الحاد کا چوغہ اور شیعہ و سنی صوفی کے خلاف تعصب کا کمبل – عامر حسینی
حسن نصراللہ حزب اللہ کے سربراہ نے امداد ھائی اسکول میں میلاد النبی کے حوالے سے منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیریت کا مقابلہ کرنا اسلام کا دفاع ہے اور التیار المستقبل پارٹی سے مذاکرات سنجیدگی سے کررہے ہیں جبکہ تکفیری گروہ ان مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ، تکفیریوں کا مقصد کسی خطے ، اقلیتی گروہ کا تحفظ نہیں ہے اور نہ ہی وہ آزادی کے لئے لڑرہے ہیں بلکہ وہ فساد فی الارض کے لئے لڑرہے ہیں جس سے سب کو خطرہ ہے اور شام میں داعش و جبھہ النصرہ جیسے تکفیری گروہوں کی لڑائی وھابیت و صہونیت کی سازش ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے
حسن نصراللہ کی گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ وہ تکفیری بینر کے ساتھ مڈل ایسٹ میں سلفی ازم اور دیوبندی ازم سے تعلق رکھنے والی دیشت گرد تنظیموں کے عزائم اور ان سے خطے کو لاحق شدید ترین خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس خطرے سے نمٹنے کے پیش نظر انہوں نے لبنان میں اپنی سب سے بڑی حریف جماعت سے مذاکرات کا ڈیل ڈول ڈالا ہے
خود التیار المستقبل جسے فیوچر پارٹی کے طور پر جانا جاتا ہے ایک طرف تو دیکھ چکی ہے کہ تکفیری وھابیت و دیوبندیت اس کے دروازوں پر دستک دے رہی ہی اور لبنانی سرحدیں جو شام سے ملتی ہیں اس راستے سے داعش و جبھہ النصرہ لبننانیوں پر شب خون مارنے کو تیار ہیں جبکہ لبنان کے اندر کئی سلفی مساجد اور مدرسے ان کی مدد کے لئے تیار ہیں ، ایسے میں اگر قومی یک جہتی نہ ہوئی اور لبننان کی دو بڑی قوتوں نے باہمی اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو دولت داعش ولایت لبنانیہ کا اعلان کرنے میں دیر نہیں لگائے گی اور لبنان کی سرزمین پر بسنے والے شیعہ ، سنی ، دیروز ، میرونائٹس کرسچن ، کتھولک کرسچن ، آرمینی سب نشانے پر ہوں گے اور لبننان کے کرونی کیپٹلزم کے حامی سرمایہ دار ، مڈل کلاس کے پاس بھی کچھ نہیں رہے گا ، ان کی جگہ داعش کے سرمایہ دار لے لیں گے ،
تکفیریت ایک سریس ، سنجیدہ خطرہ ہے نظری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی اور یہ خطرہ مڈل ایسٹ سے لیکر شمالی افریقہ اور وہاں سے مشرق بعید اور پھر جنوبی ایشا تک اور پھر وسط ایشیا سے لیکر یورپ تک منڈلارہا ہے اور کچھ لوگ اس تکفیریت کی سلفی و دیوبندی جڑوں سے ہٹ کر نظری اعتبار سے اسے شیعہ -سنی تنازعہ اور اس تکفیریت کو ہٹاکر اسے تاریخ میں موجود شیعہ -سنی تنازعہ کی روشنی میں دیکھنے پر مصر ہیں حالانکہ سنی اور شیعہ کے درمیان مسلم دنیا میں یہ تنازعہ کبھی کا بنیادی طور پر سوائے نظری بحث کے اب موجود نہیں ہے بلکہ یہ وھابی دیوبندی تکفیریت ہے جو اسے مصنوعی آکسجین دینے کی کوشش کررہی ہے اور تکفیریت نے اپنے عزائم پورے کرنے کے لئے اسے زبردستی شیعہ -سنی لڑائی بنانے کی کوشش کررہی ہے ، شیعہ -سنی ایشو کو مناظرے سے قتال تک لانے والی سلفی و دیوبندی ایوانوں سے اٹھی تکفیریت ہے اور یہ تکفیریت جب بھی بے نقاب کی جاتی ہے تو بہت سے جبہ الحاد و کفر پہنے علامہ فہامہ سامنے آتے ہیں اور اپنے تئیں اسے شیعہ سنی تاریخی جھگڑے سے جوڑنے لگتے ہیں ، پہلے حزب اللہ کا زکر کرتے ہیں اسی سانس میں جس میں القائدہ و جند اللہ و لشکر جھنگوی کا کرتے ہیں اور جب حزب اللہ پر تاریخی و فکری تناظر میں بحث سامنے آئے تو کہتے ہیں کہ موازانہ مقصود نہیں تھا اور نہ برابری
چلو میں مان لیتا ہوں کہ موازانہ و برابری مقصود نہیں تھی لیکن کہنا تو یہی تھا ناکہ یہ تکفیریت نہیں ہے جو شیعہ ، سنی ، کرسچن ، یزیدی ، میرونائٹس ، آرمینین ، کرد لوگوں کا قتل عام کررہی ہے ، ان کی نسل کشی کررہی ہے بلکہ کہنا یہ تھا کہ شیعہ و سنی لڑرپے ہیں دونوں اطراف سے لوگوں مارے جارہے ہیں بس پاکستان میں نقصان شیعہ کا زیادہ ہوا ہے
پاکستان میں سپاہ صحابہ کے قیام سے پہلے کون سا شیعہ -سنی تنازعہ میدان سیاست میں موجود تھا ؟ اور کون سی شیعہ اصلاحات یہاں نافذ ہوگئی تھیں کہ جن سے سنی آبادی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تھا ، ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا تو اس زمانے میں جمعیت العلمائے پاکستان سمیت سنی سواد اعظم کی مذھبی جماعتیں ایسی کوئی تحریک چلاتیں اور ایران میں ہونے والی تبدیلی پر بھی سپاہ صحابہ سمیت دیوبندی تکفیریت اور یہاں کے سعودی مفادات کے محافظ احسان اللہی ظہیر کے سوا کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوئی اور خود مڈل ایسٹ میں بھی وھابیت کے پیٹ میں مروڑ اٹھے تھے اور اس نے ایران کے ایشو کو ایک فرقہ پرستانہ رنگ دیا اور وہ اس سے پہلے بھی پورے عالم اسلام میں شیعہ و صوفی اہل السنہ کے خلاف تکفیریت کی مہم چلارہا تھا اور پورے عالم اسلام میں یہ وھابیت تھی جس نے تکفیریت کو پروموٹ کیا اور اسی سے تکفیر بالقتال کا ظہور ہوا یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کرنے کا مطلب بالواسطہ شیعہ ، صوفی سنی ، کرسچن ، کرد ، یزیدی اور دیگر نسلی و اقلیتی گروہوں کے قتل عام اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کو جواز فراہم کرنا ہے
میں دیکھ رہا ہوں کہ اس طرز کو اختیار کرنے والوں کے بیمار قسم کی معذرت خواہی کو جب بے نقاب کیا جاتا ہے تو وہ اپنی جرات انکار ، ہمت کفر اور مسلک بے باک بھول جاتے ہیں اور اصل سوالوں کا جواب نہیں دیا جاتا
مجھے ان لوگوں پر ترس بھی آتا ہے اور ان کی بیماری دل پر رحم بھی کہ اگر وہ اس ملک کی شیعہ و صوفی سنی آبادی کے خلاف ہونے والی دہشت گردی ، ان کی نسل کشی کو ردعمل سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ شیعہ و صوفی سنی کے خلاف تکفیری دہشت گردی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان میں شیعہ اور سنی جنگ جاری ہے تو پھر اس کا کھل کر اعلان کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ان کی نظر میں دیوبندی تکفیری دہشت گرد سنیوں کے حقیقی ترجمان ہیں اور اس ملک کے 70 فیصد صوفی سنی آبادی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان دیوبندی تکفیریوں کو سنیت کا ترجمان ماننے سے انکار کریں اور اسے شیعہ -سنی جھگڑا ماننے سے انکار کردیں
میں یہاں یہ بھی کہوں گا کہ ایل یو بی پاک نے علامہ ایاز نظامی اور دیگر چند احباب کے حوالے سے اگر مرا مضمون مری وال سے اٹھاکر اپنے بلاگ پر لگادیا تو اس میں غلطی کہاں ہے اور یہ کہا گیا کہ اس مضمون میں یہ غلط الزام ہے کہ نظامی نے حزب اللہ کو القائدہ و جند اللہ کی طرح کی دہشت گرد تنظیم کہا ہے ، تو ان سے پوچھا جائے کہ یہ شیعہ -سنی تنازعے کی تاریخی جڑوں کی تلاش میں حزب اللہ کا تذکرہ اور نام کیسے ان کے مضمون میں زکر ہوگیا ، حزب اللہ کا وجود لبنان میں کسی سنی میلیشیا کے جواب میں نہیں بنا تھا اور نہ ہی اس کا مقصد لبننان کے اندر شیعی انقلابی ریاست کا قیام تھا ، پاکستان میں سپاہ صحابہ پہلے بنی اس کا دہشت گرد ونگ پہلے وجود میں آیا اور جب 90ء کی دھائی میں شیعہ ڈاکٹرز ، انجنئیرز ، اساتذہ ، بزنس مین ، وکلاء اور طلباء کی ٹارگٹ کلنگ کم نہ ہوئی اور ان کے خلاف اس تکفیری دیوبندی دہشت گردی کا سلسلہ رکنے میں نہ آیا تو سپاہ محمد بنی تھی
لیکن یہ سپاہ محمد نوے کی دھائی میں اس لئے ختم ہوگئی کہ ایک تو شیعہ ملائیت نے نجی عسکری لشکر سازی کے زریعے دیوبندی تکفیری قاتلوں کی بیخ کنی کے تصور کی حمائت نہ کی اور دوسرا خود سپاہ محمد کے کئی لوگوں کو اس مشق کے فضول ہونے کا احساس ہوگیا اور سپاہ محمد پاکستان کی جانب سے اکثر کاروائیاں تکفیری قاتلوں کے خلاف کی گئیں تھیں لیکن جیسا کہ اکثر نجی لشکر سازی میں معاملہ کنٹرول سے باہر جاتا ہے تو اس دوران بعض دیوبندی مساجد پر بھی حملے ہوئے جن میں ممتاز آباد مسجد والا واقعہ بھی شامل تھا اور یہ تین سے چار واقعات تھے جو نوے کی دھائی میں ہوئے اور اس کے بعد سے لیکر تادم تحریر پاکستان کے اندر کسی دیوبندی مسجد یا مدرسے پر یا ان کے کسی اجتماع پر حملے میں کبھی سپاہ محمد ، یا کسی اور مفروضہ شیعہ گروپ کا نام آج تک سامنے نہیں آیا ، ایاز نظامی صاحب کو اپنی شیعہ سنی بائنری کے لئے ممتاز آباد مسجد والا واقعہ ہی یاد آسکا افسوس وہ اس سے آگے نائن الیون کے بعد سے کوئی مثال سامنے نہیں لاسکے اور ان کی شیعہ -سنی بائینری بری طرح سے ناکام ہوئی
میں پھر کہتا ہوں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے تناظر میں دیوبندی تکفیریت کے خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے چیلنج اور اس سے جنم لینے والی شیعہ و صوفی سنی نسل کشی کے بارے میں دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کررہے بلکہ وہ اپنی تحریروں سے اس تکفیریت کے وکیل صفائی بنے ہوئے ہیں اور ان کا فری تھنکر ہونے کا دعوی جھوٹ سا لگ رہا ہے ، مجھے لگتا ہے کہ دیوبندی ازم کو خیر باد کہتے ہوئے اور غلام احمد پرویز کو سلام کہتے ہوئے وہ ویاں سے شیعہ ، صوفی سنیوں کے خلاف تعصب ساتھ ہی لیتے آئے ہیں اور یہ تعصب ان کے لئے ایسا کمبل بن گیا ہے کہ اسے چھوڑیں بھی تو چھوڑ نہیں پارہے