قتل کی مذمت اور قاتل کو سلام

سانحہ پشاور کے کچھ دن تک میں نے قلم اس لیئے نہیں اٹھایا کہ میں اس دوران قومی،سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے مذمتی بیانات دیکھ رہا تھا کہ کس نے مذمت کس طرح کی۔کس نے روایتی مذمت کی،کس نے دبے الفاظوں میں تو کس نے کھل کر مذمت کی،کس کی مذمت میں منافقت کا رنگ نمایاں تھا تو کس کی مذمت واقعی میں مذمت تھی۔ایسا کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔بڑے بڑے سانحات جنم لیتے ہیں۔مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے مذمتی بیانات آتے ہیں۔حکومت کا بیان آتا ہے کہ ہم کسی کو دہشت گردی کی اجازت نہیں دیں گے اور دہشت گردوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔بات کچھ دنوں تک ایسی ہی چلتی رہتی ہے پھر اس کے بعد اگلے سانحہ تک پھر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔
بات صرف مذمت کی اگر کی جائے تو  دو لفظ کا مذمتی بیان جاری کرنا کون سا مشکل کام ہے۔معروف عالم علامہ عباس کمیلی کے بیٹے کی قتل کی مذمت لدھیانوی نے بھی کی تھی جو کہ خود قاتل تھا۔اصل بات یہ ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کھل کر اقدامات کرنا اور کھل کر سامنے آنا۔بدقسمتی سے پاکستان میں سوائے الطاف حسین کے کسی اور لیڈر میں اتنی ہمت نہیں کہ کھل کردہشت گردوں کا نام لیکر مذمت کرسکے۔اور کھل کر طالبان کا نام لیکر ان کو للکارے۔یہ اعزاز صرف الطاف حسین کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے طالبان کے خطرے کی نشان دہی کی۔جبکہ اے این پی جو سیکولر جماعت کہلانے کی دعویدار ہے۔جب الطاف حسین طالبان کے خطرے کی نشان دہی کررہے تھے تو وہ کہتی تھی کہ الطاف حسین طالبان کی آڑ میں پشتونوں کو کراچی سے نکالنا چاہتے ہیں۔لیکن بعد میں آنے والے وقت میں اے این پی نے کراچی میں طالبان کا وجود تسلیم کرلیا۔ملک کی قومی سیاسی جماعتوں پر نظرڈالی جائے تو سوائے ایم کیو ایم اوراے این پی کے تمام بڑی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں یا تو طالبان کی حامی رہی ہیں۔کچھ زبانی طور پر تو کچھ عملاً ان کی مدد کرتی رہی ہیں۔ہماری بہت سے مذہبی اور سیاسی تنظیمیں کھل کر طالبان کا نام نہیں لیتی اور بعض تو طالبان کی کھل کر اور بعض دبے الفاظوں میں طالبان کی حمایت بھی کرتی ہیں۔اور جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو بس رسمی مذمت کردیتی ہیں جبکہ یہی جماعتیں کشمیر،برما اور فلسطین کے میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل پر ایک طوفان برپا کردیتی ہیں۔لیکن اپنے ملک میں ہونے والے قتل پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور بس رسمی طور پر ایک تعزیتی بیان جاری کردیا جاتا ہے جس میں واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا ہے بلکہ جب ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بات ہو تو یہی جماعتیں مذاکرات کا شور مچانا شروع کردیتی ہیں۔یہ جماعتیں قتل ہونے والوں سے افسوس اور تعزیت کا اظہار تو کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ قاتلوں کے خلاف کچھ بولنے کے بجائے ان کو اپنا ناراض بھائی کہتی ہیں۔ان کو بھٹکے ہوئے لوگ کہتی ہیں۔
جس طرح یہ جماعتیں ڈرون حملوں کی مذمت کرتی تھیں، امریکا کا نام لے لے کر روتے تھے، اس طرح پشاور سانحہ کی مذمت نہیں کی، کسی بھی دہشتگردی کی مذمت اس طرح نہیں کرتے، نہ قاتل کا نام لیتے ہیں نہ کوئی احتجاجی جلوس نکالتے ہیں نہ حکومت کو سزا دینے کا کہتے ہیں۔حالانکہ یہ جماعتیں اور رہنما طالبان لیڈروں کی ڈرون حملہ میں ہلاکت کو امن کا قتل کہتے تھے اور حکیم الله محسود کی ہلاکت پر آپے سے باہر ہوگئے تھے۔کوئی ان کو شہید کہہ رہا تھا تو کوئی اس قتل کو امن مذاکرات کا قتل تو کوئی کتے کو شہید کہہ رہا تھا۔عمران خان کو حکیم الله محسود کی ہلاکت کا اتنا صدمہ ہوا تھا کہ انہوں نے نیٹو سپلائی لائن کو بند کردیا تھا۔لیکن یہی عمران خان سینکڑوں بچوں کی ہلاکت پر آُپے سے باہر نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے طالبان کی کھل کر مذمت کی۔کیا عمران خان اس طرح طالبان کو للکار سکتے ہیں جس طرح وہ پولیس کو للکار کر کہتے تھے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا۔کیا وہ طالبان کو بھی اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اے طالبان اگر تم نے اب کسی کو قتل کیا تو میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا؟
کیا یہ ہماری قوم کے لیئے المیہ نہیں ہے کہ ملک کے قومی رہنما دہشت گردوں کے خلاف کچھ کاروائی کے بجائے ان کے خلاف آپریشن نہ کرنے کے لیئے دلائل دیتے رہے۔عمران خان ہمیشہ سے ہی آپریشن کے خلاف  بہانے تراشتے رہے ہیں جس کی وجہہ سے اب وہ طالبان کے ترجمان کے طور پر اور طالبان خان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔‘ جماعت اسلامی کا کردار تو ہمیشہ طالبان کی بی ٹیم کا رہا ہے۔کچھ ہفتے پہلےامیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپریشن کا ڈرامہ ختم کیا جائے۔نون لیگ کے بھی کسی رہنما نے طالبان کی کھل کر مذمت نہیں کی۔سوائے شیخ وقاص اکرم کے جو کالعدم تنظیم کے خلاف انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔جس قوم کے رہنماؤں کا یہ حال ہو کہ وہاں ان درندوں سے لڑنے کے دلائل کیلئے بجائے ان سے مذاکرات کے لیئے دلائل دیں اس قوم کی حالت پر اب افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
پشاور سانحہ کے ذمہ دار صرف طالبان نہیں بلکہ وہ تمام سیاست داں اور مذہبی رہنما ہیں جو طالبان کو اپنے بھائی کہتے تھے اور ان کے دفاتر کھولنے کی باتیں کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ان کا اور طالبان کا مؤقف ایک یہ ہے۔۔وہ تمام مذہبی اور سیاسی لیڈر بشمول عمران خان اس سانحہ کے ذمہ دار ہیں جو طالبان کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرتے رہے۔وہ تمام لوگ سانحہ پشاور کے مجرم ہیں جنہوں نے طالبان سے مذاکرات کے نام پر ان کو مزید طاقتور ہونے کا موقع دیا۔وہ لوگ بھی اس سانحہ کے ذمہ دار ہیں جو پچاس ہزار افراد کو قتل کرنے کے باوجود بھی طالبان کے لیڈروں کی ہلاکت پر ان کو شہید کہتے تھے۔وہ تمام لوگ اور جماعتیں اس سانحہ کے مجرم ہیں جومعصوم انسانوں کے قتل عام پر تومجرمانہ خاموشی اختیارکرتے  تھے لیکن سفاک قاتلوں کے مارے جانے پر واویلامچاتے  تھے اورانہیں شہیدقراردیتے  تھے۔وہ تمام لوگ اس سانحہ کے مجرم ہیں جو کہتے تھے کہ طالبان امریکا کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں اور وہ زبردستی شریعت کو نافذ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ تمام لوگ اس سانحہ کے مجرم ہیں جو طالبان کی دہشت گردی کو ڈرون کا ردعمل کہتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ڈرون بند ہوجائیں تو دہشت گردی بھی بند ہوجائےگی۔وہ تمام لوگ اس سانحہ کے مجرم ہیں جو فوج ،پولیس اورسیکوریٹی فورسز کے افسروں ، جوانوں کے گلے کاٹنے والوں،مساجد، امام بارگاہوں،بزرگان دین کے مزارات کوبموں سے اڑانے والوں، نمازجمعہ اور تراویح کے اجتماعات میں بم دھماکے کرکے معصوم مسلمانوں کاقتل عام کرنے والے سفاک دہشت گردوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتے تھے۔ہر وہ شخص،وہ جماعت اور وہ لیڈر اس سانحہ کا مجرم ہے جس نے کسی نہ کس شکل میں طالبان کی حمایت کی ہو۔
کچھ تنظیمیں ایسے بھی ہیں جن کی پالیسی یہ ہے کہ قتل کی مذمت اور قاتل کو سلام۔یہ تنظیمیں ہر سانحہ میں قتل ہونے والے بیگناہ انسانوں کی قتل کی مذمت تو کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان معصوم عوام کے قاتل طالبان کی کھل کر یا دبے الفاظوں میں حمایت بھی کرتی ہیں۔وطن عزیز سے اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو تو قتل کی مذمت اور قاتل کو سلام کرنے والی جماعتوں کے خلاف بھی کاروائی کرنا ہوگی۔

دہشت گردی کے خلاف اگر صحیح معنوں میں جنگ لڑنی ہے تو ہمیں روایتی مذمتی بیانات اور سوگ کے بجائے ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ جنگ امریکا کی نہیں بلکہ ہماری ہے۔ ڈاکٹر عثمان سمیت اب تک جتنے بھی دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں اور ان کو عدالتوں سے سزا ہوئی ہے وہ سب پاکستانی ہیں اور ان میں سے ایک بھی اسرائیل کا یہودی یا امریکا کا عیسائی یا انڈٰیا کا ہندو نہیں ہے۔ہمارے لیڈر قوم کو بیوقوف بانتے رہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ امریکا کی جنگ ہے۔جبکہ سانحہ پشاور میں مرنے والے سب پاکستانی بچے تھے۔ان میں سے ایک بھی امریکی نہیں تھا۔سانحہ پشاور میں ہلاک دہشت گردوں میں بھی سے کوئی امریکی،کوئی اسرائیلی اور کوئی انڈٰیا کا ہندو نہیں تھا۔یہ سب مسلمان تھے۔ان میں سے  6 دہشت گردوں کی شناخت ہوئی ہے جن میں سے 2 کا تعلق افغانستان، 2 کا درہ آدم خیل اور 2 کا سوات سے تھا۔اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کرنے والے ہمارے ملک سے ہی تعلق رکھتے ہیں جن کو انتہا پسند مدارس اور علماء برین واش کرکے اپنے مذموم مقاصد لیئے استعمال کرتے ہیں۔ہمیں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ تلاش کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہنے والے دہشت گردوں کو تلاش کرنا ہوگا جو ہمارے ہی اردگرد موجود ہیں۔وہ سب اس ملک کے یہ شہری ہیں۔اور کسی نا کسی کالعدم تنظیم کے کارکن ہیں یا جہاد کے لیئے برین واشنگ کرنے والے مدارس کے طلباء ہیں۔ہمیں ان مدارس کو تلاش کرنا ہوگا جہاں طلباء کی برین واشنگ کرکے ان کو خود کش بمبار بنایا جاتا ہے اور ان کو دہشت گردی کے لیئے اکسایا جاتا ہے۔صرف لال مسجد ہی نہیں بلکہ ان تمام مدارس اور مساجد کو مسجد ضرار کی طرح ڈھانا ہوگا جو دہشت گردی کے لیئے لوگوں کے اکساتے ہیں۔ہمارے ملک میں سینکڑوں لال مساجد موجود ہیں۔ان کو تلاش کرنا ہوگا۔ وزیر داخلہ کے مطابق دس فیصد مدارس ایسے ہیں جہاں دہشتگردی کی تعلیم دی جاتی ہے ان دس فیصد مدارس  اور مساجد کو مسجد ضرار کی طرح ڈھانا ہوگا۔کیوں کہ دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہہ طالبانی مائںڈ سیٹ ہے اور یہ مائںڈ سیٹ ان طالبان کے حامی مساجد اور مدارس تیار کررہے ہیں۔جب تک مائنڈ سیٹ بنانے کا خاتمہ نہیں ہوگا دہشت گرد تیار ہوتے رہیں گے۔

 

وقت آپہنچا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتے ہوئے ہم کھل کر نہ صرف طالبان کی مذمت کریں بلکہ اس مائنڈ سیٹ کے خاتمہ کے لیئے اپنا کردار ادا کریں-نہ صرف طالبان بلکہ  ملک بھر میں موجود طالبان کے حامیوں کے خلاف بھی کاروائی کرنا ہوگی ورنہ پاکستان کا حشر صومالیہ اور افغانستان سے بھی بدتر ہوگا۔
 
Wajahat Nasim's photo.

Embedded image permalink

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.