عید میلاد النبی اور محرم کے جلوسوں پر اعتراض کرنے والے ہی اصلی طالبان ذہنیت رکھتے ہیں – از طالب علم
مسئلہ صرف مولوی عبدالابلیس المعروف مولوی عبدالعزیز دیوبندی کو گرفتار کرنے یا لال مسجد ان قبضہ خور دہشتگردوں سے واپس حاصل کرنے کا نہیں۔ مسئلہ ذہنیت کی تبدیلی کا ہے اور جب تک عام انسانوں، معاشرے میں رہنے والے وہ لوگ جو نہ مولوی ہیں اور نہ ہی طالبان، اگر ان کی ذہنیت درست نہیں ہوگی، تو مسئلہ جوں کا توں برقرار رہے گا
مولوی عبدالابلیس صرف ایک چہرہ ہے۔ اس جیسے کروڑوں چہرے ہمارے اپنے ملک میں ہیں، ہمارے آس پاس رہتے ہیں اور شاید ان میں سے کئی تو نماز و روزے کے پابند بھی نہ ہوں، لیکن ذہنیت ایسی ہے جو کسی کے مذہبی عقائد کو برداشت نہیں کرسکتی۔ عید میلادالنبی حدیث میں ہے یا نہیں، منانا جائز ہے یا نہیں، بدعت ہے یا بدعتِ حسنہ، یا دوسروں کو پہلے پیروی کرنے اور پھر جلوس نکالنے کا طعنہ دینے سے اچھا ہے کہ اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے
یاد رکھیے کہ طالبان کو شکست دینا کسی آپریشن ضربِ عضب یا کسی راحیل شریف یا کسی اور کے بس کی بات نہیں، تب تک جب تک آپ خود کو دوسروں کے عقائد کو برا بھلا کہنے، اور عقائد کی بنا پر تنقید و طعن و تشنیع سے باز نہیں رکھیں گے۔ چاہے آپ مذہبی ہوں یا مذہب بیزار، اگر دوسروں کو گمراہ اور ان کے عقائد کو برا کہنا ہے، ان سے نفرت کرنی ہے، اور ساتھ ساتھ طالبان کی مذمت بھی کرنی ہے، تو یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ طالبان بھی دوسروں کے عقائد کو برا کہتے ہیں بس ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے نظریات مسلط کرنے پر اتر آتے ہیں
اس لیے آئیں عید میلادالنبی کی شرعی حیثیت پر جھگڑنے کے بجائے رسول ص کے میلاد پر بھی وہی خوشی محسوس کریں جو ہم اپنے بھائی بہنوں دوستوں اور پیاروں کے میلاد پر کرتے ہیں، اور عزم کریں کہ ہمارے مسلمان بھائی چاہے محرم کا جلوس نکالیں یا میلاد کا، عشق رسول منائیں یا غم حسین، ہم ان کی حوصلہ افزائی کر کے طالبان کو نیچا دکھائیں گے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے، اور اگر آج ہم نے اپنے اندر یہ برداشت پیدا نہیں کی، توتکفیری خارجیت، دہشتگردی و انتہاپسندی کا یہ مسئلہ جاری و ساری رہے گا اور انصار عباسی، اوریا مقبول جان، طاہر اشرفی اور حامد میر کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے مہر بخاری اور نجم سیٹھی جیسے نام نہاد لبرلز بھی پاکستانی قوم کی رگوں میں زہر گھولتے رہیں گے