ابن تیمیہ کے فتوی اہل ماردین بارے وھابی دیوبندی علماء کی نظر ثانی
دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ممتاز مسلم اسکالروں اور علمائے دین نے قرون وسطیٰ کے جہاد سے متعلق فتویٰ پر نظر ثانی کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس فتویٰ کو سخت گیر اسلام پسند بالعموم ہلاکتوں کے جواز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں لیکن موجودہ عالمگیر دنیا میں اس کو اپنی کارروائیوں کے جواز میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ترکی کے جنوبی مشرقی شہر ماردین میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران علماء اور مذہبی اسکالروں نے چودھویں صدی کے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ پر نظر ثانی کی ہے جس میں انہوں نے دنیا کو”دارالسلام” اور”دارالکفر” میں تقسیم کیا تھا۔ علماء کا کہنا ہے کہ اس فتویٰ کا موجودہ دور میں کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن امام ابن تیمیہ کے ”ماردین فتویٰ” کو متعدد مرتبہ امریکا کے خلاف جہاد کے لیے حوالہ دے چکے ہیں اور وہ مسلمانوں پر زور دے چکے ہیں کہ وہ صلیبیوں اور یہودیوں کے خلاف جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
اس تاریخی فتوے کا حوالے دیتے ہوئے ماردین کانفرنس کے شرکاء نے قرار دیا ہے کہ جو کوئی مسلمانوں یا غیر مسلموں کی ہلاکت کے لیے اس فتوے سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور وہ اس کی غلط تشریح کر رہا ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر گزشتہ اتوار کو جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ”یہ کسی مسلمان کا انفرادی طور پر یا کسی مسلمان گروپ کا کام نہیں کہ وہ دوسروں کے خلاف اپنے طور پر جنگ یا جہاد کا اعلان کرے”۔
واضح رہے کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے علماء اور اسکالروں نے امریکا مخالف جہادیوں یا جہادی موقف کے خلاف فتویِٰ جاری کیا ہے۔اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پران عناصر کے خلاف فتوے جاری کیے جا چکے ہیں اور اسی ماہ کے آغاز میں پاکستان کے بریلوی مکتب فکر تعلق رکھنے والے عالم دین ڈاکٹر طاہر القادری نے لندن میں دہشت گردی کے خلاف چھے سو صفحات کو محیط ایک دستاویز جاری کی تھی جس میں دہشت گردی کی مذمت میں تفصیلی اظہار خیال کیا گیا ہے اور مختلف علماء کے فتوے کتاب میں شامل کیے گیے ہیں۔
اسی ماہ دبئی میں صومالیہ میں امن سے متعلق ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔اسکالروں کا کہنا ہے کہ ان فتووں سے شاید جنگجو تو متاثر نہ ہوں لیکن ان سے ان مسلمانوں کو ضرور مدد مل سکتی ہے جو ان جنگجووں کی حمایت کر رہے ہیں اور خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔
ماردین کانفرنس میں سعودی عرب، ترکی، بھارت، سینی گال، کویت، ایران، مراکش اور انڈونیشیا سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے پندرہ سرکردہ علماء نے شرکت کی ہے۔ان میں بوسنیا کے مفتی اعظم مصطفیٰ چیرچ، موریتانیہ کے شیخ عبداللہ بن بیاح اور یمن کے شیخ حبیب علی الجعفری بھی شامل تھے۔
Source:
http://www.alarabiya.net/articles/2010/03/31/104584.html