ڈاکٹر ابجیت رآئے : آزاد دانشور زندگی سے آزاد کردیا گیا – عامر حسینی
کل دن دیہاڑے ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے پاس ڈاکٹر ابجیت رائے اور ان کی بیوی رافدہ احمد پر چھریوں اور آہنی سلاخوں سے لیس لوگوں نے حملہ کیا اور اس حملے میں ڈاکٹر ابجیت رائے مارے گئے جبکہ ان کی بیوی ڈاکٹر رافدہ احمد ان کو بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگئیں ابجیت رائے جنھوں نے ایک بنگلہ زبان میں بلاگ شروع کیا جس کا نام تھا ” مکتو مونو ” اور اس کا اردو میں ترجمہ بنتا ہے ” آزاد خیال دانشور ” یہ بلاگ دیکھتے ہی دیکھتے بنگلہ بولنے والے آزاد خیال دانشوروں اور آزادی اظہار کو بنیادی حق خیال کرنے والوں میں مقبولیت کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا اور ڈاکٹر ابجیت رائے کو بے مثال مقبولیت ملنے لگی میں نے ابجیت رائے کو ان کی کتاب “اوبس شاشر دروشن ” یعنی ایک “ملحد کا فلسفہ ” سے دریافت کیا جو ان کی آخری دو کتابوں میں سے ایک کتاب تھی اور پھر ان کی آخری کتاب “بسواشر وائرس ” یعنی عقیدے کا وائرس ” بھی پڑھی اور اس کے اندر چھپی بغاوت کی آگ کی تپش سے خود بھی پسینے ،پسینے ہوگیا ڈاکٹر ابجیت رآئے ایک قوم پرست سیکولر اور ناتک بنگالی استاد کا بیٹا تھا اور اس کے باپ نے بنگلہ دیش کی آزادی ، بنگالی قوم کے محنت کشوں کی نجات اور بنگالی عورتوں کے حقوق کے لیے ساری عمر جدوجہد کی ہے
اور اسے سچا بنگالی قوم پرست مانا جاتا ہے اپنے باپ سے ملے سیکولر ازم ، روشن خیالی اور انسان دوستی کے خیالات کو خود ابجیت رائے نے بھی نکھارا اور اس نے بنگلہ دیش میں پھیلی توہم پرستی ، ملّا و پنڈت و پادری کی تاریک الخیالی اور مذھبی جنونیت اور انتہا پسندی کے خلاف علم بغاوت بلند کرڈالا بنگلہ دیش میں روشن خیال ، سیکولر نوجوانوں کی نئی نسل جو تیار ہوئی ہے اس کے اس انٹرنیٹ کا ہتھیار موجود ہے اور وہ اس ہتھیار سے مذھبی جنونیت ڈری ہوئی ، سہمی ہوئی بنگلہ پریس اور حکومت کی سنسرشپ کو پاش پاش کئے ہوئے ہے اور وہ جماعت اسلامی سمیت کسی بھی مذھبی جنونیت کے علمبردار فسطائی گروہ کے مقابلے ميں ڈٹ چکی ہے ابجیت رائے نے بھی ایک طرف تو “ہندوتوا ” کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو دوسری طرف اس نے مجموعی طور پر “مذھبی جنونیت ” اور اس جنونیت کے پس پردے کارفرما ” اندھے عقیدے کی وائرل بیماری ” کے خلاف بھرپور جدوجہد شروع کی ابجیت رائے نے ” مکتو مونو ” کے نام سے بنگالی آزاد دانشوروں ، ملحدوں اور متشککین کی انٹرنیٹ کیمونٹی سائٹ کا اجراء کیا اور اس نے بنگالی سماج کے اندر ایک ہلچل مچادی مکتو مونو ایک طرح سے بنگالی سماج کی نئی ترقی پسند تحریک ہے جس کے بانیوں نے ” انگارے ” کی طرح کی چیزبنگالی سماج میں متعارف کروائی جس سے بنگالی سماج میں “چھوٹی چيزوں کے خدا ” چیخ اٹھے اور ایک ہنگامہ ہآئے ہو برپا ہوگیا
اسی تحریک کے زیر اثر بنگلہ دیش کے نوجوان دانشوروں کی جانب سے ” روشن خیالی ” کو پروان چڑھانے والے بلاگ کے سامنے آنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ سامنے آیا اور بنگلہ دیش میں سیکولر ازم ، سوشل جسٹس ، فیمنسٹ تحریک مضبوط ہوگئی اور رجعت پسندی ، بنیاد پرستی ، مذھبی جنونیت اور تکفیریت کو خاص طور پر سخت فکری چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی جانب سے اس کا فکری سطح پر جواب دینے یا مکالمے کی طرف آنے کے تشدد ، دھشت گردی سے جواب دیا جانے لگا اور اس رجعت پرست طبقے کا دباؤ تھا کہ بنگلہ دیشن ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے کئی ایک بلاگز پر پابندی عائد کردی اور کئی ایک بلاگرز کے خلاف مقدمات درج ہوئے اوران کو جیل ہوگئی بنگلہ دیش میں آزادی اظہار کے اوپر اس نئی سنسر شپ اور مذھبی جنونیوں کی غنڈا گردی اور ہمایوں نام کے ایک بلاگر کے بہیمانہ قتل کے خلاف ڈھاکہ کے راج شاہی باغ سے ایک تحریک کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اس تحریک کا حصّہ بن گئے ڈاکٹر ابجیت رائے اور ان کی بیوی ڈاکٹر رافیدہ احمد نے بھی اس تحریک میں بڑھ جڑھ کر حصّہ لیا اور ان کی تحریروں نے مذھبی جنونیت کو ٹف ٹائم دیا ڈاکٹر ابجیت رائے کے لیے بھی بنگلہ دیش میں رہنا ناممکن ہوگیا تھا ، اسی لیے وہ امریکہ شفٹ ہوگئے
اور اس مرتبہ وہ ڈھاکہ کے اندر “مکتو دھارا ” اشاعت گھر کی جانب سے کرائے جانے والے کتاب میلے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے جوکہ 1972ءسے اس وقت شروع ہوا تھا جب 21 فروری کا دن تھا اور بنگلہ زبان کے لیے اپنی جانوں کا ںذرانہ دینے والوں کا دن ” یوم شہداء ” کے طور پر منایا جارہا تھا اور یہ ہر سال اب 21 فروری کو ہی منایا جاتا ہے ، یہ اب آفیشل کتاب میلہ بن چکا ہے اور سب سے مقبول کتاب میلہ ہے اور یہ ایکوشے کتاب میلہ کہلاتا ہے آثار یہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر ابجیت رائے کے قتل کی اصل وجہ ان کے ” ملا عبدالقادر ” کی اصلیت بے نقاب کرنے والے آرٹیکلز بنے ہیں ، ان کے دو آرٹیکلز ایسے تھے جنھوں نے ملاّ عبدالقادر کی شخصیت سے سارے نقاب نوچ کر پھینک دئے اور بتایا کہ یہ شخ کس قدر گھناؤنے جرائم کا مرتکب ہوا جس نے بعد میں خود کو ایک ” ملّا ” کے روپ میں ایک معزز ایڈیٹر اور ميڈیا مالک کے طور پر پیش کیا Real or Fake Quader Mullag :An avidential investigation مذکورہ بالا مضمون نے جماعت اسلامی کے پریس کی جانب سے کئے جانے والے اس جھوٹے پروپیگںڈے کا پول کھولا جو ملاّ قادر کے حوالے سے مسلسل کیا جارہا تھا
بلکہ میں حیران تھا کہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے کسی بڑے طرم خان نے اس حوالے سے پاکستانی جماعت اسلامی کے جھوٹے پروپیگنڈے پر ڈاکٹر ابجیت رائے کے اس مضمون سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ کئی ایک کو تو میں نے اس ٹرائل کے بارےمیں وہی دلائل دیتے دیکھا جو حافظ ادریس ، عبدالفغار اور دیگر جماعت اسلامی کے ہمدرد اخبارات و جرائد میں دے رہے تھے ڈاکٹر ابجیت رائے اس لحاظ سے بہرحال خوش قسمت ہیں کہ ان کے قتل پر بنگالی پریس اور بنگلہ دیش کا انگریزی پریس مصلحت کا شکار نہیں ہے اور وہاں کے روشن خیال اور سیکولر پریس نے کھل کر ڈاکٹر ابجیت رائے کو ایک ھیرو اور آزادی افکار کے ھیرو کے طور پر پیش کیا ہے اور ڈیلی سٹار سمیت بنگلہ کا روشن خیال پریس ” مذھبی جنونیوں ” کے خلاف احتجاج اور مذمت سے بھرا ہوا ہے
مکتو مونو ویب سائٹ کا بیک گڑاؤنڈ مکمل سیاہ ہے اور اس پر بہت جلی حروف میں بنگالی میں یہ لکھا ہوا ہے আমরা শোকাহত কিন্তু আমরা অপরাজিত We mourn But we are not out واقعی ماتم داری تو ہے مگر اس کا مطلب فرار نہیں ہے ، ڈاکٹر ابجیت رآئے کے قتل نے ثابت کیا ہے کہ روشن خیالی کے حریفوں کے پاس اپنی سوچ اگر اسے سوچ کہا جاسکے تو کے لیے کوئی دلائل نہیں ہیں اور ان کے پاس استدلال کا مایہ نہیں ہے تبھی تو وہ خنجروں ، چھریوں ، گولیوں اور خود کش بموں سے حملہ آور ہوتے ہیں اور اس گمان باطل میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ سچ کو فنا کرڈالیں گے اور فکر پر خوف کا پہرہ بیٹھاکر اسے پرواز کرنے سے روک لیں گے میں ابجیت رائے کی بیوہ ڈاکٹر رافدہ احمد کو سلام پیش کرتا ہوں ، جس نے پیشہ ور قاتلوں کے سامنے ڈٹ کر ان کے سب حامیوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے ،
آج ان کی خون کے چھینٹوں سے سرخ قمیص اور جینز پر جابجا پڑجانے والے خون مظلوم کے دھبوں کے ساتھ ایک تصویر چھپی ہے جس میں کچھ قدم پرے ڈاکٹر ابجیت رآئے ” شہید آزادی فکر ” کی لاش پڑی ہے اور ڈاکٹر رافدہ کسی کو پاس آنے سے شاید روک رہی ہے ، یہ تصویر ہی مذھبی جنونیوں کی شکست ہے اور ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے مذھبی جنون ایک وائرل بیماری ہے ، یہ وائرس ہے اور جس سماج میں یہ انجیکٹ ہوجائے تو اس سماج کی تباہی یقینی ہوتی ہے ، ڈاکٹر ابجیت رائے جیسے لوگ اس وائرس کو کمزور کرنے اور اس کو بے اثر بنانے کے لیے روشن خیالی کی ویکسئن کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور ایک ڈاکٹر ابجیت گیا ہے لیکن اس کے پيچھے کئی اور ابجیت رائے موجود ہیں ، بنگلہ دیشی سماج اس وائر اٹیک سے ضرور ایک دن نجات پائے گا ڈاکٹر ابجیت نے اپنی موت سے چند دن پہلے لکھا کہ
“I do not have much faith in any religion, but many people around and close to me are Muslims. I have no abhorrence or repugnance for them. I rejoice with them in their moments of happiness. I feel pain when oppressions befall them. I never hesitate to stand beside the Muslims in Palestine or Kashmir when they become victims of torture and oppression. I did that in the past, I will do that in future. This is the manifestation of my humanism.”
ڈاکٹر ابجیت رائے ، ان کی بیوی اور بیٹی کی ایک یاد گار تصویر
جی ہاں ابجیت رائے فلسطینیوں ، کشمیریوں پر ہونے والے جبر اور ان پر ہونے والے ٹارچر پر اسی طرح سے درد محسوس کرتا تھا جیسے دوسرے مسلمان محسوس کرتے ہیں اور وہ یہ درد انسانیت کے رشتہ کے ناطے سے محسوس کرتا تھا اور یہ انسانیت پر اس کا یقین تھا جو کبھی متزلزل نہیں ہوا تھا ہم ایک دردمند ، انسانیت پسند ، مظلوموں کے حامی اور جبر کے مخالف سچے دانشور اور سرگرم کارکن سے محروم ہوگئے ہیں
Source:
http://lail-o-nihar.blogspot.fi/2015/02/blog-post_27.html