جنگ جیو کی جانبدارانہ پالیسیز اور تحریک انصاف کے کارکنوں کا قابل مذمت طرز عمل – عامر حسینی
جیو ٹی وی کی خبریں ، تجزئیے اور تبصرے ،یہاں تک کہ پیروڈی تک کی پالیسی کو ہم معروضیت کی کمی ، اپنے تعصبات اور جانبداری کے بوجه تلے دبی قرار دیں تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا اور اس ٹی وی چینل کی پالیسی یہ رہی ہے کہ جسے یہ شیطان بنائے رو باقاعدہ ایک کمپئن اس کے خلاف چلاتا ہے اور اس کی خبروں ، ٹاک شوز ، تفریحی پروگرام ، مذاکرے ، گریٹ ڈیبیٹ اور ٹاک شوز کے لئے تجزیہ کاروں کا انتخاب تک اور خبروں کا فارمیٹ تک اس کے مطابق تیار ہوتا ہے اور اس طرح کی مینوفیکچرنگ یہ اپنے اخبارات میں فرنٹ و وبیک پیج اور ادارتی صفحات کا فارمیٹ تیار کرنے میں استعمال کرتا ہے
ہم نے اس کی مینوفیکچرنگ اور رائی کو پہاڑ بنانے کا یہ سلسلہ مشرف کے دور سے لیکر پی پی پی کے دور حکومت سے لیکر نواز دور تک جیو جنگ گروپ کی طرف سے برابر دیکها ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جیو جنگ گروپ نے اپنی اس جانبدارانہ ، متعصبانہ اور کینے ، بغض سے بهری مینوفیکچرنگ کو کسی آرٹ اور مہارت کے پیچهے چهپانے کی کوشش نہیں کی اور یہ جیو جنگ گروپ کی جانب سے کی جانے والی مینوفیکچرنگ اور ایک ایجنڈے پر مبنی واقعات کی رپورٹنگ اور تجزئیوں کو مسخ کرکے سی ایک فریق کے لئے فضا سازگار کرنے اور دوسرے فریق کے لئے ماحول ناسازگار بنانے کی روش تهی جس نے اس روش کو دوسرے چینلز کے اندر بهی منتقل کردیا اور آج یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اگر جیو آج نواز شریف کیمپ کی لڑائی لڑ رہا ہے تو اے آر وائی ، ایکسپریس نیوز ، سماء نیوز ، دنیا نیوز بهی اس لڑائی میں اسی طرح کی مینوفیکچرنگ اور مسخ شدگی سے کم یا زیادہ کام لے رہے ہیں اور اے آر وائی نے تو جیو کو جیسے کو تیسا والا جواب دیا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کے حق میں اے آر وائی کا رول وہ ہے جو جیو کا نواز شریف کے حق میں ہے
جیو ، جنگ گروپ کو معلوم ہے کہ ان کی جانبدارانہ بلکہ معاندانہ پالیسی نے پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان تحریک انصاف کے حامی حلقوں میں زبردست غصہ ، تناو پیدا کیا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس چینل کو دهرنا ایپی سوڈ سے لیکر ابتک پی ٹی آئی کے چارجڈ اور مشتعل کراوڈ کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس ردعمل کو وہ ایک خاص معنوں میں ڈهالنے کے لئے خواتین کے پیچهے چهپنے کی کوشش کررہا ہے ، اس مقصد کے لئے خاص طور پر یہ گروپ کبهی تو ثناء مرزا کو ڈهال بناتا ہے اور کبهی میمونہ کو اور کبهی ماریہ میمن کو اور یہ خواتین اینکرز جن پروگرامز کو ہوسٹ کرتی ہیں ان میں ان کا اپنا کنٹری بیوشن بهی مسخ شدگی اور مینیوفیکچرنگ اور تعصبات سے خالی نہیں ہوتا اور وہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں مبتلا ہوجاتی ہیں
جیو جنگ گروپ کی اس پالیسی کا ساته بعض وہ سئنیر لوگ بهی نہ دے سکے جنهوں نے مشرف اور پی پی پی دور میں کسی حد تک اس مینیوفیکچرنگ کا ساته دیا تها اور میدان صحافت میں ان کا قد کافی بڑا تها اور ان کو جیو بالآخر چهوڑنا پڑا ، ان میں کامران خان کا نام بهی شامل ہے، ثنا بچہ ، عاصمہ شیرازی سمیت کئی نام ہیں جن کو جیو جنگ گروپ ان کی بے انتہا تیزی کے سبب چهوڑنا پڑا ، پهر جیو جنگ نے تو کالم نگاروں تک کے معاملے میں اپنی مینیوفیکچرنگ کا ساته نی دینے اور ان کے الٹ چلنے والوں کا حشر برا کیا ، نذیر ناجی اس کی مثال ہیں
جیو جنگ گروپ اپنے مفادات کی لڑائی کو آزادی صحافت کی لڑائی بناکر دکهارہا ہے ، اس نے اس طرح کی پوسچرنگ اس وقت بهی کی جب یہ عدلیہ کی آزادی کا چمپئن بنا ہوا پی پی پی کا میڈیا ٹرائل کررہا تها اور پاکستان بار ، سپریم کورٹ بار ، پرونشل بارز اور ڈسٹرکٹس بار میں عدالتی اسٹبلشمنٹ بمقابلہ حکومت لڑائی میں حکومتی کیمپ کے خلاف افتخار لابی کی کمپئن چلارہا تها
یہ عورتوں کی آزادی ، عورتوں کے حقوق ، ان کے احترام جیسے آدرشوں کو بهی اپنی مسخ شدہ صحافت اور کمرشلائزیشن پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کررہا ہے
مجهے ثناء مرزا سمیت جیو کی ان تمام خواتین رپورٹرز کے ساته ہوئی بدسلوکی پر انتہائی افسوس ہے اور میں ایک مارکسسٹ فیمنسٹ کے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دے سکتا کہ ایسی بدسلوکی کا کوئی جواز تلاش کروں ، اور یقینی سی بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کے اندر فسطائی رجحانات بہت واضح ہوکر سامنے آرہے ہیں اور ان کے جواز تلاش کرنے کا عمل بهی پاکستان تحریک انصاف کے اندر جاری و ساری ہے لیکن خود ثناء مرزا ، ماریہ میمن اور دیگر جیو جنگ گروپ کی خواتین رپورٹرز کو اپنی خوداحتسابی کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی صحافتی اخلاقیات پر ان کے چینل کی طرف سے عمل کیا جارہا ہے ؟
جیوجنگ گروپ تو اپنی خبروں میں معروضیت کے فقدان کا شکار ہے ٹاک شوز اور پیروڈی پروگرام میں تو ڈهونڈے سے معروضیت نہیں ملتی لفافہ ، بدعنوان اور پاور گریبنگ کی بے قابو ہوس پر مبنی صحافت نے زرد صحافت کی تاریخ میں نئے باب رقم کئے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا میں اس باب میں سب سے زیادہ کردار جیو کا ہے اور اس کی پالیسی ایک وائرس ثابت ہوئی ہے جو دوسرے چینلز میں سرایت کرگئی ہے اور اس کے بغیر کامیاب صحافی ہونا ، کامیاب اینکر ہونا ، کامیاب تجزیہ نگار ہونا اب ممکن خیال نہیں کیا جارہا
آج مبشر لقمان ، ڈاکٹر دانش سمیت کئی ایک اینکرز جو کنٹروسی کے ماہر خیال کئے جارہے ہیں تو اس کی وجہ جیو جنگ گروپ ہے جس نے انصار عباسی ، ڈاکٹر شاہد مسعود ، شاهین صہبائی ، عبداالقیوم صدیقی ، حامد میر جیسے لوگوں کی صورت میں ایسے اینکر ، رپورٹر ، تجزیہ کار پیش کئے جو زیادہ سے زیادہ کنٹرو ورسی پیدا کرسکیں ، زیادہ سے زیادہ دهول اڑاسکیں اور زیادہ سے زیادہ سازشی مفروضوں کو مقبول کرسکیں اور یہ بکنے والا رجحان بن گیا ہے اور ہم ان کے بهی باپ اب میڈیا میں دیکه رہے ہیں
اس ساری دهول کے دوران پاکستانی صحافت سے وہ اقدار غائب ہوگئی ہیں جن کی بنیادیں رکهنے والوں میں بڑے بڑے نام شامل تهے اور آج ان ناموں کے ساته اپنے ناموں کو جوڑنے کی زبردستی کوشش پہروپئے نما لوگ کررہے ہیں
میڈیا کی بورژوازی سرمایہ دار ایسے لوگوں کو هیروز اور هیروئن بناکر سامنے لائے ہیں جو صحافتی کارکنان کے طبقاتی مفاد کو زرا بهر بهی اہمیت نہیں دیتے اور سماج میں وہ حکمران طبقات کی باہمی تقسیم میں کسی ایک فریق کے ساته کهڑے دکهائی دیتے ہیں اور اس لڑائی میں محنت کش ، دبے ہوئے ، پسے ہوئے ، کچلے جانے والے طبقات کے ساته کهڑے نہیں ہوتے اور خود ورکنگ جرنلسٹس طبقے کے مفاد کے خلاف وہ میڈیا مالکان کے ساته جاکهڑے ہوتے ہیں ، اس لئے ان کاغذی ہیروز اور هیروئن کو رول ماڈل خیال کرنا اور ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرنا فضول کام ہے ، یہ پاور گریبر ، منی میکر ، اپارچونسٹ ہیں اور کسی بهی بلند آدرش کی بلند آہنگ کے ساته لفظی جگالی اس وقت کرتے ہیں جب اس جگالی سے ان کو پاور گریبنگ ، منی میکنگ کا موقعہ میسر آرہا ہو