پاکستانی دیوبندی ملحدین کے پاراچنار میں سنی نسل کشی کے پراپیگنڈہ کا جواب – ذوالفقار احمد ساحل
پاکستانی معاشرے کے ہر شعبے کی طرح الحاد اور سیکولرزم میں بھی دیوبندیت نے اپنی جڑیں پیوست کر لی ہیں
مثال کے طور پر سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور ٹویٹر پر الحاد کے لبادے ميں چھپے ہوئے ديوبندی علامہ اياز نظامی سپاہ صحابہ کی دہشتگردانہ کاروائيوں کا دفاع کرتےہوئے کہتے ہيں کہ دہشتگردی سے سب سے زيادہ متاثر ديوبندی ہوئے ہيں اور کوئی لبرل ديوبندی دہشتگردوں کو ديوبندی دہشتگرد نہ کہے – ایاز نظامی دیوبندی مزید فرماتے ہیں کہ دہشت گردی کو صرف دیوبندیت سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ اس سے ایک طرف سلفی مسلک والوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے تو دوسری طرف شیعہ طالبان کو بھی۔
اگرچہ يہ ايک حقيقت ہے کہ پاکستان ميں ہونے والی ساری دہشتگردی کے پيچھے ديوبندی دہشتگرد ملوث ہيں پاکستان کی تقريبا تمام دہشتگرد تنظيموں کا تعلق ديوبندی مسلک سے پھر بھی نجانے کيوں ديوبندی ملحد اياز نظامی بضد ہيں کہ دہشتگردی کو ديوبنديت سے نہ جوڑا جائے
ديوبندی ملحد علامہ اياز نظامی اور انکے ہمنوا ديوبندی کہتے ہيں کہ کاش کبھی یہ پڑھیں کہ سپاہ صحابہ کیوں بنی تھی،اس کا تاریخی پس منظر کیا تھا،شیعہ آج وہی کاٹ رہے ہیں جو کل بویا تھا انہوں نے،اسی کی دہائی سے پہلے تک شیعہ گردی پاکستان میں عروج پر تھی،کسی بھی بوڑھے سے ہی معلوم کرلیں،نہیں تو جنگ اخبار کے دفتر جاکر پرانے ریکارڈ کے اخبارات چیک کرلیں – ديوبندی ملحدين کا مزيد کہنا ہے کہ سپاہ صحابہ کوئٹہ ميں سنی کلنگ کے بعد بنی تھی حالانکہ يہ ايک حقیقت ہے کہ کوئٹہ ميں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی ہمیشہ شيعہ کی نسل کشی میں ملوث رہی ہے
اسکے علاوہ ديوبندی ملحدين کی جانب سے الزام عائد کيا گيأ تحريک نفاز فقہ جعفريہ کے بارے ميں کہ اسکا مقصد پاکستان کو کسی شيعہ سٹيٹ بنانے کا تھا
عموما يہ پروپيگنڈا ديوبندی دہشتگرد تنظيم سپاہ صحابہ کی جانب سے کيا جاتا ہے اور اس بات کا حقيقت سے کوئی تعلق نہيں ہے
اہل سنت اور اہل تشيع ميں بہت سے فقہی اختلافات ہيں جيسے زکوات،طلاق ،جيسے مسائل ہيں اور اس تحريک کا مقصد اہل تشيع کے لئے فقہ جعفری کے مطابق فيصلے کروانا تھا نہ کہ اہلسنت پر فقہ جعفریہ کا نفاز کرنا تھا اور اہل تشيع اپنے اس مطالبے پر حق منجانب بھی تھے اگر ديوبندی ملحدين شيعان حيدرکرار کے خلاف اپنے تعصب کی عينک اتار کر ديکھيں تو
ديوبندی ملحد علامہ اياز نظامی کا کہنا ہے کہ سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں کی موت پر بھی احتجاج ہونا چاہيے اسی بات سے ديوبندی ملحد اياز نظامی کی اصليت آشکار ہوجاتی ہے
ديوبندی ملحدين نے یہ بھی دعوی کیا کہ شيعہ بھی دہشتگردی ميں ملوث ہيں اور وہ پاراچنار ميں اہلسنت کا قتل کرتے ہيں حالانکہ حقيقت اس کے خلاف ہے
پاراچنار کے بارے ميں چند حقائق
پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے خوبصورت ترین علاقے کرم ایجنسی اور اس کے صدر مقام پارہ چنار میں اصل مسئلہ جنرل ضیاءالحق دیوبندی کے دور میں شروع ہوا۔ جب سنہ اسی کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور ضیا حکومت کے گٹھ جوڑ سے ديوبندی، وہابی شدت پسندوں کو مجاہدین کے عنوان سے اس علاقے میں لایا گیا۔ امریکی سی آئی اے اور ضیاءکے گٹھ جوڑ پر مبنی منصوبے کے تحت افغانستان سے روس کی شکست کے لئے کرم ایجنسی کو مرکز یا بیس کیمپ کے طور پر استعمال کيا گيا
کرم ایجنسی کے علاقہ صدہ جو کہ اہل تشیع طوری و بنگش قبائل کی ملکیت تھا اور اب تک کاغذات مال میں صدہ کی اکثر مارکیٹیں اور زمینیں اہل تشیع کی ملکیت ہیں، وہاں پر
امریکی سی آئی اے کے جہادیوں عبدالرسول سیاف اور اسامہ بن لادن کو بسا کر صدہ میں شیعہ سنی فساد کے نام پر خوارج نما جہادیوں اور اس زمانے میں جنوبی افغانستان سے آنے والے وہابی عقیدہ کے افغان مہاجرین کی مدد سے اہل تشیع کا قتل عام کرکے مسجد و امام بارگاہ کو ڈائنامائیٹ سے شہید کر کے باقی ماندہ اہل تشیع کو صدہ سے جبری بے دخل کردیا جو گزشتہ تیس سالوں سے پارہ چنار میں متاثرین و مہاجرین کی صورت میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن آج تک کسی حکومتی اہلکار یا اداروں نے ان کو پوچھا تک نہیں ۔
علاوہ ازیں ستم بالائے ستم یہ کہ اسی دور میں ایک بہت بڑے رقبے و آبادی کا حامل نیم قبائلی علاقہ علاقہ غیر”ایف آر اورکزئی“ علاقے کو کرم ایجنسی میں اس لئے شامل کیا گیا تاکہ کرم ایجنسی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے فاٹا کے اکثریتی شیعہ آبادی والے علاقے کرم ایجنسی کو اقلیت ثابت کیا جاسکے
اسی کی دہائی میں بالخصوص سنہ چوراسی اور سنہ ستاسی میں جنرل ضیاء نے صدہ کی طرح پارہ چنار کو بھی طوری بنگش اہل تشیع قبائل سے خالی کرکے خوارج نما ديوبندی جہادیوں کے حوالے کرنے کے لئے کئی بارديوبندی جہاديوں کی مدد سے لشکر کشیاں کیں لیکن یہاں کے غیور و بہادر عوام نے سینکڑوں جانوں کے نذرانے دے کر ضیاءحکومت کے ان ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا۔ حتیٰ کہ سنہ ستاسی کی جنگ میں جنرل ضیاء نے پارہ چنار کے ممکنہ بے دخل لوگوں کے لئے میانوالی و بھکر میں مہاجر کیمپ تک بنوائے تھے لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے کی مصداق پارہ چنار کے اہل تشیع تو مہاجر نہیں بنے لیکن ضیاءاپنے جرنیلوں اور امریکی ساتھیوں سمیت َسنہ اٹھاسی میں کو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
بعد میں ضیاءکی باقیات اسلم بیگ اور حمید گل نے پارہ چنار دشمنی جاری رکھی اور ستمبرچھیانوے میں پارہ چنار میں فرقہ وارانہ جنگ روکنے کے بہانے سینکڑوں گاڑیوں میں سیکیورٹی فورسز کو اسلحہ سمیت پارہ چنار کے راستے افغانستان بھیج کر ایک ہفتے بعد پورے افغانستان بشمول کابل پر طالبان حکومت قائم کرنے کا اعلان کرکے ایک بار پھر پارہ چنار کو اپنے مفادات کا ایندھن بنایا ۔ نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ایک بار پھر پارہ چنار کو اپنے مقاصد اور یہاں کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن اسی ضیاءدور کی طرح ایک تیر سے دو شکار کہ ایک طرف تو اپنے مفادات حاصل ہو جائیں اور دوسری طرف پارہ چنار سے صدہ کی طرح اہل تشیع کا صفایا کرکے یہ علاقہ خوارج نماْ ديوبندی دہشت گرد کالعدم تنظیموں کے حوالے کرکے افغانستان میں طالبان کے نظام کی طرح فاٹا میں اور پھر پورے ملک میں نام نہاد”امارات اسلامی“ یعنی امریکی اسلام قائم کیا جائے۔
اپریل ٢٠٠٧ میں ملک بھر بالخصوص فاٹا جنوبی پنجاب سے کالعدم ديوبندی تنظیموں سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی کے ذریعے پارہ چنار پر یلغار کروادی گئی۔ لشکر کشی کرکے حملے ہوئے لیکن جب پارہ چنار کے غیور و بہادر عوام نے مزاحمت و دفاع کرکے میدان جنگ میں خوارج نما ديوبندی طالبان کو شکست دی تو پھر غزہ پر مسلط محاصرے کی طرح ديوبندی دہشتگرد سپاہ صحابہ نے پارہ چنار روڈ کی ناکہ بندی کرکے اقتصادی ناکہ بندی جیسے غیر انسانی وغیر اخلاقی ہتھکنڈے شروع کئے۔ بچوں و خواتین حتیٰ کہ ایمبولینس تک کو نشانہ بنایا گیا۔ طالبان نواز ایف سی کی موجودگی میں پارہ چنار کے نہتے مسافروں کو بار ہا سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کانواﺅں سے اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے لاشوں کی بے حرمتی کرکے آگ لگا کر رقص ابلیس کرکے شیطانی شاباش حاصل کی گئی، اور جب خوارج نما ديوبندی دہشتگرد تنظيميں یہ سب کچھ کررہے تھے تو اس وقت حفاظت پر مامور ایف سی حکام اور کرنل نہ صرف خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کررہے تھے بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعرہ تکبیر کے جواب بھی دے رہے تھے۔ جس کی ویڈیوز تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
تمام قبائلی علاقوں ، جنوبی پنجاب اور افغانستان کے طالبان لشکروں کے حملے اور لشکر کشیوں کے باوجود خوارج نما ديوبندی طالبان جب پارہ چنار کے بہادر و دفاع کرنے والے شیروں کا میدان جنگ میں مقابلہ نہ کر سکے ، تو پھر بزدل گیدڑوں کی طرح غیر انسانی اقدامات جیسے پارہ چنار سے باہر نہتے مسافروں حتیٰ کہ عورتوں و بچوں تک کو بے دردی سے شہید کرنے جیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے جو نہ صرف اسلام اور دنیا بھر میں رائج جنگی اصولوں بلکہ صدیوں سے رائج قبائلی روایات کے بھی خلاف ہیں