ترکی کا تیرہ سالہ لڑکا جسے اس کی ماں نے داعش میں شامل ہو کر تمام غیر وہابی غیردیوبندی کو قتل کرنے کے لئے تیار کیا ہے

141106122456_kid1sm

ترکی کے جنوبی علاقے میں واقع ایک مکان کے تنگ سے کمرے میں ایک 13 سالہ لڑکا شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

جب اس نے ہمیں یہاں خوش آمدید کہا تو بظاہر وہ خوش باش نظر آیا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس نے بھورے رنگ کی ٹوپی والی جرسی پہن رکھی تھی۔

تاہم جب ہم اس سے بات کرنے کے لیے بیٹھے تو وہ دوسرے کمرے میں لباس تبدیل کرنے چلا گیا۔ واپسی پر اس نے فوجیوں جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا تعارف ابو خطاب کے طور پر کرایا جائے۔

وہ شام میں پیدا ہوا تھا اور اس نے گذشتہ سال انتہاپسندی کی جانب راغب ہونے کے بعد شدت پسند تنظیم ’شام الاسلام‘ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

اس نے شرعی تعلیم اور ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کی۔ اس نے ہمیں ایک تصویر دکھائی جس میں اس نے ایک مشین گن پکڑ رکھی تھی۔

اب یہ انٹرنیٹ پر آن لائن رہتا ہے جہاں وہ جہادی ویڈیوز دیکھتا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں سے بات چیت کرتا ہے۔

اس نے ہمیں بتایا کہ وہ چند ہفتوں کے اندر دولتِ اسلامیہ کے مضبوط گڑھ شامی شہر رقہ پہنچ کر جہادی بن جائے گا۔

ابو خطاب کے مطابق وہ دولتِ اسلامیہ کو اس وجہ سے پسند کرتا ہے کہ وہ شریعت کو فروغ دیتے ہیں اور ان کفار کو مارتے ہیں جو سنی مسلک سے نہیں ہوتے اور جو اسلام ترک کر کے دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں۔

’دولتِ اسلامیہ نے جن لوگوں کو مارا ہے وہ امریکی ایجنٹ تھے اور جیسا کہ اللہ نے قرآن میں کہا ہے ان کے سر لازمی قلم کر دینے چاہیں۔‘

اس سوال پر آیا اس نے ان لوگوں کو اپنی عمر کے بارے میں بتایا ہے جن سے وہ انٹرنیٹ پر بات کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ ’شروع میں نہیں بتایا تھا لیکن حال ہی میں ان کو اپنی عمر کے بارے میں بتایا ہے اور اب وہ مجھ سے پہلے زیادہ رابطے کرتے ہیں اور مجھے تصاویر اور خبریں بھیجتے ہیں۔‘

اس سے ایک اور سوال کیا کہ وہ سادگی سے اپنا بچپن کیوں نہیں گزارتا۔ تو اس پر ابو خطاب نے جواب دیا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر نہیں جانا چاہتا اور تفریح نہیں کرنا چاہتا: ’اللہ نے ہمیں کام کرنے اور اگلی زندگی یعنی جنت کے لیے لڑنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پہلے میں پارک وغیرہ چلا جاتا تھا لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں غلط ہوں تو نیکی کا راستہ چن لیا۔‘

ابو خطاب کا خاندان اس وقت ترکی میں رہائش پذیر ہے۔ تو کیا وہ ترکی میں حملہ کرے گا یا مثال کے طور پر برطانیہ میں؟

اس پر اس نے کہا: ’برطانیہ پر حملہ کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ نیٹو کا رکن ملک اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف ہے، لیکن صرف ان کو ماریں گے جو اس کے مستحق ہوں گے۔ اگر وہ مجھے ترکی میں حملہ کرنے کا کہیں گے اور مجھے مقدس حکم دیں گے تو میں اس پر عمل کروں گا۔ جلد ہی مغرب ختم ہو جائے گا۔‘

ابو خطاب اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ ان کو فاطمہ کے نام سے پکارا جائے۔

فاطمہ اپنا زیادہ وقت قرآن کی تلاوت میں گزارتی ہیں اور انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کی شدت پسندوں سے خاصی گہری ہمدردیاں ہیں۔

گذشتہ سال فاطمہ نے اپنے بیٹے کو شدت پسند تنظیم شام الاسلام کے ساتھ تربیت کے لیے بھیجا تھا لیکن اس کی برین واشنگ کرنے سے انکار کیا۔

انھوں نے اصرار کیا کہ انھوں نے اپنے بیٹے پر کبھی دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے پر زور نہیں دیا:

’میں ان کے بعض عقائد کی حمایت کرتی ہوں لیکن دوسروں کی نہیں، لیکن میرے خیال میں دنیا بھر میں برائی کے برعکس وہ شامی لوگوں کی مدد کے لیے آئے ہیں۔‘

اگر وہ اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی ہیں تو اس کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں جو اپنا بچپن بے پناہ تشدد میں کھونے جا رہا ہے؟

اس پر فاطمہ نے کہا اگر وہ لڑنے کے لیے جا رہا ہے تو وہ اسے نہیں روکیں گی:

’جنگ میں بچے تیزی سے بڑے ہوتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ مستقبل میں بڑا رہنما بنے، یعنی امیر۔‘

آہستہ آہستہ ان کی آواز میں شدت آتی گئی اور نقاب میں ان کی آنکھیں غصے سے سکڑتی گئیں:

’مجھے بالکل کوئی افسوس نہیں ہو گا اگر میرا بیٹا مغربیوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ مجھے شرمندگی ہے کہ میرے دوسرے بیٹے بڑے سکون سے برائی کے لیے کام کر رہے ہیں اور انھیں بھی ہتھیار اٹھانا ہوں گے۔‘

اگر ان کا بیٹا دولتِ اسلامیہ کے لیے لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے تو وہ کیسا محسوس کریں گی؟

ایک وقفے کے بعد انھوں نے جواب میں رونے کے لیے اپنا سر نیچے جھکاتے ہوئے کہا: ’مجھے خوشی ہو گی۔‘

اقوام متحدہ کی گذشتہ ماہ کی رپورٹ کے مطابق دولتِ اسلامیہ وسیع پیمانے پر بچوں کو بھرتی کر رہی ہے اور بعض اوقات ایسا زبردستی بھی کیا جاتا ہے۔

دولتِ اسلامیہ کی جانب سے انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مکمل فوجی حلیے میں بچوں کی ایک بٹالین نے ہتھیار پکڑ رکھے ہیں اور دولتِ اسلامیہ کے کالے جھنڈے کے قریب کھڑے ہیں۔

دوسرے شدت پسند گروپ بھی بچوں کو بھرتی کر رہے ہیں اور حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ گروپ بچوں کو خودکش حملہ آور اور نشانہ بازوں کے طور پر تعینات کر رہے ہیں۔

ترکی کے جنوبی شہر غازی عنتاب میں ہماری ملاقات شامی سول سوسائٹی کے ایک کارکن سے ہوئی جس نے 13 اور 15 سال کے دو بچوں کو القاعدہ سے منسک شدت پسند تنظیم النصرہ کے لیے بھرتی مہم کا شکار ہوتے دیکھا۔

21 سالہ محمد نے ایک ویڈیو دکھائی جس میں اس کا چھوٹا بھائی شدت پسندوں کے ایک گروپ کے ساتھ بھاری خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کر رہا تھا۔ ایک دوسری تصویر میں وہ ایک مشین گن تھامے کھڑا تھا۔

محمد کے مطابق اس نے اپنے بھائی کو النصرہ میں شامل ہونے سے منع کیا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس نے میری بالکل کوئی پروا نہیں کی۔

اسے سکول میں ہونا چاہیے تھا۔ النصرہ بچوں کو شامل ہونے پر ماہانہ ایک سو ڈالر کی پیشکش کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہ انھیں کیمپوں میں تربیت کے ساتھ ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔

دونوں بھائیوں کو حال ہی میں دولتِ اسلامیہ نے پکڑ لیا ہے۔ محمد کو ڈر ہے کہ جلد دولتِ اسلامیہ کے لیے لڑنا شروع کر دیں گے۔

’میں اپنے بھائی کے ساتھ تفریح کیا کرتا تھا لیکن پھر وہ تبدیل ہو گیا اور جب میں نے اس کہا کہ النصرہ ملک کو تباہ کر کے رکھ دے گی تو اس نے مجھ پر چلّاتے ہوئے کہا کہ بکواس بند کروں ورنہ میں تمھیں مار ڈالوں گا۔‘

محمد کے مطابق اس نے اپنے دونوں بھائیوں کو وداع کیا جو النصرہ میں شمولیت اختیار کرنے جا رہے تھے: ’میں سوچتا ہوں کہ میں انھیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھو سکوں گا اور مجھے خبر ملے گی کہ وہ دونوں مارے گئے ہیں۔‘

شام کی جنگ میں ایک پوری نسل متاثر ہو رہی ہے اور شدت پسند بچوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے شکار کر رہے ہیں اور ان کی معصومیت چھینی جا رہی ہے۔

جب میں ابو خطاب کے گھر سے نکل رہا تھا تو میں نے اس کی والدہ فاطمہ سے پوچھا کہ جب ان کا بیٹا اب سے قدرے چھوٹا تھا تو وہ بڑا ہو کر کیا بننا چاہتا تھا، تو اس پر فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا: ’پائلٹ۔

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/11/141106_islamic_state_13_years_righteous_zz

Comments

comments