مسلم مذھبی جنونیت اور لیفٹ – والزر کہآں غلط ہیں ؟ – از عامر حسینی

headshot_AndrewFMarch

-اسلامی مذھبی جنونیت ، مغرب اور لیفٹ اور والزر اینڈریو ایف مارچ-

اینڈریو مارچ ییل یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے استاد ہیں اور لیفٹسٹ دانشور ہیں ، انھوں نے مائیکل والزر کے مضمون پر اپنا ایک رد عمل دیا جو کہ ڈیسنٹ میگزین میں شایع ہوا مائیکل والرز نے کئی سیاسی نظریہ سازوں کی کئی نسلوں کو سیاسی فیصلے میں وابستگی اور تعلق کی اہمیت بارے پڑھایا ہے – اگرچہ اس مضمون میں وہ ” فرد کی آزادی ” ، جمہوریت ، صنفی برابری اور مذھبی تکثریت پر زور دینے کے شائق زیادہ نظر آئے اور یہ بتانے کے کہ یہ محض مغربی اقدار نہیں ہیں ؛ یہ عالمی اقدار ہیں ، والزر کے سیاسی نظریہ کا امتیازی پہلو تجریدی سیاسی جواز پر عدم اعتماد اور ان سیاسی جدوجہد کی تعریف رہا ہے جو کمیونٹیز کو اندر سے بدلتی ہیں –

والزر کے لیے ، اخلاقی ہیرو ہمیشہ سے وہ پیامبر رہا جو اپنے قبیلے کے محاورے میں بات کرتا ہو اور اپنے لوگوں کو وہ اچھائی یاد دلاتا ہو جو وہ پہلے ہی کرچکے ہوں نہ کہ وہ جو وہ کرنے کے قابل تھے مگر کرنہ پائے ہوں ایک معنی میں ” اسلام ازم اور لیفٹ ” مضمون کو اسی طرح کے سیاسی استدلال پر مبنی طریق کار کو استعمال میں لانے کی سعی کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے – والرز کے ہاں خود ہم ایک جھنجھلائے ہوئے اور مایوس نقاد کی باز گشت سن سکتے ہیں – والرز فاکس نیوز کے مہا دایاں بازو کے دانشوروں سے مخاطب نہیں ہے اور نہ ہی وہ مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ خیالات میں راسخ لوگوں سے کلام کررہا ہے – وہ تو اس قبیلے سے ہم کلام ہے ، جس کے اپنے ہونے کا دعوی وہ ابتک کرتا ہے – یعنی عالمی لیفٹ – لیکن اس کی اپنے قبیلے سے بے گانگی اس کی اس سے وابستگی پر بہت غالب آئی ہوئی ہے –

والرز لیفٹ سے مخاطب ہے ، لیکن نہ تو وہ اس کی اینگزائٹی کو شئیر کرتا ہے نہ ہی اس کے اخلاقی اور جذباتی ردھم کے ساتھ حرکت تھرکتا ہے والزر کے مضمون کے یہاں دو پہلو قابل غور ہیں -پہلا ، والرز لیفٹ کے ایک خاص حصّے کی جانب سے خاص فیصلے سے غیر متفق نظر نہیں آتا – وہ یہ نہیں سوچتا کہ ان کی کوششیں کئی مقاصد کے درمیان توازن پیدا کرنے کی جانب مائل ہیں – مساوات کی حمائت اور سامراجیت کی محالفت – بعض لیفٹسٹ ان میں سے کسی ایک کو جائز اہمیت دینے میں ناکام ہوگئے ہیں – وہ سوچتا ہے کہ ہم غلط عقیدے کے زیر اثر کام کررہے ہیں – کم از کم وہ ” لیفٹسٹ جو اپنے اوپر اسلامو فوب ہونے کا الزام لگنے سے بچانے میں اسلامسٹ جنونیت کی مذمت کرنے سے زیادہ مشغول ہیں -اس کا یہ خیال نہیں ہے کہ بائیں بازو والے اسلامسٹوں کے ہمدرد ہیں ؛ اس کا تو بس خیال یہ ہے کہ چونگہ وہ اسلامسٹ خطرے کے بارے میں اس طرح سے نہیں بولنے کے اسباب نہيں دیکھتے جیسے وہ بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تحرک ” عقل ” سے زیادہ کسی اور چیز کا مرہون منت ہے دوسرا ، والزر بائیں بازو والوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ اسلامو فوبک کہلائے جانے سے اسقدر خوفزدہ ہیں کہ دنیا میں جو ہورہا ہے اس کی تشریح کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں – لیکن دنیا میں جو ہورہا ہے ، اس بارے اس کا اپنا تجزیہ ہلکا اور خود تضادی کا شکار ہے –

ایک جانب وہ خود سوچتا ہے کہ لیفٹسٹ ان کی اپنی اصطلاحوں ميں ” مذھب کے احیاء ” کا تجزیہ نہیں کرسکتے -اور اسی لیے وہ اسلام ازم کی واپسی کو لیفٹ کے روائتی دشمن کی واپسی سے تعبیر نہیں کرتے – لیکن پھر وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یہ ” مذھب نہیں ہے جس سے ہمیں خوفزدہ ہونا چاہئیے بلکہ یہ حسن البنّا ، قطب اور مودودی کی آئیڈیالوجی ہے جس ہمیں ڈرنا چاہئیے -پھر یہ کہ لیفٹ کے مقابلے میں مذھب کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لینے کے دعوے کے ساتھ ، اس کی سیاسی تجویز پوسٹ سیکولر عصر میں سیکولر ریاست کا دفاع کرنا ہے -اور زیادہ پریشان کن پہلو اس مضمون کا یہ ہے کہ وہ نہ صرف “اسلام ازم ” کے ابھار کا ایک غیر تحکمانہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہا بلکہ وہ ” مذھبی اکثریت پسندی کی واپسی ریڈیکل اسلام ہے ” جیسے نتیجہ سے آگے بھی نہیں جاسکا – لیکن اس مضمون کا جو عملی مقصد ہے وہ اسے اس سے روکتا ہے _ ریڈیکل اسلام ازم کے ابھار کے لیے ایک سیاسی ، تاریخی تجزئے کی فراہمی اس کے خاص ملکوں اور خاص زمانوں میں ابھار کے ساتھ والرز سے اسلام ازم کے بذات خود ایک اخلاقی خطرہ ہونے کی بجآئے دوسرے اسباب یا تشریحات پیش کرنے کا تقاضا کرتیں ، اور وہ پھر اسلام ازم کے لیے اپالوجی پیش کرنے جیسی صورت حال پیدا کردیتں –

لیکن عالمی اسلام ازم کے ابھار کے حوالے سے یہ کہنا کیسے ایک لیفٹ رسپانس ہوسکتا ہے کہ کالونیل ازم ، سامراجیت اور عالمی سرمایہ داری کا مطالعے کو لازمی دنیا میں جو ہورہا ہے کی تشریح میں کم کردار ادا کرنا چاہئیے ( والرز کے مضمون میں جو الفاظ ظاہر ہوتے ہیں وہ خود دوسروں کی تجزیاتی ناکامیوں کے ثبوت کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں ) ؟ کیا لیفٹ کے اسلام ازم کے بارے میں رویے کو ایسی مطلق ، عمومی اصطلاحوں میں بیان کرنا چاہئیے ؟ جبکہ لیفٹ کی شام ، ترکی ، تنزانیہ اور ایران بارے خاص مباحث کو چھوڑ ددیا جائے – کوئی نہ مدد کرنے والی شئے تو ہونے جارہی ہوتی ہے جب ہم دنیا میں انصاف کے لیے ہونے والی خاص جدوہائے جہد کو چھوڑ کر مغرب کے لکھاریوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی اخلاقی مرتاض پن پر فوکس رکھتے ہیں ایسے کسی بھی آدمی سے مباحثہ کرنا مشکل ہوجاتا جو یہ فرض کر بیٹھتا ہے کہ آپ کے فیصلے ، آپ کی دانشورانہ کاوشیں اور آپ کی اخلاقی جدوجہد ایک غلط عقیدے کے زیر اثر ہے کیونکہ آپ کو ہر دم اپنے اوپر اسلامو فوبک ہونے کے لیبل کے لگ جانے کا ڈر لگا ہوا ہے – وہ جو یہ فرض کرلیتا ہے کہ آپ کسی بھی طاقت کو سپورٹ کروگے ، چاہے وہ کسی بھی پردے میں ہو ، جب تک وہ مغربی سامراجیت سے لڑرہی ہوگی -میں سمجھتا ہوں کہ “دوسرے کیوں غلط ہوتے ہیں” یہ تشخیص کرنا ان پر یہ واضح کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے ” وہ کیسے غلط ہیں ” پھر یہ ، انتقاد کی پریکٹس سے یا تھنکنگ ود سے زیادہ ، والرز کی پولیمک کی منطق ہے –

درحقیقت والرز بخوبی آگاہ ہے کہ اس کا مضمون ایک مشکل معاملے کے بارے میں اپنے دانشور ساتھیوں کے ساتھ (جو لیفٹ کمیپ میں ہیں) ملکر سوچ و بچار نہیں کرنی – 21 ویں صدی میں عالمی یک جہتی کیسے حاصل ہوسکتی ہے ؟ – بلکہ آئیڈیالوجیکل جنگوں میں شرکت کا عندیہ دینے والے اعلامیے کا اعلان کرنا ہے – بدترین ، الزام یہ ہے کہ فلاں پرزور یا صاف مذمت نہیں کرتا اور یہ بدنام ترین پھسلن ہے – جیسے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ بلند آہنگ سے ٹیرر ازم کی مذمت کریں ، امریکی یہودیوں سے اسرائیلی آبادکاری کا ، یا کالے لیڈروں سے اندرون شہر ہونے والے ہنگاموں کی مذمت کا مطالبہ ۔ والرز کا مضمون تصدیق اور چناؤ دونوں طرح کے تضادات سے دوچار ہے -اسے انٹرنیٹ پر مصروف کجھ لیفٹسٹوں سے یہ گلہ ہے کہ وہ درست وقت پر درست چیزیں نہیں کرتے – اور پھر یہ عمومی غلط نتیجہ بھی نکالتا ہے کہ لیفٹ کو اسلام ازم سے کوئی مسئلہ ہے – لیکن کتنی استثنیات یہ لے سکتا ہے جب تک اصل مقدمے پر سوال نہ اٹھایا جائے؟ مسئلہ یہ ہے کہ متضاد شواہد کی کوئی بھی مقدار کبھی بھی کافی نہیں ہوا کرتی – جو پہل کرتا ہے وہ ہمیشہ جواب دے سکتا ہے ہاں ، یہاں یہ استثنیات ہیں ، لیکن بہنحال میں ابھی اپنے اتنے کامریڈ نہیں دیکھتا جو اسلامی جنونیوں کو اپنا دشمن اولین قرار دیتے ہوں یہ جواب نہ صرف زبان کا پھسلاؤ ہے بلکہ یہ مناظراتی و کلامی جواب بھی ہے –

ہم ایک جیسے لوگوں کی ایک جیسی کہانیوں کا سامنا کرتے ہیں جو ایسی چیزیں کہتی ہیں جو ان کے لیے شرم کا باعث ہوں ، لیکن – حقیقی طور پر – کتنی مرتبہ ہم حماقت پر مبنی گفتکو کرنے سے پہلے ایڈورڈ سعید ، پال برمان اور ایان حریسی علی بارے بات کرسکتے ہیں ؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا زیادہ دیانت پر مبنی لگتا ہے مسئلہ لیفٹسٹ کا اسلامسٹوں کو خوش کرنے کا جرم نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم خاص تناظرات میں سیاسی فیصلوں کے بارے میں بہت کم سیاہ – سفید اختلاف رکھتے ہیں – مسئلہ کو عمل میں حل کرنا آسان نہیں ہے لیکن دانشورانہ طور پر بہت ہی سیدھا ہے : ہمیں اسلامسٹ کے افعال پر تنقید کا وہ کون سا توازن اختیار کرنا چاہئیے جو ہمیں دائیں بازو کی مسلمانوں کو شیطان بناکر دکھانے جیسی بند گلی میں داخل نہ کردے –

یہ سوال اسی فکر سے نکلا ہے جو 21 ویں ودی میں اسلام ازم کو لیفٹ سیاست کے لیے ایک چيلنج کے طور پر دیکھتا ہے میں ان لیفٹ کے لوگوں کی ایک لسٹ بتلانے میں سارا وقت ضایع کرنے کی بجائے جنھوں نے اسلام ازم کی مذمت کرتے ہوئے اپنی اخلاقی برتری ثابت کی یہ ڈسکس کرنا پسند کروں گا کہ ہمیں کیسے اسلام ازم کو بطور ایک دانشورانہ اور اخلاقی سوال کے لیفٹ کے لیے زیر بحث لاسکتے ہیں اول : اسلامسٹ کیسے مابعد خرد افروز دور میں لیفٹ اصولوں کو جس راستے سے چیلنج کرتے ہیں اسے زیر بحث لانا اس کی پہلی سمت ہے اور یہ ان کا کاز ہوسکتا ہے جو لبرل لیفٹ ہیں کہ وہ اپنی بنیادی کمٹمنٹس بارے ازسر نو سوچ بچار کریں – ماڈل یہآں مارکس کی بورژوازی کے حقوق پر وہ تنقید ہے جو انھوں نے ” جیوش سوال پر ” کی ہے اور روائتی حقوق ، قانونی برابری اور انفرادی منفی آزادی پر تمام تر بائیں بازو کے تشکیک پن کی بنیاد یہی تنقید ہے –

اس تنقید کے کئی نرم و گرم ورژن دستیاب ہیں – اس کا سخت گیر ورژن حقوق و پارلیمانی جمہوریت کو بورژوازی /سرمایہ دارانہ فکشن قرار دے کر مسترد کرتا ہے جوکہ ایڈوانس نجات کی بجائے روکاوٹ کا کام کرتا ہے -جبکہ اس کا نرم ورژن ہمیں حقوق کے حصول ، نمائندہ جمہوریت اور سلبی آزادیوں کو آخری فتح خیال کرنے پر متنبہ کرتا ہے اور ان کو آزادی کی زیادہ عمیق اشکال اور یک جہتی کی طرف جانے کے لیے پہلا قدم خیال کرتا ہے کیا ایسی کوئی چیز لیفٹ اور اسلام ازم کے ساتھ ہورہی ہے ؟ میں کسی ایسے راسخ لیفٹسٹ سے بے خبر ہوں جس نے مذھبی آزادی ، صنفی برابری اور سماجی انصاف جیسی اقدار پر محض اس لیے سوال اٹھایا ہو کہ اسلامسٹ ان پر اپنے مذھبی تناظر کے ساتھ سوال اٹھاتے ہیں ؟ کسی ایک کو بھی اس میں شک نہیں ہے کہ ایرانی عورت کو پردے سے آزادی ملنی چاہئیے یا کہ عورتوں کے ختنے ان کی تذلیل ہے –

اور کسی نے کبھی بھی بہائیوں اور یزیدیوں کے مذھبی احتساب یا ان کو ذبح کرنے کی حمائت نہیں کی ہے یہ درست ہے کہ بعض نے ایک نیک ، باپردہ مسلم خاتون کے خیالات جاننے کے بعد عورتوں کی نجات کی بعض عالمگیر صورتوں پر سوال اٹھائے ہیں – لیکن یہآں بھی جو تنقید ہے وہ خالص لبرل ہے : اس کی بنیاد آزادی ، خود مختاری اور عورتوں کی اپنی نمآئندگی کا سوال ہے – نہ کہ اسکی بنیاد مطلق مذھبی ضابطے ہیں – مذھب اور آزادی کے درمیان کٹّر قسم کی مخالفت پر سوال اٹھایا جاتا ہے –

یہ بھی درست ہے کہ لیفٹ میں سے بعض نے مسلم ملکوں یورپی سیکولر ازم کے مطلق اطلاق پر سوال اٹھایا ہے- لیکن یہاں تنقی کا محرک جمہوری ہے : اس کی بنیاد آزادی ، خود مختاری اور اپنی آپ نمائندگی پر ہے اور سیکولر ازم کی کسی ایک شکل کی عالمگیریت پر سوال اٹھاتی ہے مسلم دنیا میں سیاست بارے سوچنے کا یہ انداز اصل میڑ والزرین پولیٹکل تھیوری سے بالکل الگ ہے : سیاسی گروہ اپنے معیارات ڈویلپ کرنے ، ان پر عمل کرنے اور جدوجہد کے زریعے کمٹمنٹس کو ڈویلپ کرنے کے خود زمہ دار ہیں نہ کہ وہ کوئی ایسی باہمی مبدل جگہیں ہیں کہ جن کا مقصد انصاف کے ایک اولین تصورات کا مطلق اطلاق ہو – بہت سے لیفٹسٹ بالکل ٹھیک طور پر یہ جانتے ہیں کہ مسلم ممالک میں جمہوری انصاف کو حقیقی مقامی جدوجہد کے دوران مشہود ہونا چاہئیے ہر کوئی یہ امید کرے گآ کہ والرز خود بھی اس تناظراتی سیاسی تجزیے کے عمل کو سراہے گا بنسبت اس کے کہ وہ ” اچھے سیکولرسٹوں کے ایک تنگ نظر ٹولے کی تلاش کرے تاکہ ان کی تعریف کرسکے دوم : والزر کی نظر میں لیفٹ دو حصوں میں تقسیم یں ، ایک وہ جو اصولوں سے وفادار ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں ہیں ، لیکن مرے خیال میں عدم اتفاق اصل میں سیاسی فکر کی دوسری سمت میں پایا جاتا ہے –

اور یہ سمت ان خوفناکیوں اور ناانصافیوں کے بارے میں ہمارے فیصلے کی ہے جو دنیا میں پائی جاتی ہیں کہ ہم ان کی مخالفت میں ترجیح کسے دیتے ہیں – والزر کا خیال ہے کہ یہ خوفناکیاں اسلام ازم کی وجہ سے ہیں – لیکن لیفٹ کا ایک آدمی والزر کا مضمون پڑھ کر آسانی سے جواب دے سکتا ہے ، ” میں نہیں سمجھتا کہ اسلامزم پر زبدرست تنقید کوئی ایسی چیز ہے جس کی یہآں کوئی کمی ہے – کیا ماسکو ، واشنگٹن ، مصر سمیت عالمی طاقتیں اس بات کی منتظر ہیں کہ لیفٹ کا پریشر آئے گا تو وہ اسلامسٹوں کے خلاف کوئی آخری معرکہ لڑیں گی ؟ جہاں تک مرا تعلق ہے تو مجھے اس بات میں شک ہے کہ مستقبل کا مورخ جب 2001ء سے 2014ء تک کی تاریخ لکھے گآ تو وہ اسے اسلامسٹ دھشت گردی کی طرف خوشامد ، معذرت ، اپالوجی کے کلچر کا دور قرار دے گا متشدد اسلامزم کے خلاف جنگ اپنا خیال آپ کررہی ہے – یہ پڑھنا ہمارے لیے زرا حیرت کا سبب ہے کہ ہم سے جو لبرل لیفٹ ہیں ان کو صاف صاف جنونیوں کو اپنے دشمن قرار دیں – اس کی بجآئے کیا لیفٹ کا جواب ایسا نہیں ہونا چاہئیے جو اس جاری جنگ کے حوالے سے زیادہ امید دلانے والا ہو ، اور قابل تعریف متبادل پیش کرنے والا ہو؟ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو لیفٹ کا اس پر خیال کیا ہے ؟

میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان متبادل ک رسد کم ہے – اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مسلم ملکوں میں جو لوگ انصاف ، برابری اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، کیا وہ مغربیوں سے ان کی رسد بھی چاہتے ہیں کہ نہیں – بلکہ ، وہ تو غیر لیفٹسٹ مغربی طاقتوں کی ان کے ملکوں میں مداخلت کے خلاف مدد چاہتے ہیں – والزر بھی اس بات سے اسی طرح سے واقف ہے جیسے لیفٹ کیمپ کا ہر آدمی واقف ہے -میں والزر کے مغربی سامراجیت کے بارے میں مذمتی ماتم داری کے متعصب سکرپٹ کو الٹانا نہیں چاہتا اور اس پر یقین کرلیتا ہوں کہ وہ واقعی اس کا ماتم کرتا ہے -لیکن میں یہ کہوں گا : ہم سے وہ جو مغرب میں رہتے ہیں اور ٹیکسز دیتے ہیں اگر انھوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہوا ہے کہ ہمارا زیادہ فوکس اپنے خود کے جرائم اور ان تباہ کن اثرات پر ہوگا جو ہم نے باہر ڈالے ہیں ، تو والزر کو اس بات کا کیسے یقین ہے کہ ہم غلط ہیں ؟ کیا یہ چوائس لیفٹ کی بہترین تنقیدی روائت کا عکس نہیں ہے ؟ اپنے خوف کو اور دوسروں کے جرائم کو وجہ بناکر آپ اپنے جرائم کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتے –

اور کیا یہ والزر کی اپنی تھیوری خود اپنی کمیونٹی کے اندر سے جدوجہد کریں تاکہ اپنے بلند ترین اخلاقی آدرش کو حاصل کیا جاسکے کے عین مطابق نہیں ہے مغرب میں بھاری فوجی ، سیاسی اور میڈیا آپریٹس اسلامسٹوں کو دشمن میں بدلنے اور لاشوں میں بدلنے کا پہلے ہی بہترین کام کررہا ہے – مرا اصرار یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت پر فخر کرنا چاہئیے کہ مغربی عوام کا ایک حصّہ اس پر سوال اٹھانے سے مخلص ہے سوم : اس کی تیسری سمت شمٹین ( ایک جرمن سیاسی فلسفی جس کی منطقی استدلال کو شمٹین کہا جاتا ہے ) ہے : مرا دشمن کون ہے ؟ والزر شمیٹین سینس میں اس مضمون میں کسی بھی عار کے بغیر سیاسی ہے – وہ کہتا ہے ہمیں صاف طور پر اسلامسٹ جنونیوں کو اپنا دشمن قرار دینا چاہئیے اور اپنے آپ کو ان کے خلاف دانشورانہ مہم کے لیے مختص کردینا چاہئیے -یہ مجھے جعلی سورما پن لگتا ہے –

میں جانتا ہوں کہ یہ یک گونہ اطمینان کا سبب ہوتا ہے کہ آپ ایسے شذرے لکھیں جس میں مرتدوں کو مارنے ، خواتین کے ختنے کرنے اور اسکول کی بچیوں کو اغواء کرنے والوں کے خلاف موقف اختیار کیا گیا ہو – لیکن کسے شک ہے کہ ہم ان کے خلاف نہیں ہیں ؟ کیا ان چیزوں کے خلاف مغرب میں کسی غیر معمولی اخلاقی ہمت کی ضرورت ہے ؟ اور وہ کون سی لڑائیاں ہیں جن سے ہم بچنے کی کوشش کرتے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں یہی ایک واحد چیز ہے جس کے لیے لڑنا چاہئیے جو بات بتدریج ظاہر ہوجاتی ہے ، وہ یہ ہے کہ والزر نہ تو اصلی مسلم دنیا کی سیاست بارے کوئی بات کررہا ہے اور نہ ہی اس میں اسے کوئی دلچسپی ہے –

مسلم ممالک کے لیفٹسٹ نہیں ہیں جن کے بارے میں اس کا یہ خیال ہو کہ وہ اسلام ازم کے خلاف سٹینڈ لینے میں ناکام ہوگئے ہیں اور نہ ہی اسے ان کی جدوجہد بارے کوئی زیادہ پرواہ ہے – یہ ردی سوال ہے کہ کس نے ہریسی علی کو گرم جوشی سے قبول کیا یا نہیں کیا ، کون ٹھیہ بلاگ یا مضامین لکھ رہا ہے یا نہیں یا کون ٹھیک پیٹشن پر سائن کررہا ہے – جتنی میں کوشش کرسکتا ہوں کرتا ہوں ، لیکن میں اس پر سارا فوکس نہیں کرسکتا کیا ہوتا اگر ہم خود کو زرا دیر کے لیے اس سے الگ کرتے اور سخت سیاسی سوالات کرتے ہیں کہ وہ کون سی چیزیں جو لیفٹ لبرل مقاصد کو آگے لیجاسکتی ہیں ؟ صرف چار سال پہلے ہم نے کہا تھا کہ ہمیں تیونس ، قاہرہ اور دمشق سے جمہوری لہروں سے امید رکھنی چاہئیے -اب کوئی نہیں کہتا کہ اب شام اور عراق جل رہے ہیں ، مصر پھر سے 1960ء کی دھائی میں چلاگيا ہے اور ایران میں سخت گیر عناصر کے ہاتھ میں پہلے سے زیادہ کنٹرول ہے –

تو کیا ہم اپنی امیدیں انسانی حقوق کے انٹرنیشنل لیگل انسرومنٹس کے زریعے سے پھیلاؤ کے پروجیکٹس کی طرف واپس موڑ دیں اور اپنی امیدیں لوکل این جی اوز کی ایڈوکیسی مہم سے باندھ لیں ؟ میں انسانی حقوق کی عالمی تحریک کو یکسر رد نہیں کرتا لیکن اس کے زریعے سے مستقبل میں مسلم دنیا میں کوئی بڑی ، بڑی کامیابی حاصل نہيں کی جاسکتیں میرے پاس اس کا بہتر جواب نہیں ہے – لیکن والزر نے بھی اس کا بہتر جواب نہیں دیا ہے – میں اس کو الزام نہیں دیتا – میں اس سے توقع نہیں کرتا کہ وہ گلوبل ابھار کے بارے میں وژن کی حمایت کرے گآ مسلم ممالک میں آج زیادہ تر جو بغاوت ہے عوامی انقلاب کی بجائے عالمی جہاد ازم کی شکل اختیار کررہی ہے – لیکن پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ والزر کی لیفٹسٹوں کے ساتھ فرسٹریشن جوکہ اسلامسٹ جنونیوں کے ساتھ جنگ کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں ان کئی ایک چیزوں کی علامت ہے جن کا لیفٹسٹوں کی اخلاقی کم ہمتی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ ہمارے پاس جوابات کی کمی اور پاور کے نہ ہونے کی علامت ہے – میں نہيں جانتا کہ گلوبل وارمنگ کو کیسے روکا جاسکتا ہے – میں نہیں جانتا کہ عدم مساوات اور عالم اشرافیت کو کیسے پلٹایا جاسکتا ہے –

میں نہیں جانتا آیا کہ مجھے 21 ویں صدی ميں ایک قسم کے ٹرانسفارمیٹو انقلاب میں یا موجودہ نیشن سٹیٹس کے اندر ترقی پسند کشاکش بارے رجائی روش اختیار کرنی چاہئیے یا نہیں میں نہیں جانتا کہ معاصر ٹیکنالوجیکل انقلاب اچھی چیز ہے یا بری – دوسروں کے جرائم پر فوکس کرنا اور جو جرم آپ کرو اس سے صرف نظر کرنا ہمیشہ ہی آسان رہا ہے – دوسروں کی اخلاقی تنزلی پر حملہ کرنا اور اپنی نیک نیتی کا ثبوت دینا بھی ہمیشہ آسان رہا ہے – لیکن لیفٹ کی بہترین روائت اور لبرل سیاست کی روش یہ رہی ہے کہ اپنی کئی موثر احساسات کو تاریخی پرسپیکٹو کے ٹربیونل کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے سر کاٹنے ، قتل عام کرنے اور یزیدی لڑکیوں کو لونڈیا بناکر بیچنے کے عمل سے بے زار ہوں –

اور میں داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں کی شکست کی امید بھی رکھتا ہوں : لیکن میں عراق میں حکومت کی جانب سے یورنیم کے استعمال ، بڑے پیمانے پر قیدیوں پر تشدد کرنے اور بڑۓ پیمانے پر نگرانی کے غیر احتسابی آپریٹس کی تنفیذ سے بھی بے زار ہوں یہ غیر انسانی عمل ہے کہ کسی ایک طرف کی جانب سے موت مسلط کرنے کے عمل پر خاموش رہا جائے ، اگر جہادی زمین پر موت بانٹ رہے ہیں تو وہی موت ہم فضا سے بانٹ رہے ہیں – میں امید کرتا ہوں کہ والزر جس قدر فکر اسلامسٹ جنونیوں کی کررہا ہے وہ اتنی فکر مغربی سامراجیت اور اس کے مظالم بارے بھی کرے گا اور مغربی سامراجی تشدد اور سامراجی جنونیت بارے بھی اتنا ہی فکر مند ہوگآ جتنا وہ اسلامسٹ و جہادی جنونیوں کے بارے میں ہے -اگر آپ امریکہ میں رہتے ہیں تو آپ کو اس تشدد اور مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی جو آپ کے نام سے امریکی حکومت مسلم دنیا میں کررہی ہے اور والزر مسلم معاشروں کی تلخ حقیقتوں بارے بھی اتنا ہی فکر مند ہوگا جتنا وہ اسلامسٹ جنونیوں کے بارے میں ہے

Andrew F. March is Associate Professor of Political Science, Yale University. He is the author of Islam and Liberal Citizenship: The Search for an Overlapping Consensus (2009), and numerous articles on Islamic political and legal thought.

Source:

http://lail-o-nihar.blogspot.fr/2015/02/blog-post_21.html

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.