قوموں کی اجتماعی یادداشت کمزور ھوتی ھے ۔۔ از نور درویش
زمانہ طالب علمی سے یہ محاورہ سنتے آرھے ھیں کہ قوموں کی اجتماعی یادداشت کمزور ھوتی ھے۔ البتہ اس دور میں اس کا اطلاق زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی کرپشن، بری کارگردگی اور وعدہ خلافیوں پر ھوا کرتا تھا۔ وہ دور بھی یاد ھے جم بینظیر پہلی بار وزیر اعظم بنیں اور طویل مارشل لاء سے ستائی عوام نے گویا ان سے ھر اس محرومی کے ازالے کی امید باندھ لی جو پچھلے دس گیارہ برسوں میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے طفیل انیں ملی تھی۔ البتہ کچھ ھی عرصے میں امیدوں کی عمارت ڈھے گئی اور ساری امیدیں اگلی بننے والی حکومت پر مرکوز کر دی گیئں۔ امیدوں کے بندھنے اور ٹوٹنے کا یہ سلسلہ ھنوز جاری ھے کیونکہ قومیں اجتماعی طور پر کمزور یادداشت رکھتی ھیں۔
سیاست کی حد تک اس محاورے کا اطلاق شاید دنیا کے ھر ملک میں یکساں ھوتا ھے، چاھے وہ کوئی ترقی یافتہ ملک ھو یا ترقی پذیر۔ قومیں اجتماعی سطح پر حکومتوں کی عمومی کارگردگی کو کچھ عرصہ تو تنقید کا نشانہ بناتی ھیں اور پھر فراموش کر دیتی ھیں۔
البتہ سیاست سے ھٹ کر وہ واقعات جن کا تعلق کسی معاشرے میں رونما ھونے والے سانحات اور حادثات سے ھوتا ھے، قومیں ان واقعات کو ھمیشہ یاد رکھتی ھیں، بلکہ اکثر تو ان کی یاد میں یاد گار تعمیر کر دیتی ھیں تاکہ اس کی یاد تازہ رھے۔ چاھے وہ کوئی جنگی واقعہ ھو، کوئی دہشت گردی کا سانحہ ھو یا کوئی قدرتی آفت۔ ان واقعات کو یاد رکھا جاتا ھے اور مستقبل کی پیش بندی کرتے وقت ان کو ملحوظ رکھا جاتا ھے۔ نو گیارہ کے حقیقت کیا تھی، یہ سازش تھی یا اصل، ان تمام باتوں سے قتع نظر، حقیقت یہ ھے کہ اس واقعے کا ایک ٹسٹ کیس کے طور پر لیا گیا۔ گویا مستقبل کی تمام پالیسیز کا پس منظر یہ ھی واقعہ بنا۔ چاھے وہ خارجہ پالیسی ھو یا دفاعی پالیسی۔
لیکن عجیب بے حسی ھے کہ ھمارے ملک میں بڑے بڑے سانحات بھی کچھ عرصے تک ایک تہوار کی مانند منائے جاتے ھیں اور پھر فراموش کر دیئے جاتے ھیں جیسے دل بھر گیا ھو اور اگلے واقعے کا انتظار ھو۔ میں نے زیادہ پرانے واقعات یاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف پچھلے پانچ سالوں پر نظر دوڑائی تو کہیں کوئٹہ کی علمدار روڈ پر ھزارہ شیعہ ۴۸ گھنٹوں تک اپنے پیاروں کی میتیں لیئے بیٹھے دکھائی دئے، کہیں عباس ٹاون کراچی کی تباھی نظر آئی، کہیں لاھور میں احمدیوں پر دہشت گردوں کو حملہ دکھائی دیا، کہیں جوزف کالونی جلتی ھوئی دیکھی، کبھی لاھور میں چہلم کے جلوس میں خود کش دھماکہ ھو گیا، کہیں پشاور کے مینا بازار میں قیامتِ صغری کا منظر تھا، کبھی کراچی میں عاشور کے جلوس میں دھماکہ نطر آیا، کبھی مھران بیس کراچی پر دہشت گردوں نے دھاوا بول دیا، کبھی کراچی ایرپورٹ دھماکوں سے گونجتا رھا، کبھی جی ایچ کیو دہشت گردوں سے محفوظ نہ نظر آیا، کبھی لاھور میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ دیکھا، کبھی کوئٹہ میں زائرین کی بس دھماکے سے اڑا دی گئی، اور کبھی کالج سٹوڈنٹس کی بس، کبھی بابو سر میں شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو چھلنی کیا گیا، کبھی راولپنڈی کی امام بارگاہ پر حملہ نظر آیا، اور کبھی کوئٹہ ھزارہ ٹاون میں۔دہشت گردوں کے ھاتھوں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ھونے والوں کی تعداد کا تو کوئی اندازہ ھی نہیں، وہ تو روز مرہ کا معمول ھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ ان تمام واقعات کے دوران سوشل میڈیا اور میڈیا پر کافی ھلچل رھی، فیس بک پر سٹیٹس لگائے گئے، ٹویٹر پر ٹرینڈز چلائے گئے اور گھنٹوں پر محیط میڈیا کوریج دی گئی۔ بہت سی جگہوں پر شمعیں بھی روشن کی گئیں۔ لیکن کچھ دن گذرے اور بات آئی گئی ھو گئی۔
ہیاں تک کہ پشاور کا سانحہ ھو گیا۔ اس واقعے نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ واقعہ اپنی نوعیت کی اعتبار سے انتہائی کربناک اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین ساںحہ تھا۔ حکومت ، سیاسی جماعتوں اور فوج کی جانب سے انقلابی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھانسی کی سزایئں بحال کر دی گیں۔ شمعیں روشن کی گئیں اور دہشت گردوں سے اظہار نفرت کیا گیا۔ البتہ وہ مخصوص حلقے جو ان دہشت گردوں کے لیئے ھمیشہ سے نرم گوشہ رکھتے ھیں، انہوں نے اس واقعے میں بھی اپنی روش برقرار رکھی۔ سننے میں آیا کہ ۲۰۰۵ کے زلزلے کے بعد قوم کو اس واقعے نے متحد کر دیا ھے۔ کچھ روز تک بہت شور رھا لیکن میرے دل میں شروع دن سے خوف تھا کہ کہیں اس واقعے کو بھی اسی طرح فراموش نہ کر دیا جائے جیسا کہ پہلے کے تمام واقعات کو کیا گیا۔ اور ایسا ھی ھوا۔ آج اس سانحے سے زیادہ ایک باسٹھ سال کے بڈھے کی شادی ھے۔ اس ملک میں شیعہ،بریلوی، اور دیگر اقیلیتیں تو روز مرتی اور روز جیتی ھیں، انہوں نے تو توقع کرنا ھی چھوڑ دیا ھے کہ ان کے قتل عام پر کوئی مذمت تو دور کی بات ھے، رک کر پوچھ ھی لے کہ کون مرا ھے۔ لیکن اپنی نوعیت کے حوالے سے اس منفرد واقعے پر اجتماعی کمزور حافظے کا اطلاق کرنا ان معصوم بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ مزید ظلم ھے۔
اس کربناک واقعے کو گذرے آج ایک مہینہ ھو چکا ھے اور مجھے کافی حد تک ویسا ھی محسوس ھو رھا ھے جیسے ایک تہوار کی طرح یہ واقعہ بھی گذر گیا۔ کچھ اور وقت گذرے گا اور ھم اسے یکسر فراموش کر دیں گے۔ کاش کوئی ایسی یاد گار بن جاتی جو ھر کچھ عرصے بعد اس قوم کو یاد دلاتی کہ ۱۶ دسمبر کو ۱۳۲ بچوں کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔