لاہور لٹریری فیسٹیول: کیا یہ واقعی ادبی میلہ تھا؟ – صلاح الدین سردار

laaltain-featured-image-890x395_c

غالب نے کلکتے کی شان میں کہا تھا کہ
وہ سبزہ زار ہائے مطرّا کہ، ہے غضب
وہ نازنین بتانِ خود آراکہ، ہائے ہائے
لاہور کا ادبی میلہ بھی اس کلکتے سے کچھ مختلف نہیں تھا، سجا سنورا الحمرا اور اس میں رنگ و بو کا ایک سیلاب جس کے بیچ کہیں کہیں تھوڑا بہت ادب تبرکاً شامل کرلیا گیا تھا۔ گزشتہ سال اسلام آباد ادبی جلسے کا ایسا ہی حال دیکھ کر احباب نے اسے اسلام آباد کی فطری بے ادبی پر محمول کیا مگر اس بار لاہور ادبی میلے میں شریک ہو کر یہ یقین ہوگیا ہے کہ ان ادبی میلوں کے منتظمین کے ہاں کچھ مسئلہ ضرور ہے۔
جب سےپاکستان میں ایسے ادبی جلسوں کی داغ بیل پڑی ہے تب سے ہی معترضین اسے ایک مخصوص طبقے کا تہوار قرار دیتے آرہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ منتظمین نے اس تاثر کو زائل کرنے اور ان جلسوں میں سبھی طبقات کی نمائندگی ممکن بنانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس سے یہ خیال تقویت پکڑتا ہے کہ یہ چند ایسے ادیبوں یا ادب فروشوں کی کاوش ہے جو ادب کو فقط ذریعہ معاش سمجھتے ہیں۔بیس سے بائیس فروری تک الحمرا آرٹس کونسل میں جاری رہنے والے اس میلے کے باہر سے گزرنے والا ایک عام شخص بھی یہ بتا سکتا تھا کہ دوتہائی سے زائد شرکا ءکا تعلق اشرافیہ سے تھا۔ لمبی کاروں سے اترتے،جدید تراش کے ملبوسات زیب تن کیے ،مہنگی خوشبویات سے معطران مردو زن کے درمیان ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے کوئی ‘مڈل کلاسیا ‘دور ہی سے پہچانا جاتا تھا۔ میلے کے انتظام و انصرام کے لیے رضاکاروں کے طور پر اشرافیہ کے اسکولوں سےہی طالبات اور چند طلبا کو چنا گیا تھا۔ چھ ممالک کے سفارت خانوں نے اس تقریب کو ممکن بنانے کے لیے اشتراک کیا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ چند بینکوں ، عالمی ترقیاتی اداروں اور دو وفاقی وزرا کے خاندانی کاروباری اداروں نے بھی اس میلے کے انعقاد کے لیے مالی معاونت فراہم کی تھی۔
اب پیسوں سے اس قدر منہ بھر دیے جانے کے بعد کسی ادبی میلے میں کوئی مزاحمتی بات کہاں ہوسکتی تھی؟ ادبی میلے میں کتابوں کے فقط نصف درجن ٹھیلے ادب کے منہ پر ایک اور طمانچہ تھے۔ ان میں بھی آدھے ان ناشرین کے تھے جن کی دکانوں میں عام آدمی داخل ہوتے ہوئے اپنے کپڑوں اور جوتوں پر شرمندہ شرمندہ محسوس کرتا ہے۔ لاہور چھاپہ خانوں اور ناشروں کا شہر مانا جاتا ہے لیکن غضب خدا کا کہ ادبی میلے والوں کو کتابیں بیچنے والے نہیں ملے۔ چلیے مان لیا کہ اردو بازار میں چھپنے والا گھٹیا ادب یہاں کے شایان شان نہیں تھا مگر مزنگ کے ترقی پسند ناشران کو مدعو کرنے میں کیا امر مانع تھا ؟ کیا سستی مگر معیاری کتابوں سے ادبی میلے کی چکا چوند متاثر ہونے کا خدشہ تھا؟ میلے میں آنے والوں کے لیے کھانے کا اہتمام بھی اس امر کا غماز تھا کہ منتظمین کا ہدف کس معاشی طبقے کے افراد ہیں۔ شاہراہ ایم ایم عالم کے دو معروف ریستورانوں نےجلسہ گاہ کے احاطے ہی میں اپنی دکان سجا رکھی تھی۔ یہ معمہ ابھی حل طلب ہے کہ ایک بریانی کی دیگ اور سموسے والے کو کس نے وہاں گھسنے کی اجازت دی۔ بھلا ایسے” غیر شائستہ عوامی پکوانوں “کا خواص کی محفل میں کیا کام؟ زمانے کا ہیر پھیر ہے جی کہ ادیب جن طبقات کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے تھے وہ طبقات اب ادب کے سرپرست شمار ہوتے ہیں اور بغاوت کے علم کی دھجی کہیں کھو گئی ہے۔
زمانے کا ہیر پھیر ہے جی کہ ادیب جن طبقات کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے تھے وہ طبقات اب ادب کے سرپرست شمار ہوتے ہیں اور بغاوت کے علم کی دھجی کہیں کھو گئی ہے۔
انگریزیت زدہ طبقے کے اس میلے میں اردو اور علاقائی زبانوں کی نمائندگی کا بھی ‘خاص ‘خیال رکھا گیا تھا۔ پچھہتر نشستوں میں سے پوری پانچ اردو کے لیے ، دو پنجابی کی خاطر اور ایک سرائیکی ادب پر گفتگوکے لیے وقف تھی۔ اب اگر الحمرا کے دالان کم پڑ گئے اور ان نشستوں کو برآمدوں یا چھوٹے کمروں میں منعقد کرنا پڑا تو اس پر ہم منتظمین کو کیوں دوش دیں؟ عبداللہ حسین ستر کی دہائی سے مسلسل اپنے ناول اداس نسلیں کا قصہ سنا رہے ہیں سو منتظمین نے سوچا کہ پچاس ساٹھ کرسیاں لگا کر ایک برآمدے میں نشست کرا لی جائے۔ لیکن لاہور والے اتنے فارغ نکلے کہ اسی عبداللہ حسین کو سننے کے لیے امڈ پڑے اور دروازہ توڑ مجمع اکٹھا ہوگیا۔ جس ایوان میں انتظار حسین گفتگو فرما رہے تھے وہاں بھی یہی عالم تھا۔ میڈم نورجہاں نے ساری عمر پنجابی بولی، اردو اور پنجابی گانے گائے، ان کی یاد میں منعقدہ اجلاس سننے کے لیے آنے والے ننانوے فی صد افراد اردو اور پنجابی بول اور سمجھ سکتے تھے مگر اجلاس کی کاروائی انگریزی میں ہوئی۔ اردو مشاعرے کے لیے منتظمین کو لاہور میں کشور ناہید، امجد اسلام امجد، عباس تابش اور اصغر ندیم سید کے علاوہ کوئی پانچواں شاعر نہیں ملا۔ میلے میں نصف درجن کے قریب کتابوں کی رونمائی ہوئی اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ سبھی انگریزی کتابیں تھیں۔ کیا یہ اردو سے بغض کے واضح ثبوت نہیں؟ کیا اردو کے ایک محقق کو منتظمین میں شامل کرلینے سے اردو کی مکمل نمائندگی ہوجاتی ہے؟ لیکن وہ لوگ جو اردو میں بھی اسے ‘لاہور لٹریری فیسٹیول’ یا ‘ل ل ف’ لکھتے ہوں ان سے یہ توقع ہی کیو ں کی جائے کہ وہ اردو کی نمائندگی کا خیال کریں گے۔
المختصر لاہور کا ادبی میلہ بھی دیگر ادبی میلوں کی طرح انگریزی پڑھنے لکھنے اور انگریزی اوڑھنے پہننے والوں کی خاطر لگایا گیا تھا اوربدقسمتی سے یہ وہی طبقہ ہے جو باقی تمام طبقات کے معاشی استحصال کا ذمہ دار بھی ہے۔میلے میں منعقدہ اجلاسوں کے موضوعات کی کہانی بھی خوب ہے۔ چلیے یہ تو قابل بحث نکتہ ہے کہ ادبی میلے میں سیاسی موضوعات پر کتنی بحث ہونی چاہیے لیکن جن اصحاب نے سیاسی موضوعات طے کیے وہ غالباً نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ ، گارڈین وغیرہ کے علاوہ کوئی اخبار نہیں پڑھتے ہوں گے۔ کیا ہمارے ذہن اپنے مسائل کے ادراک سے عاری ہوگئے ہیں؟ کیا ہمیں خود کو سمجھنے کے لیے مغرب کی نظر سے دیکھنا ضروری ہے؟ کیا ہمارا مسئلہ سیاسی سے زیادہ معاشرتی نہیں ہے ؟یہ بات قابل افسوس ہے کہ سماجی و معاشرتی موضوعات پر بحث کےلیے ایک بھی نشست نہیں رکھی گئی تھی۔
رومیلا تھا پر اور عائشہ جلال کی میلے میں شرکت البتہ ایک خوشگوار بات رہی۔ برصغیر کی ان دوعظیم تاریخ دانوں کی گفتگو ان تین دنوں میں واحد کام کی شے ثابت ہوئی۔میلے کے دوسرے روز مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بھی ایک نشست رکھی گئی تھی۔ اس نشست میں گفتگو کے لیے مصر اور لبنان سے تین مصنفین اور نیویارک ٹائمز کے ایک صحافی شریک تھے۔ لبنانی مصنف ربیع علم الدین کی بیچارگی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی،موصوف کوخطے میں امریکی حکمت عملیوں پر تنقید سے پہلےاپنی صفائی پیش کرنا پڑتی تھی کہ وہ ترقی پسند اور جدیدیت کے حامی ہیں اور ان کا حماس، القاعدہ ، داعش یا اخوان المسلمون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صورتحال ترقی پسندوں کے درمیان پیدا ہوتی نئی خلیج کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک جانب وہ گروہ ہے جو عالمی استعماری نظام کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہتا ہے اور اسے عین حق جانتا ہے جبکہ دوسرا گروہ مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ انکل سام اور ان کے حواریوں پر بھی انگلی اٹھاتا ہے، اس ثانی الذکر طبقے کی ترقی پسندی پہلے گروہ کی نظر میں مشکوک قرارپائی ہے۔ ادبی میلے کے زیادہ تر مقررین کا تعلق اسی پہلے گروہ سے تھا المختصر لاہور کا ادبی میلہ بھی دیگر ادبی میلوں کی طرح انگریزی پڑھنے لکھنے اور انگریزی اوڑھنے پہننے والوں کی خاطر لگایا گیا تھا اوربدقسمتی سے یہ وہی طبقہ ہے جو باقی تمام طبقات کے معاشی استحصال کا ذمہ دار بھی ہے۔
بہار کی آمد کے ساتھ ہی لاہور میں جشن بہاراں، مادھولال کے عرس جیسے کئی میلے منعقد ہوتے ہیں۔ان میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت ثابت کرتی ہے کہ لوگ روز مرہ کے مسائل سے فرار کے لیے ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اگر ادبی جلسوں کا انتظا م بہتر طور پر کیا جائے اور اس میں تمام طبقات کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو ایسی تقریبات معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہیں۔
Source:

Comments

comments