سندھ کے ہندو ذاکر کی آخری خواہش
صحرائے تھر کے ایک چھوٹے قصبے میں کچھ لوگ بجلی کے منتظر ہیں، ان لوگوں کے وسط میں ایک شخص سیاہ قمیض اور سفید شلوار میں ملبوس ہے، اس کے ساتھ اس نے فقیری ویسٹ کوٹ بھی پہنا ہوا ہے۔
بالاخر بجلی آگئی اور امام بارگاہ، علم میں لگے ہوئے بلبوں سے روشن ہوگئی اور مجلس کا آغاز ہوا۔ یہ مجلس اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس کا ذاکر کوئی مسلمان نہیں بلکہ ایک ہندو شخص روی شنکر ہے۔
روی شنکر نے واقعہ کربلا میں پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین کے فرزند علی اکبر کی شخصیت پر نظمیہ انداز میں روشنی ڈالنا شروع کردی اور شرکا ہاتھ اٹھا اٹھا کر اس کو داد دیتے رہے۔
ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت تھر اور اس کے قریبی ضلع عمرکوٹ میں شرکا بلا خوف وہ خطر ماتمی جلوسوں اور مجالس میں شرکت کرتے ہیں، جن میں ہندو کمیونٹی کے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔ یہ ہم آہنگی پاکستان میں نایاب ہوچکی ہے جو سندھ کے اس علاقے میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔
روی شنکر کسی عام مسلمان سے مذہب اسلام کے قصے کہانیوں اور روایت کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں، انھوں نے 70 کی دہائی سے عزا داری کی ابتدا کی۔
’میں دمے کے مرض میں مبتلا تھا، چھاچھرو میں ایک مزار پر حاضری دی اور منت مانگی بعد میں طبیعت میں بہتری آئی جس کے بعد سے میں اسی رنگ میں رنگا گیا۔‘
روی شنکر نے محکمہ بلدیات میں ملازمت اختیار کی اور ان کا تبادلہ میرپور خاص شہر میں کر دیا گیا، 90 کی دہائی سے انھوں نے مجالس پڑھنے کا آغاز کیا لیکن اس کے لیے انھوں نے کسی مدرسے یا جامعہ سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ ذاتی مطالعے سے معلومات حاصل کی۔
روی شنکر کے مطابق انھوں نے مرزا سلامت علی دبیر، میر انیس اور دیگر مستند ذاکرین اور علما کی کتابوں کا مطالعہ کیا لیکن وہ ہندو شعرا دیوی روپ کماری اور دیگر سے زیادہ متاثر ہوئے۔
سندھ کے علاوہ وہ جھنگ، اوکاڑہ، عارف والا، راولپنڈی، لاہور اور خیبر پختون خوا میں بھی مجالس پڑھ چکے ہیں۔
روی شنکر بتاتے ہیں کہ انہیں احباب کہتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور کوہاٹ میں طالبان ہیں وہ تمہیں مار دیں گے، لیکن میں انھیں کہتا ہوں کہ مجھے چاہیے ہی موت، کیونکہ عام موت سے شہادت بہتر ہے اگر وہ بھی آل محمد کی پیروی میں مل جائے تو راہ نجات ہے۔
پنجاب کے کچھ شہروں میں ایک ہندو کے ذاکر ہونے پر اعتراض کیا لیکن روی شنکر انہیں جھنگ کے عالم علامہ نسیم عباس رضوی کا حوالہ اور رابطہ نمبر دیتے تھے جن کو وہ اپنا استاد بھی تسلیم کرتے ہیں۔ بقول روی شنکر کے علامہ نسیم سے رابطہ کرکے لوگ خاموش ہوجاتے تھے، لیکن اب علامہ نسیم کا انتقال ہوچکا ہے۔
مجالس پڑھنے والے بعض ذاکرین کو منتظمین نذارانہ یعنی فیس بھی ادا کرتے ہیں لیکن روی شنکر کہتے ہیں کہ وہ کمرشل نہیں جو معاوضہ لیں وہ صرف اہل بیت کی عقیدت اور محبت میں مجالس میں شریک کرتے ہیں، وہ متنازع تقریر نہیں کرتے بقول ان کے وہ اپنا عقیدہ چھوڑتے نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑتے نہیں۔
روی شنکر پچھلے دنوں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے انہیں پینشن کے جو سات آٹھ لاکھ روپے ملے وہ انھوں نے امام بارگاہ کی تعمیر پر لگا دیے اب وہ خود بھی متولی ہیں، روی شنکر کے مطابق ان سے چھاچرو کی مقامی امام بارگاہوں کے بعض متولی خفا ہیں جو اعتراض پہلے مخالفین کرتے تھے اب وہ بھی کرنے لگے ہیں۔
روی شنکر کی آخری خواہش ہے کہ ان کی فقہ جعفریہ کے مطابق نمازے جنازہ ادا کی جائے اور اسی امام بارگاہ میں تدفین ہو جس کی انھوں نے تعمیر کی ہے۔
’جن کے ساتھ میں گذشتہ کئی سالوں سے جمعہ نماز پڑھتا ہوں، ان پر واجب ہے کہ وہ میری نمازِ جنازہ ادا کریں اگر وہ یہ نہیں کرتے تو میرے بچے کسی اور کو بلا کر نمازِ جنازہ ادا کردیں گے۔‘
روی شنکر پاکستان کو دو دہائی پہلے جیسا دیکھنا چاہتے ہیں جب عقیدے کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں تھی، سب بھائیوں کی طرح رہیں اور پاکستان کا دنیا میں وقار بحال کریں۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141102_thar_hindu_zakkir_tk