی،شیخ الحدیث، شیخ السلام، یا امام نہیں تھے وہ معاشرے کو سدھارنے کیلئے جدوجہد کرتے تھے ۔عوام بھی اس درس نظامی یافتہ مدرسائی برانڈ فقہ پرست اجرتی مسلکی مذہبی پیشوائیت کی باتوں پر کان نہ دھرے اور حقائق کو پرکھے
————
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِےْمِ
(وَعَدَ اﷲُ الَّذِےْنَ اٰمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَےَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِےْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ص وَ لَےُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِےْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَےُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنَاط ےَعْبُدْوْنَنِیْ لَا ےُشْرِکُونَ بِیْ شَےْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَُولئِکَ ھُم ُالْفٰسِقُوْنَ)
حزب التحریر نے مسودہِ خلافت جاری کردیا
پاکستان کا بوسیدہ اور گرتا ہوا نظام، جو پاکستان کی معاشی تباہی اور خارجہ تعلقات میں مسلسل شرمندگی کا باعث ہے، پاکستان کی موجودہ بحرانی صورتحال کا ذمہ دار ہے۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان نے،پاکستان کو اس بحرانی صورتحال سے نکانے اور حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ایک مسودہ پیش کیا ہے جس کو” مسودہِ خلافت ”کا نام دیا گیا ہے ۔ مسودہِ خلافت کے نکات درج ذیل ہیں:
مسودہ خلافت
قرارداد نمبر1۔جمہوریت کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ یہ کرپٹ لوگوں کو حکمرانی کا موقع فراہم کرتی ہے
—————
سوات کے بعد وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی میں پاکستانی فوج کی ستمگری
منیب احمد ساحل – سابقہ اہلحدیث، حالیہ ملحد
٢٣ دسمبر ٢٠٠٩
ابھی تک سوات آپریشن ،اسکی وجہ سے ہونے والی سماجی بربادی اور اس سے جنم لینے والے انسانی المیوں کی تلخ اور جان لیوا یادوں کی فلم دماغ کے پردہسکرین سے اِ دھر ادھر نہیں ہوئی تھی اور وہاں سے ہجرت کرنے والے لاکھوں معصوم لوگوں،بچوں اور عورتوں کی تاریخی ذلت اور مشکلات کی داستانیں بھی ہر خاص وعام کی زبانوں کی زینت بنی ہوئی تھیں کہ ایک اور انسانی بربادی کے المناک حادثات کے طویل سلسلے نے دل و دماغ پر لرزہ طاری کر دیا ۔وزیرستان میں ستمگری کی تمام روایات کو ایک بلند پیمانے پر دوہرایا گیا۔اب وزیرستان سے اس لڑائی کا رخ اورکزئی ایجنسی کی طرف موڑ اجا رہا ہے ۔پھر اس کے بعد یقینا یہ جنگ کسی اور خطے میں کسی اور شکل میں جلوہ افروز ہو گی کیونکہ ارتقا کے اس مرحلے پر یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار بھی ہے اور ضرورت بھی۔بہت سی اور ننھی جانیں ضائع ہوں گی اور بہت سوں کو بے گھری کی اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بوڑھی عورتیں چھوٹی عمر کے بچوں کو عام طور پر قصے کہانیاں سنا کر بہلاتی ہیں۔سب لوگوں کو اپنے بچپن اور لڑکپن میں اس قسم کی کہانیاں سننے کا موقع ملا ہو گا۔ان کہانیوں میں سب سے زیادہ دلچسپ اور مرعوب کہانیاں وہ ہوتی ہیں جن میں ایک مخصوص آسیب زدہ خطہ ارضی کا ذکر کیا جاتا ہے جس پر چند خطرناک اور انتہائی طاقتور بھوت اور دیو قابض ہو چکے ہوتے ہیں اور جو انسان بھی ان کی سلطنت میں مخل ہونے کی کوشش کرتا ہے وہ جان سے جاتا ہے اور جو بھی اس خطہ ارضی میں ایک بار چلا جاتا ہے وہ پھر واپس نہیں آتا۔پاکستان میں آج کل وہ کہانیاں حقیقی روپ دھارتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک کے بعد دوسرا علاقہ انسانوں کے لیے غیر محفوظ ہوتا چلا جا رہا ہے۔پاک فوج کے تربیت یافتہ بھوتوں اور امریکی جنونیوں نے مل کر سوات اور وزیرستان کی خوبصورت اور پر امن جنت نظیر وادیوں کو بھڑکتے ہوئے دوزخ میں تبدیل کر دیا ہے۔شدت پسندوں کی قیادت بھی بہت سی دیو مالائی خصوصیات کی حامل دکھائی دیتی ہے کیونکہ اتنی شدید بمباری اور لڑائی کے باوجود وہ یا ان میں سے زیادہ تر اور موثر ترین ہمیشہ محفوظ مقامات پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔لیکن عام لوگوں پر ان کے چلے جانے کے بعد بھوتوں اور جنوں کی فوج حملہ آور ہو کربہت سوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور جو بچ جاتے ہیں انہیں بھی ہجرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وزیرستان آپریشن کی بربریت،ہولناکی اور سفاکی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس مرتبہ میڈیا کو بھی میدانِ جنگ تک رسائی کے کھلے مواقع فراہم نہیں کیے گئے تھے تاکہ اتنی بلند سطح کی بربادی لوگوں پر آشکار نہ ہونے پائے اور پاک آرمی کے سیاسی کردار کا دوغلا پن بھی منظرِ عام پر نہ آسکے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دولاکھ پچہترہزار لوگ جنوبی وزیرستان سے بے گھر ہوئے ہیں جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ فوج کے ترجمان کے مطابق اس آپریشن کے دوران اب تک پانچ سو انانویں دہشت گرد مارے گئے ہیںجبکہ پنتالیس کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فوج کے اناسی افراد مارے گئے جبکہ دو سو چالیس زخمی ہوئے۔ ان اعداد و شمار کی صداقت بھی مشکوک ہے جبکہ حقیقت میں دونوں اطراف میں تقریباایک جتنا جانی نقصان ہوا۔ ابلاغ کے دوسرے ذرائع کے مطابق یہ اعداد و شمار مختلف ہیں۔ ریاست کی طرف سے اتنی شدید فلٹریشن کے اقدامات واضح کرتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔گمان غالب یہی ہے کہ ایک مرتبہ پھر انتہا پسندی کو ختم کرنے کے برعکس ان کی قیادت کو محفوظ راستہ دے کر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے۔ دراصل بدعنوانی اور دہشت گردی جو ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں،اس ریاست اور نظام کی ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں اور انہی بڑھتے ہوئے تضادات کی وجہ سے اس ریاست کے سامراج کے ساتھ مراسم دوستانہ سے رقیبانہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں