ملالا کا نوبل انعام اور ڈاکٹر ھود بھائی کا مغالطہ – عامر حسینی
ڈاکٹر امیر علی پرویز ہود بهائی جو قائد اعظم یونیورسٹی میں سالڈ سٹیٹ فزکس کے شعبے سے وابستہ ہیں نے اپنے ایک آرٹیکل میں ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے بائیں بازو کے سامراجیت مخالف ، ملٹی نیشنل کارپویٹ لوٹ مار اور سامراجی عالمی سرمایہ داریت کے نقادوں کے موقف کو انتہائی مسخ کرکے پیش کیا ہے ، ان کا یہ آرٹیکل آوٹ لک انڈیا میں شایع ہوا ہے ہود بهائی نے ارون دهتی رائے پر تنقید کرتے ہوئے ان کو ملالہ یوسف زئی کا مخالف بناکر پیش کیا اور اسی طرح سے کئی اور ریڈیکل سوشلسٹ انقلابیوں پت تنقید کی اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جیسے وہ سب ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں اپنی رائے کے اعتبار سے طالبان اور ان کے حامیوں کے ساته کهڑے ہیں
جبکہ معاملہ یہ ہے کہ انقلابی اشتراکیوں اور بائیں بازو کے ریڈیکل حلقوں نے ملالہ یوسف زئی کو نہ تو مغرب کا ایجنٹ ٹهہرایا اور نہ ملالہ کو لگنے والی گولی کے جواز تلاش کئے لیکن ان کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ پرستی ، ان کے سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل پر سوالات بهی اٹهائے گئے ، ان کی مذهبی فاشسٹوں اور نام نہاد جہافیوں کے خلاف جنگ کے دوہرے معیارات اور منافقت پر سے بهی پردہ اٹهایا گیا
اصل میں ہودبهائی کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو امریکی امپریلسٹ پالسیوں اور اس کے فیک لبرل ازم کا پردہ فاش کرنے والے ایک آنکه نہیں بهاتے ، اور وہ لیفٹ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نیولبرل ازم پر مبنی پالسیوں پر تنقید اور مخالفت سے بیزار نظر آتے ہیں پاکستان میں ایسا جعلی لیفٹ موجود ہے جو ہود بهائی کی اس کهلی سامراج نوازی اور نیولبرل ازم سے عشق پر دم سادهے رہتا ہے کیونکہ اسے اس قسم کے نیولبرل ازم سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے لبرل فاشزم کو جب بے نقاب کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو وہ لیفٹ کو خواہ مخواہ طالبان اور تکفیریوں کے ساته نتهی کرتا ہے جبکہ ان کا اس طرح کے عناصر سے کچه لینا دینا نہیں ہے بلکہ اس لیفٹ نے نیولبرل ازم کو غیر اعلانیہ طور پر قبول کرلیا ہے