جدید ایرانی شاعری اور حزن و ملال – فہمیدہ ریاض
دفتر میں اس کتاب کا مسودہ پڑھنے کو ملا۔ کتنی اچھی ملازمت جس میں آپ سے کتابیں پڑھنے کے لیٗے کہا جاے – بس غرق ہو گٗئ۔ فروغ یادا ٓنے لگی جس کا ترجمہ کرتے ہوے ایسے ہی کھو گئ تھی ۔۔فارسی زبان ہے ہی کتنی خوبصورت ۔فصاحت اس کے خمیر میں ہے ۔
بہت سے شعرا میں پروین اعتصامی بھی ملیں ۔۔پروین مجھ کو اچھی تو کیا خاصی بری لگتی رہی ہیں ۔لکیر کی فقیر قسم کی شاعر معلوم ہوتی ہیں ۔ لیکن ان کی نظم نما غزل میں، جس کا موضوع ـ موت ہے ،یہ شعر بہت اچھا لگا
زادن و کشتن و پنہاں کردن
دہر را رسم و رہ دیرین است
واہ ۔کیا بات ہے ۔پیدا کرنا ، قتل کرکے لاش کو چھپا د ینا ، یہ اس دہر کا پرانا دستور ہے ۔ کس طرح اس شعر میں د نیا کو ایک خطرناک عادی مجرم بتا دیا۔ قبر میں دفن کرنا ۔یعنی جرم کے ثبوت کو چھپا دینا ۔واہ مادام ۔میں آپ کو غلط سمجھی ۔ معافی چاہتی ہوں ۔ آپ روایتی تو ہیں لیکن روایت میں اچھے اشعار نکال سکتی تھین بہر کیف ، یہ بھی سچ ہے کہ جو تازگی نئے انداز اور نئ فکر اپنانے سے پیدا ہوتی ہے وہ روایت پرستی میں کہاں
ایرانی انقلاب کے بعد وہاں جو شاعری ہوی ہے اس میں مجھ کو بہت حزن و ملال نظر آتا ہے ۔ چونکہ میں اپنے آپ پر کافی کڑی گرفت رکھتی ہوں، اس لیٗے یہ بھی سوچتی رہتی ہوں کہ میں نے پہلے سے فیصلہ کر رکھا ہے کہ جہاں آذادی فکر نہ ہو وہاں کی شاعری میں حزن و ملال یقینی ہے ۔۔لہذا یہی مجھے نظر بھی آتا ہے
لیکن دیکھیئے ، ضیا مواحد لکھ رہے ہیں ،
ہوا پرندے کی موت ہے
جب وہ پنجرے میں ناچار بیٹھا ہو
خاموش
اور سنتا ہو
ہوا مین سلاخوں کا گیت
اور سیمیں بہبہانی لکھتی ہیں :
میرا دل اداس ہے اے دوست
میرے اشک باری کے ذوق سے
اگر میں اس پنجرے سے دور جانا چاہوں
تو کہاں جاوں ؟ کہان جاوں ؟
مجھے گلشن کا راستہ نہیں آتا
میں نے تو یہی قفس دیکھا ہے
اور اسماعیل شاہرودی لکھتے ہیں ،
اے شہر کے پہریدارو
کھول دو!
یہ دروازے کھول دو
کہ میں واپس نہیں جا سکتا
زندگی اورعشق کے دروازے مجھ پر بند کر دیئے گئے ہیں
اور میرے قلب کو درد اور ملال سے معمور کردیا ہے
تنہا ،
تنہا
میں تنہا رہا ہوں
اب کوئ کہہ سکتا ہے کہ یہ سیاسی شاعری نہ ہوگی۔ یہ تو داخلی کیفیات ہیں شاید نہ ہوگی