پچیس محرم الحرام: شہادت امام سجاد (ع) – عامر حسینی
پچیس محرم الحرام چوتهے امام زمانہ علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سلام اللہ علیهم کی شہادت کا یوم ہے اور یہ وہ امام ہے جس نے کربلا کی قیامت کو اپنی آنکهوں سے دیکها اور اس بے حرمتی اور تذلیل کو بهی جو 10 محرم الحرام کی شب شهیدان تحریک مقاومت و مزاحمت پر مسلط کی گئی اور پسماندگان اہل بیت اطہار کے ساته کوفہ سے دمشق تک روا رکهی گئی
امام علی بن حسین سجاد زین العابدین کو بیماری کی حالت میں بهاری زنجیروں سے جکڑ دیا گیا تها اور اس موقعہ پر لشکر یزید نے شہادت امام حسین کے بعد لوٹ مار کی اور خیمہ اہل بیت اطہار کو آگ لگادی تهی اور کوفہ سے شام تک ایوانوں میں جشن منایا جارہا تها اور کسی کو خبر نہ تهی کہ کربلا کے میدان میں ملوکیت ، استحصال ، ظلم وجور کے نمائندوں کو للکارنے والوں پر کیا گزری ہے اور یہ امام سجاد ، زینب بنت علی شریکہ الحسین ، ام کلثوم تهیں جنهوں نے کوفہ سے دمشق تک اور پهر مدینہ میں اس ظلم عظیم کو بے نقاب کیا
کتب تاریخ میں مرقوم ہے کہ امام سجاد نے کوفہ کے مرکزی بازار میں پابجولاں جمع ہوجانے والی بهیڑ کے سامنے خطاب کیا اور کہا سن لو ، میں اس حسین کا بیٹا ہوں جو علی ابن طالب کا بیٹا اور محمد مصطفی کا نواسہ تها اور جسے دریائے فرات کے کنارے شهید کردیا گیا جبکہ اس کے قتل کا کوئی اختیار اور وجہ موجود نہ تهی ، جس کے مال اسباب کو لوٹ لیا گیا اور اس کے اہل خانہ کو قیدی بنالیا گیا
امام نے اہل کوفہ کو بتایا کہ کیسے امام حسین کی قمیص ، کمربند ، تلوار ، ڈهال ، ان کے انگلیوں کی انگوٹهیاں سب لوٹ لی گئیں اور امام نے ان چیزوں کے لوٹنے والوں کے نام تک بتائے
امام جب دمشق پہنچے تو دربار یزید میں بهی انہوں نے اپنی شناخت کے ساته اس ظلم عظیم سے پردہ اٹهایا جو لشکر شام نے نواسہ رسول اور ان کے اہل بیت سے روا رکها اور صاف بتایا کہ ایسا کرنے والوں نے یہ سب ظلم و جور کے ساته لوگوں کی گردنوں پر مسلط ہونے والے ظالموں کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے کیا
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یزید نے امام سجاد کی حق گوئی کی اثر پذیری کو دیکه کر مذهبی هتیار استعمال کیا اور ایک موزن کو کہا کہ وہ ازان دینا شروع کردے جبکہ ابهی نماز کا وقت دور تها ، اس نے سوچا کہ امام سجاد ازان کی آواز سنکر خاموش ہوں گے ، امام سجاد ازان کی آواز سنکر منبر سے اترے ضرور مگر جب موزن اشهد ان محمدا رسول اللہ کے کلمے تک پہنچا تو آپ نے اسے روکا اور پوچها کہ یزید یہ تو بتاو کہ جس کی رسالت کی گواہی ہر ازان میں دیتے ہو وہ کس کا نانا تها اور کون اس کا سبط تها ؟ وہی نا جس کو تیرے حکم پر کربلا میں ذبح کردیا گیا ، جس کے سامان کو لوٹ لیا گیا
امام سجاد جب اہل بیت کے قافلے کے ساته مدینہ پہنچے تو سارا قافلہ تربت پیغمبر پر حاضر ہوا اور وہاں پر آنسووں کی جهڑی کے ساته اپنے ساته بیت جانے والی قیامت کا احوال سنانے کا اولین فریضہ بهی امام سجاد نے سرانجام دیا اور ایک جگہ لکها کہ آپ کئی ہفتوں تک علی الصبح مسجد النبوی میں آتے اور اہل مدینہ کو کربلا سے دمشق تک کا احوال سناتےامام سجاد نے اس عصر کے ظلم اور جور کو جہاں اپنے خطبات میں رقم کیا وہیں انہون نے اس دور کے جبر اور گهٹن کے زمانے میں دعاوں اور مناجات کی شکل میں حق بیان کرنے کی طرح ڈالی
بلکہ میں کہتا ہوں کہ انتہائی سنسر اور اظہار پر سخت پابندیوں میں امام نے بین السطور بات کو تشبیہ و استعاروں کے پردے میں کہنے کی طرح ڈالی اور دعا اور مناجات کو قیام و رکوع و سجود کے پیرائے میں تحریک مقاومت کے پیغام کو جاری وساری رکها اور اس طرز کو ہم امام پنجم امام باقر علیہ السلام کے ہاں تقیہ کے تصور میں ڈهلتے ہیں اور صحیفہ کاملہ جسے صحیفہ سجادیہ کہتے ہیں کے اندر پوری تحریک کے پیغام کو پوشیدہ دیکه سکتے ہیں اور یہ فرار اور رخصت نہیں تهی بلکہ امام نے قیام و مقاومت کو ایک نئے رنگ کے اندر متعارف کرادیا تها اور یہی وجہ ہے کہ بنوامیہ کی ظالم حکومت کو صاف صاف پتہ چل رہا تها کہ امام کی دعاوں ، مناجات ، ان کے قیام و سجود کے معانی کیا ہیں
اور شاید یہی وجہ تهی جو سرکاری و درباری مورخین نے تقیہ کو رخصت و معزوری جیسے مسخ شدہ تصورات میں بدلنے کی پوری پوری کوشش کی لیکن امام سجاد اور بعد میں آنے والے آئمہ نے اس کوشش کو ناکام بنادیا امام ایسے ساجد اور ایسے عابد نہ تهے کہ جن کے سجود اور عبادت کسی قسم کی فراریت اور رخصت پر مشتمل ہوں بلکہ انهوں نے اس زمانے میں فتنہ اور فساد کا مقابلہ کرنے کی بجائے جنگلوں اور ویرانوں کا رخ کرنے والوں کے تصور و زہد وتقوی کے مفہوم کو رد کردیا اور اس میں مزاحمت و قیام کو شامل کردیا
میں امام سجاد تک علی شناسی کے راستے پہنچا اور میں نے ذات علی اور فکر علی کی بہت سی جہتوں کو امام سجاد کے ہاں عیاں اور کہیں پنہاں دیکها اور ان کی زات سے کہیں بهی مجهے مذهب رخصت کا جواز نہ ملا اور میری اس کایا کلپ میں ڈاکٹر علی شریعتی کی امام سجاد کی شہادت پر کی جانے والی ایک تقریر نے اہم کردار ادا کیا ،جس میں انہوں نے امام کے سجاد ، مستجاب ، عابد ہونے کے معانی و مفاہیم کے حوالے سے کی تهی اور انقلاب آفرین باتیں کی تهیں
امام سجاد کا زمانہ اس زمانے کا آغاز تها جس میں اہل بیت اطہار کے چاہنے والوں کی شناخت اور حق کے اظہار کو منظم پابندیوں ، جبر ، ظلم اور ستم کا سامنا کرنا پڑا اور تحریک مقاومت و قیام کے بچے کهچے قافلے کے سامنے بقا کا سوال سب سے اہم بن گیا تها اور بقا بهی شناخت اور اصولوں کے ساته کرنا تهی اور اس مشکل دور میں امام سجاد نے جو راہ نکالی اس راہ نے آگے چل کر ایک مکتب کی شکل امام باقر و امام جعفر صادق کے ادوار میں اختیار کرلی اور امام سجاد کی مدینہ واپسی اور وہاں قیام کے ایک اور معنی بهی رکهتی ہے اور یہ معنی حجاز میں تحریک مقاومت و قیام کے احیاء کی صورت میں سامنے آئے اور بنو ہاشم نے پهر امام زین العابدین ، امام باقر و امام جعفر کی قیادت میں ظلم و جور کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور بدترین جبر و ستم اور ظلم کے باوجود شیعیت مدینہ ، مکہ ، قطیف ، حصاء سے بے دخل نہ کی جاسکی اور آج آل سعود کی تمام تر تکفیر و فسطائیت کے باوجود یہ جو تحریک مقاومت و قیام اگر زندہ نظر آتی ہے تو اس میں امام سجاد کا کردار بہت کلیدی ہے ، یہ امام سجاد ، زینب بنت علی ابن طالب تهے جن کے خطبات ، دعائیں اور مناجات نے اموی ظلم و جور اور اہل بیت کی مظلومیت کی داستان کو تاریخ میں محفوظ کیا اور درباری مورخوں کی جانب سے تاریخ کو مسخ کرنے اور اسے بدل ڈالنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا تها
علی شناسی میں امام سجاد اہم سنگ میل کی حثیت رکهتے ہیں اور اس سنگ میل کو عبور کئے بغیر نہ تو حسین شناس ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی علی شناس ہوا جاسکتا ہے آج جب اہل بیت اطہار سےوابستگی اور ان سے محبت و شیفتگی کا مطلب تکفیر کا عذاب بهگتنا ٹهہر گیا اور اس شیفتگی کا مطلب اپنے آپ کو سولی پر چڑهانا اور مصلوب ہونا اور تکفیریوں کے خنجر سے زبح ہونا ٹهہر چکا ہے تو ایسے میں امام سجاد کے دامن کو تهام کر سرخرو ہوا جاسکتا ہے