ھر فرد نے ملت کے مقدر کو بگاڑا ۔ از سید محسن

علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ:

افراد کے ھاتھوں میں ہے اقوام کی تقسیم
ھرفرد نے ملت کے مقدر کو بگاڑا

بچپن سے کتابوں میں پڑہتے آئے اور بزرگوں سے سنتے آئے کہ سنہ 65 کی جنگ میں پوری قوم متحد ھوگئی تھی. بہت سے واقعات اور قصے سنتے رہے اس جنگ کے بارے میں. وہ ایک الگ بحث ہے کہ بڑے ہونے کہ بعد اس جنگ کے بارے میں مزید تفصیلات پڑه کر کس نتیجے پر پہنچے اور کیا کیا پہلو آشکار ہوئے۔.

دوسری مرتبہ سنہ 2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد ہم نے سنا کہ قوم سنہ 65 کے بعد پہلی دفعہ اس طرح متحد ہوئی ہے. جوش و جذبے کا مظاہرہ واقعی قابل رشک تھا. سب نے ایک دوسرے کا ھاتھ تھاما بغیر کسی تفریق کے.۔

اور تیسری دفعہ یہ جملہ سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کو سنا جب 132 معصوم بچوں کو تاریخ کئ بدترین دہشت گردی کے نتیجے میں سفاکانہ طریقے سے شہید کر دیا گیا. پوری قوم دکھ اور کرب کی شدید کیفیت میں تھی. ہر زبان پر ایک ہی مطالبہ تھا کہ ان درندوں کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، فیصلہ کن آپریشن کیا جائے. جہاں دل اس المناک واقعہ پر شدید تکلیف میں تھا وہیں ایک تسلی بھی تھی کہ اب یہ قوم جاگ گئی، ھر آنکھ اشکبار ھے، اب ھماری جنگ یا پرائی جنگ، کون شہید اور کون ہلاک، اچھا طالبان برا طالبان، جہاد یا فساد اور ان جیسی باتیں سننے کو نہ ملیں گی.

وزیر اعظم، عمران خان اور آرمی چیف کچھ ہی دیر میں پشاور پہنچ گئے. معصوم بچوں کے ورثا کو حوصلہ دینے کیلئے. دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کرنے کیلئے. اگلی ہی صبح آرمی چیف افغانستان چلے گئے ملا فضل اللہ نامی دہشت گردوں کے سرغنہ کے خلاف کاروائی کا مطالبہ لیکر. وزیر اعظم نے پھانسی کی سزا پر سے پابندی ہٹا دی. عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا. تمام قوم متحد نظر آرھی تھی…….

لیکن…..
.
.
.

آج 24 دسمبر کو، واقعے کے ایک ہفتے کے بعد امید کی پوری عمارت جیسے زمین بوس ہوگئی. سیاست کے ایوانوں سے لے کر صحافت کے کوچوں تک اور داعیان دین و تبلیغ سے لیکر انسانی حقوق کے مشعل برداروں تک…..صرف اختلاف ہے، تقسیم ہے اور در تقسیم ہے.

کوئی اس سانحے کو ظلم مانتا ہے لیکن ظالم کی مذمت کیئے بغیر، کسی کو سرے سے مذمت کرنے ہی پر اعتراض ہے، کوئی تو اس ظلم کو آرمی اپریشن کا رد عمل کہتا دکھائی دیتا ھے، کسی کو بچوں کی یاد میں شمعیں جلانا کیتھولک مذہب کی رسم لگ رہی ہے، کوئی شمعیں جلانے کی بجائے قران خوانی کا اہتمام کر نے کئ تبلیغ کر رہا ہے، کسی کو اس واقعے میں انڈیا کا ہاتھ دکھ گیا، کسی کو گڈ طالبان بیڈ طالبان کی تھیوری یاد آگئی، کسی مبلغ اعظم کو اس ظلم میں عذاب الہی کی جھلک دکھ گئی، پھانسی کی کچھ سزاوں کو خدا جانے کیوں اور کس کے کہنے پر روک دیا گیا. آج بحث ہے، تکرار ہے اور سب سے بڑه کر یہ کہ، اس ظلم کے خلاف احتجاج نہ کرنے والے کے خلاف احتجاج ہے…..اور کہیں تعزیت کرنے والوں کے طریقہ تعزیت پر فتوی بازی….ایمان داری سے کہوں تو عجیب بے بسی کی کیفیت ہے….سوچتا ہوں ان غریب والدین کی کیا حالت ہوگی یہ سب دیکھ اور سن کر…..۔

سوچ رہا ہوں کہ شاید ان معصوم بچوں کا خون اتنا ارزاں تھا کہ ایک ہفتہ بھی قوم کو متحد نہ رکھ سکا. شاید یہ بچے بد قسمت تھے جو زلزلہ میں شہید نہ ہوئے. ورنہ ان کے ورثا بلا امتیاز تمام انسانی حقوق ، جھادی و فلاحی تنظیموں کی جانب سے دلجوئی کا اعزاز حاصل کرتے. کاش یہ سنہ 65 میں دشمن کے حملے کا نشانہ بن گئے ہوتے تو آج نور جہاں کے نغموں میں زندہ ہوتے……لیکن افسوس….

ان معصوم بچوں کی روحوں سے دست بدستہ معافی ہی مانگ سکتے ہیں کہ یہ قوم زلزلہ پر تو متحد تھی، قیامت صغری پر بکھری ہوئی ہے. ان کے والدین سے بھی درخواست ہے کہ صبر کر لیں. یہ انبیاء کی سنت ہے.

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر.

Comments

comments