مولانا طارق جمیل سے چند گزارشات – از سید محسن

10270517_407683506048527_5746549176941085460_n

مولانا کے جذبات سر آنکهوں پر. مگر چند گذارشات ضروری هیں. جنید جمشید پر گستاخی کی تہمتوں میں کچه حصہ قبلہ کی اس پہلی ویڈیو کا بهی هے جس میں اس کے اس عمل کو جہالت قرار دیتے هوئے صریح گستاخی قرار دیا گیا. اسے جنید جمشید کا انفرادی عمل کہا گیا اور تبلیغی جماعت سے لا تعلقی کا اعلان کیا گیا. انہوں نے مزید یہ بهی کہا کہ جنید جمشید کو اس گستاخی کا مرتکب هونے پر سب کے سامنے توبہ اور معافی معافی مانگنی چاہیے.

جنید جمشید صاحب نے گویا کچه هی لمحوں میں مولانا کے حکم کو عملی جامہ پہناتے هوئے ایک ویڈیو کے ذریعے معافی مانگ لی.

اب مولانا اس ویڈیو میں امت کے سخت رویہ پر نالاں هیں اور اسے اخلاقی تنزلی سے تعبیر کرتے هوئے گریہ و فغاں کر رهے هیں کہ کس طرح سے 17 برس سے تبلیغ کیلئے خدمات انجام دینے والے پر گستاخی کی تہمت لگائی جا رہی هے اور توبہ کا حق بهی نہیں دیا جا رهآ.

مولانا شاید یہ بهول گئے کہ یہ وہ هی جذبات هیں جس کا شکار آج سے پہلے بہت سے مظلوم هوتے رهے. جن میں سے بیشتر کو تو معافی کی مہلت هی نہیں ملی اور نہ هی مولانا کی جانب سے ان کی داد رسی کی کوئی کوشش کی گئی.

مولانا کو یہ بهی جان لینا چاہیئے کہ ان کا یہ طرز عمل در اصل اس اخلاقی تنزلی اور تضاد کا عکاس هے جس کا ذکر انہوں نے خود کیا. پاکستان کے چند اثر انگیز علماء میں شمار هونے کے باوجود اگر ان کی زبان سے ان مظلوموں کی دادرسی کیلئے کبهی کچه ادا نہ هوسکا جن کو توبہ کی مہلت تو درکنار، جن پر کبهی الزام بهی ثابت نہ هوا تو جنید جمشید کیلئے آنسو بہانے کو سوائے ایک جانبدارانہ اور خود غرضی پر مبنی رویہ کے اور کچه نہیں کہا جا سکتا. اس رویہ کو مولانا کا انفرادی عمل کہا جائے یا تبلیغی جماعت کا اجتماعی رویہ، اس کا جواب صرف مولانا هی دے سکتے هیں.

ویسے زلزلے سیلاب اور طوفان کو اللہ کے عذاب اور قوم کے گناہوں کا نتیجہ کہنے والے مولانا صاحب کو شاید خیال آجائے کہ جنید جمشید کا واقعہ کہیں بے گناہوں کے بہنے والے اس خون کا نتیجہ تو نہیں جس پر مولانا کبهی بات نہ کر سکے.

Comments

comments