تعزیہ سازی اور عاشور کے جلوس شیعہ – سنّی مشترکہ روائت

11

برصغیر میں تعزیہ سازی کی روائیت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ جلتا ہے کہ اس کی اول روائت مغل بادشاہ تیمور نے اپنے دور حکمرانی 1370ء – 1405ء میں رکھی تھی کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی میں امیر تیمور نے کربلا عراق کا دورہ کیا اور وہاں سے حضرت امام حسین کی شبیہ دہلی لیکر آئے اور اس شبیہ پر خاک کربلا سے پلاسٹر کیا گيا اور اس شبیہ کو مغلیہ طرز تعمیر کے مطابق بعد میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسی شبیہ کے ساتھ مغلیہ طرز تعمیر کے ساتھ 50 فٹ سے بھی زیادہ اونچے تعزئے تعمیر کئے جاتے رہے اور یوں امیر تیمور کی پیروی میں ہندوستان بھر میں تعزیوں کی تعمیر کی روائت پڑگئی اور لکڑی کے ساتھ ساتھ کھجور کے تنے ، گتوّں اور پلاسٹک کین کے ساتھ بھی تعزئے بنائے جانے لگے جن کو عاشور کے دن دریا برد کردیا جاتا تھا اور اسے تعزیہ ٹھنڈا کرنے کی رسم بھی کہتے ہیں

امیر تیمور عاشورہ محرم میں حضرت امام حسین کی یاد میں ہر سال کربلاجاتے اور وہاں پر چالیس روز تک قیام کرتے تھے ، ایک مرتبہ جب وہ اپنی بیماری کے سبب کربلا نہ جاسکے تو انھوں نے شبیہ مزار امام حسین پر مبنی تعزیہ تیار کروایا اور اس تعزیہ اور کالے ، سفید ، سرخ جھنڈوں اور علم عباس کے ساتھ دھلی میں شہادت امام حسین کی یاد میں جلوس نکالا اور اس جلوس میں شیعہ و سنّی سب شریک ہوئے اور اس طرح سے مغلیہ دور میں تعزیوں کے ساتھ جلوس کی روائت پڑگئی جبکہ امیر تیمور کے دور میں تعزیہ میں نیچے امام حسین کے روضے کی شبیہ کا جو رواج پڑا تھا وہ آج تک قائم ہے

امیر تیمور کے دور کے بعد مغلیہ دور کے تمام تر عرصہ اور پھر نوآبادیاتی دور میں اور آج تادم تحریر تک تعزیہ سازی کی یہ رسم جاری و ساری ہے اور اسی طرح محرم الحرام میں تعزیوں کا جلوس برآمد ہوتا ہے تعزیہ سازی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر تعزیے مغلیہ دور سے ہی شیعہ کی بجآئے سنّی حضرات کی جانب سے بنائے جاتے ہيں اور آج بھی ہندوپاک میں اکثر قدیم ترین تعزیوں کے لائسنس دار سنّی بریلوی حضرات ہی ہیں لیکن اس سے ہٹ کر تعزیہ سازی ميں ہندؤں ، سکھوں نے بھی اپنا حصّہ ڈالا

تعزیہ سازی میں رام پور ، حیدآباد دکن ، لکھنؤ اور ملتان نے عالمگیر شہرت حاصل کی -ملتان میں استاد اور شاگرد کے تعزیے برصغیر کے قدیم ترین تعزیوں میں شمار ہوتے ہیں برطانوی حکومت نے برصغیر میں تعزیہ کا پہلا لائسنس 1860ء میں جاری کیا اور یہ لائسنس ملتان میں استاد کے تعزیے کو جاری ہوا تھا – استاد مندو خان جوکہ سنّی تھا نے یہ تعزیہ 1812ء میں بنانا شروع کیا اور اس کی تکمیل 1825ء میں مکمل ہوئی اور استاد مندو خان نے یہ تعزیہ اپنے 22 ساتھیوں کی مدد سے تیار کیا تھا

اس دوران استاد مندو خان کا شاگرد سلمان علی جو خود بھی سنّی تھا نے چپکے سے اپنا تعزیہ بنانا شروع کردیا اور بالآخر 1854ء میں اسے مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا استاد کا تعزیہ 27 فٹ لمبا تھا اور اس کی سات منزلییں تھیں اور یہ تمام تر ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا تھا جبکہ شاکرد کا تعزیہ استاد سے زیادہ لمبا یعنی 32 فٹ تھا -بعد میں شاکرد کا تعزیہ 1944ء میں آگ لگنے سے شہید ہوگیا جسے ملتان کے گردیزی خاندان نے مرمت کرایا جبکہ استاد کا تعزیہ 189 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور ہر سال استاد و شاگرد کے تعزيے دس محرم الحرام کے جلوس میں نکالے جاتے ہیں ، استاد کے تعزیے کو 150 جبکہ شاگرد کے تعزیے کو 200 افراد اٹھاتے ہیں ، استاد کا تعزیہ جلوس کے آگے اور شاگرد کا تعزیہ جلوس کے پیچھے احترام کی وجہ سے رکھا جاتا ہے

استاد کا تعزیہ کا لائسنس خلیفہ الطاف حسین اور شاگرد کے تعزیہ کا لائسنس رئیس احمد کے پاس ہے اور یہ دونوں سنّی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں
ہر سال تعزیوں کو تیار کرنے میں ایک لاکھ روپے کے قریب اخراجات لگتے ہیں جبکہ ان کو تیار کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں ، کیونکہ محرم الحرام کے بعد ان کو پانچ حصّوں میں کھول کر رکھ دیا جاتا ہے اور ہفتہ وار ان کی صفائی و ستھرائی کی جاتی ہے

استاد کا تعزیہ ملتان میں محلّہ پیر قاضی جلال اندرون پاک گیٹ سے برآمد ہوتا ہے جبکہ شاگرد کا تعزیہ یوم عاشور پر خونی برج ملتان سے برآمد ہوتا ہے
ملتان میں تعزیہ امیر شاہ والا بھی سو سال پرانا اور تعزیہ پیر شاہ 300 سال پرانا ہے ، تعزیہ کوڑے شاہ بھی قدامت کے اعتبار سے بہت قدیم ہے ، جبکہ تعزیہ کاشی گراں 150 سال پرانا ہے جس کو امام بارگاہ حسین آباد دولت گیٹ پر رکھا جاتا ہے – جبکہ تعزیہ حیدری کمیٹی ، امام بارگاہ جوادیہ ، وارث شاہ والا ، تعزیہ جان محمد ، تعزیہ خلاصی لاغن اور دیگر بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں

ملتان میں عاشور کے 20 قدیم ترین تعزیوں کے لائسنس ہیں جن میں 16 کے لائسنس ہولڈر سنّی بریلوی ہیں جن میں استاد ، شاکرد کے پاک و ہند مین مشہور تاریخی تعزیے بھی شامل ہیں جبکہ ملتان میں عاشور کے جتنے جلوس برآمد ہوتے ہیں جن کی تعداد 150 ہے ان میں سے 99 جلوس سنّی بریلوی نکالتے ہیں اور ان کے لائسنس بھی ان کے ہی پاس ہیں
ملتان میں محرم الحرام سے ہٹ کر 8 ربیع الاول کو امام حسن عسکری کی یاد میں چپ کا قدیمی تعزیہ کا جلوس بھی برآمد ہوتا ہے اور یہ ناصر آباد امام بارگاہ جھک ملتان سے نکلتا ہے ، امام حسن عسکری امام مہدی کے والد تھے جن کو 28 سال کی عمر میں زھر دے کر شہید کردیا گیا تھا اور وہ آٹھ ربیع الاول کا دن تھا اور اس دن کی مناسبت سے چپ کا تعزیہ سب سے پہلے لکھنؤ ميں نکلا تھا

اس تفصیل سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عاشور ميں تعزیہ سازی اور جلوس کا نکالنا شیعہ اور سنّی دونوں کی مشترکہ روائت ہے اور یہ دونوں محرم الحرام میں شیعہ – سنّی اتحاد اور اشتراک کی سب سے بڑی علامت ہیں اور دیوبندی وہابی ملّاؤں کے اس پروپیگنڈے میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ تعزیہ سازی اور جلوس عاشور محض شیعہ کی روائت ہے

اس حوالے سے بی بی سی اردو کی یہ تحقیق بہت اہم ہے جس میں مختلف تعزیوں اور ان کی تاریخ کا بتایا گیا ہے

1

ملتان کا شمار پاکستان کے اُن شہروں میں ہوتا ہے جہاں یومِ عاشور کے موقع پر ایک بڑی تعداد میں ماتمی جلوس نِکالے جاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے ذوالجناح، علم اور تعزیے کے لگ بھگ چارسو دس ماتمی جلوس نکلتے ہیں جن میں بڑی تعداد تعزیے کےجلوسوں کی ہوتی ہے۔
2
تین سو سے اوُپر نکالے جانے والے تعزیوں میں نمایاں مقام اندرونِ شہر کے پاک گیٹ سے برآمد ہونے والے قدیمی اُستاد اور شاگرد کے تعزیوں کو ہی حاصل ہے ۔اِن میں سے اُستاد کا تعزیہ ایک سو اسی سال پُرانا بتایا جاتا ہے ۔ شاگرد کا تعزیہ بھی اِتنا ہی پرانا تھا لیکن یہ ایک دفعہ گِر کر اور دوسری دفعہ جل کر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا ۔
186859e551f8dbbe92ebd974d1f050633a0983db
اُستاد کے تعزیے کی دیکھ بھال آجکل خلیفہ الطاف حُسین جبکہ شاگرد کے تعزیے کی حفاظت غلام محبوب کے ذمّہ ہے ۔ یہ رضا کارانہ ذمّہ داری دونوں حضرات وراثتی طور پر نبھا رہے ہیں اور اِن کے بعد اِن کی اولاد کو منتقل ہو جائے گی ۔ اِن سے پہلے اِن کے آباؤاجداد یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں ۔دونوں خاندانوں کا تعلق سُنی فرقے سے ہے

4

روایت کے مطابق لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اُستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین سے عقیدت کے اظہار کے لیے اٹھارہ سو پچیس میں یہ شاندار تعزیہ تیار کیا تھا ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اُستاد کو اِس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں پانچ سال کا عرصہ لگا تھا جبکہ بعض لوگ یہ مُدت سولہ سال بتاتے ہیں ۔

94d2ee59465495ab807287645f669babf03b7a52

شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کے بارے معلومات کم ہی دستیاب ہیں ۔ تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے اُن کا نام اِلہی بخش تھا اور وہ اُستاد پیر بخش کے شاگردوں کی اُس ٹیم کا حصہ تھے جِس نے اُستاد کا تعزیہ تیار کیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اِلہی بخش دِن میں اُستاد کے ساتھ کام کرتے اور رات میں ایک خفیہ جگہ پر ویسا ہی تعزیہ بنانے میں جُٹے رہتے ۔

6

اُستاد کا تعزیہ مکمل طور پر ہاتھ سے بنا ہوا ہے اور اپنی اصل حالت میں موجود ہے ۔ پچیس فُٹ بلند اور آٹھ فُٹ چوڑے اِس تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اور ہر منزل ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہیں ۔اُستاد کے تعزیے کی جُڑت میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوتی بلکہ مختلف حصوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے فن کا یہ نمونہ مکمل کیا جاتا ہے

7

اُستاد کے تعزیے کے کچھ عرصہ بعد ہی شاگرد کا تعزیہ بھی تیار تھا اور یوں ایک لازوال روایت کا آغاز ہوتا ہے جو کم و بیش دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی قائم ہے ۔ ملتان میں آج بھی تعزیوں کے مرکزی جلوس کی قیادت اُستاد کا لافانی تعزیہ کرتا ہے جِس کے پیچھے شاگرد کا تعزیہ اور پھر دوسرے تعزیے ہوتے ہیں

8

شاگرد کے تعزیے کی اونچائی بھی پچیس فُٹ ہے جبکہ چوڑائی ساڑھے آٹھ فُٹ ہے ۔لیکن شاگرد کا موجودہ تعزیہ مشین کی مدد سے تیار کردہ ہے جو انُیس سو چوالیس میں اُس وقت بنایا گیا جب شاگرد کے تعزّیے کو پراسرار طور پر آگ لگی اور وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ۔اِس کی بھی چھ منزلیں ہیں اور اُستاد کے تعزیے کی طرز پر یہ بھی لاتعداد محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہے

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/858_tazia_multan_zs/index.shtml

شفقنا اردو نے اس حوالے سے یہ تفصیلات اپنے پورٹل پر درج کی ہیں

 

9

ملتان سرائیکی تہذیب و ثقافت کا قدیم ترین مرکز ہے-اور اس تہذیب و ثقافت کا ایک طاقتور اظہار عاشورہ بھی ہے-اور یہ عاشورہ جس ثقافت کا مظہر ہے وہ شمار کرنے والے بیانئے پر مشتمل ہے نہ کہ خارج کرنے والے بیانئے پر-عاشورہ ایسا ثقافتی مظہر ہے جس کا عکس سرائیکی سماج کے تمام طبقات پر نظر آتا ہے-اور سوگواریت کی ثقافتی لہر ان سب پر اپنا اثر دکھاتی نظر آتی ہے-

ملتان میں دس محرم الحرام کو 144 جلوس نکلتے ہیں جن میں سے 99 جلوس اہل سنت بریلوی نکالتے ہیں جبکہ باقی اہل تشیع نکالتے ہیں-جبکہ ملتان میں 114 تعزیے نکالے جاتے ہیں جن میں اہل تشیع کے 16 اور اہل سنت کے 98 تعزیے نکلتے ہیں-برصغیر میں معروف ترین استاد اور شاگرد کے تعزیے بھی اہل سنت بریلوی کے ہیں-استاد کا تعزیہ 200 سال قدیم ہے-جبکہ شاگرد کا تعزیہ 70 سال پرانا ہے کیونکہ یہ 70 سال قبل آتشزدگی کا شکار ہوگیا تھا-ملتان میں اب سب سے قدیم تعزیہ کوڑے شاہ کا ہے اور یہ 300 سال قدیم تعزیہ ہے –آستانہ عبداللہ والا محلہ لودھی پورہ کا تعزیہ اور تعزیہ امیر شاہ و تعزیہ عظیم شاہ سو ،سو سال قدیم تعزیے ہیں-تعزیہ پیر لعل شاہ 200 سال قدیم ہے اس کو امیر تیمور کے دور میں بنایا گیا تھا-تعزیہ کاشی گراں 150 سال پرانا ہے-تعزیہ حیدری کمیٹی،تعزیہ امام بارگاہ جوادیہ ،وارث شاہ والا اور کمنگراں بھی قدیمی تعزیوں میں شمار ہوتے ہیں-استاد کا تعزیہ محلہ پید قاضی جلال اندرون پاک گیٹ میں اور شاگرد والا آستانہ خونی برج میں رکھا-

عیسائی برادری کے معروف وکیل اور شاعر دانشور ادیب 77 سالہ عبدالقیوم بھٹی کہتے ہیں کہ وہ پاکستان بنتے وقت 11 سال کے تھے اور وہ جس گاؤں میں رہتے تھے وہ عیسائی کمیونٹی کا اکثریتی گاؤں تھا جہاں عاشور پوری عقیدت اور احترام سے منایا جاتا تھا اور دس دن سوگ کا سماں رہتا تھا اور اس مہینے میں شادی کا رواج نہ تھا اور خوشی و مسرت والی کوئی تقریب نہیں ہوتی تھی- سمارٹ اسکول کی پرنسپل رومانہ کہتی ہیں کہ وہ مسلم شیعہ زنانہ مجلس میں شرکت کرتی تھیں اور ان کی آواز میں سوز ہونے کے باعث ان کو نوحہ پڑھنے کو کہا جاتا تھا-اب بھی 9 اور 10 محرم کو ان کے ہاں کھانا نہیں پکتا بلکہ نیاز آتی ہے نواب مطلوب خاں کے گھر سے اور روزنامہ حقیقت ملتان کے ایگزيگٹو ایڈیٹر عامر فہیم اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جب چھوٹے تھے تو ان کی دادی ان کو امام حسن و حسین کا ہر محرم میں فقیر بناتی تھیں –

شکنتلا کہتی ہیں کہ ان کے بزرگ پاکستان بننے سے قبل بھی اور بعد میں وہ بھی محرم کے پہلے عشرے کو سوگ اور غم کے عشرے کے طور پر مناتے آئے ہیں-اس ماہ میں ان کے ہاں بھی امام حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کی روائت چلی آرہی ہے-حسینی برہمن کے حوالے سے جو روائت موجود ہے اس سے بھی ہندؤ برادری میں اہل بیت سے عقیدت کا اظہار پایا جاتا ہے- پیر مظفر بخاری کہتے ہیں کہ سرائیکی وسیب پر سادات اور محبان اہل بیت اطہار کے اثرات کی تاریخ بہت پرانی ہے-اور یہ خطہ ہمیشہ سے شیعان علی کی تحریکوں کا مرکز رہا اور اس تحریک نے اس خطے کی ثقافت کو بہت متاثر کیا- معروف شاعر اور ادیب رفعت عباس کا کہنا ہے کہ سرائیکی وسیب حملہ آوروں کی لوٹ مار اور قتلام کا نشانہ بنتا رہا اور اس پس منظر میں جب واقعہ کربلاء والی ٹریجڈی یہاں آئی تو اس کو اسی پس منظر میں دیکھ کر اپنی تہذیب و ثقافت کا حصّہ وسیبیوں نے بنایا اور آج یہ المیاتی سانحہ ایک متھ بنکر اس ثقافت کی روح بنا ہوا ہے- پروفیسر شمیم عارف قریشی کہتے ہیں کہ عاشورہ سے پھوٹنے والا کلچر اس خطے کے ثقافتی مزاج سے مناسبت رکھتا ہے تبھی تو یہ یہاں رچ بس گیا-

بریلوی سنّی عالم مولانافتح محمد حامدی کہتے ہیں کہ عاشورہ اہل سنت کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اہل سنت اس کو بھرپور عقیدت اور فرط غم سے مناتے آئے ہیں-زکر حسین کی محافل کا انعقاد ہوتا ہے-10 محرم کو جلوس نکالے جاتے ہیں جس میں واقعہ کربلاء کی مناسبت سے تعزیے،علم اور شبیہ تیار کی جاتی ہیں اور سارے واقعات کو دھرایا جاتا ہے-چاول،حلیم ،نان اور دال کی نیاز دلوائی جاتی ہیں-اور یہ سب امور عند اللہ مقبول ہیں-معروف صحافی ،دانشور حیدر جاوید سید کہتے ہیں کہ محرم الحرام کی ثقافتی لہر نے سرائیکی خطے پر اپنا اثر ڈالا اور یہ یہاں کی ثقافتی رمز کے عین مطابق ہے-جبکہ یہاں 80ء اور 90ء کی دھائی میں جو آل سعود کے زیر اثر ثقافت لانے کی کوشش ہوئی وہ اس خطے کے مزاج سے بالکل مختلف تھی-اور یہ اجنبی اور بے گانہ خارجی ثقافت آج تک اس خطے کی اکثریت نے قبول نہیں کی ہے-اور اس کے خلاف مزاحمت دکھائی ہے-ان کا کہنا ہے سرائیکی خطے میں مذھبی شدت پسندی اور خارجیت اس خطے کی پیداوار نہیں بلکہ سعودی عرب سے درآمد شدہ ہے

Source:

http://ur.shafaqna.com/islam-world/item/26630-%D9%85%D9%84%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85.html?tmpl=component&print=1

اسلام ٹائمز نے تعزیوں اور عزاداری کی تاریخ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے

اسلام ٹائمز: عرب اور ایران کے بعد دنیا میں برصغیر ہی عزاداری کا سب سے بڑا مرکز رہا اور یہاں اس کا آغاز دکنی ریاستوں گولکنڈہ اور بیجاپور سے ہوا اور اسمیں شاہان اودھ کے علاوہ بنگال کے نوابوں کا بھی اہم کردار رہا جبکہ پنجاب میں عزاداری کے فروغ میں یہاں کے سادات کا بڑا عمل دخل ہے۔ سندھ کے علاقے میں یہ تاریخ نہایت قدیم ہے اور کہا جاتا ہے کہ مولا علیؑ کے عہد خلافت میں سندھ کا ایک حکمران شنسب مسلمان ہو گیا تھا اور مولا علیؑ نے اسے اسکی سلطنت کے ساتھ بحال رکھا اور اب یہ شنسب پہلا شخص تھا جس کا پورا خاندان موالیان علیؑ میں سے تھا اور بنو امیہ کے عہد میں بھی یہاں محبت اہلبیتؑ روشن تھی۔ اسی طرح سندھ کی عزاداری کی تاریخ میں فاتح سندھ حارث بن مرہ العہدی کے نام کے علاوہ ایک ایسی سندھی خاتون کا بھی نام آتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علیؑ ابن الحسینؑ امام زین العابدین کے نکاح میں تھیں اور جنکے بطن سے زید شہید پیدا ہوئے تھے۔

یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ دنیا میں پہلا عزا خانہ کہاں قائم ہوا تھا لیکن قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ پہلا عزا خانہ عراق کے شہر بغداد میں معزالدولہ ویلمی بویہی نے ہی بنوایا تھا۔ تاریخ میں مراکش کے کچھ قدیم ترین عزا خانوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے لیکن ان تذکروں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کیا دنیا کا پہلا معلوم عزا خانہ کیا کہیں قائم ہوا تھا؟ جسٹس امیر علی تاریخ کی کتاب ‘‘ہسٹری آف سیراسنز599‘‘ کیمطابق پہلی امام بارگاہ مصر کا شہر قاہرہ آباد کرنے والے شاہ المعز نے تعمیر کروائی، مصر کے فاطمی بادشاہوں نے جب قاہرہ کے محلات تعمیر کروائے تو انکے ساتھ مجالس عزا کے لئے مخصوص عمارتیں بھی بنوائیں۔ برصغیر میں مجالس اور عزاخانوں کا وجود تیمور سے بہت پہلے پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ  بھارت میں مسلم حکومت کی ابتدا سے ہی کسی شیعہ حاکم نے کوئی عزا خانہ تعمیر کروایا ہو لیکن تغلق عہد میں یہ بات ثبوت کے ساتھ ملتی ہے۔ بھارت کے شہر لکھنؤ کے عزاخانوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں شہرہ آفاق عزا خانوں میں عزا خانہ آصفی، چھوٹے امام باڑے، شاہ نجف اور امام باڑہ سبطین آباد مبارک شامل ہیں۔ تیمور کے زمانے میں 803 ہجری کے محرم میں تعزیہ داری کی بنیاد رکھی گئی اور پہلے پہل مٹی کا تعزیہ بنایا گیا اور پھر لکڑی کے تعزیے بنے اور شاید اسی لئے ایک خاص قسم کے تعزیے کو تیموری تعزیہ کہا جانے لگا۔

عرب اور ایران کے بعد دنیا میں برصغیر ہی عزاداری کا سب سے بڑا مرکز رہا اور یہاں اس کا آغاز دکنی ریاستوں گولکنڈہ اور بیجاپور سے ہوا اور اسمیں شاہان اودھ کے علاوہ بنگال کے نوابوں کا بھی اہم کردار رہا جبکہ پنجاب میں عزاداری کے فروغ میں یہاں کے سادات کا بڑا عمل دخل ہے۔ سندھ کے علاقے میں یہ تاریخ نہایت قدیم ہے اور کہا جاتا ہے کہ مولا علی کے عہد خلافت میں سندھ کا ایک حکمران شنسب مسلمان ہو گیا تھا اور مولا علی علیہ السلام نے اسے اسکی سلطنت کے ساتھ بحال رکھا اور اب یہ شنسب پہلا شخص تھا جس کا پورا خاندان موالیان علی علیہ السلام میں سے تھا اور بنو امیہ کے عہد میں بھی یہاں محبت اہلبیت (ع) روشن تھی۔ اسی طرح سندھ کی عزاداری کی تاریخ میں فاتح سندھ حارث بن مرہ العہدی کے نام کے علاوہ ایک ایسی سندھی خاتون کا بھی نام آتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علی ابن الحسین امام زین العابدین (ع) کے نکاح میں تھیں اور جنکے بطن سے زید شہید پیدا ہوئے تھے۔

اسی طرح عزاداری کے فروغ میں برصغیر کے درویشوں اور صوفیوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو اپنے طور پر ایک الگ موضوع ہے۔ اسی طرح برصغیر میں مغلیہ عہد میں بھی عزاداری کو وسعت ملی۔ 1832ء میں لکھنؤ کے ایک رئیس حسن علی کی انگریز بیوی مسز میر حسن علی کی ایک کتاب شائع ہوئی جسمیں انہوں نے اسوقت کے محرم اور عزاداری کا ذکر کیا ہے۔ جسٹس مرتضیٰ حسین کا ایک مضمون 1996ء میں نیا دور لکھنؤ میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے تحقیق کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ یہاں پر عزاداری ایودہیا کی اس متنازعہ مسجد سے شروع ہوئی تھی جو پچھلے چند برس میں خوب خبروں میں رہی ہے اور اسی کے چبوترے پر تعزیہ بنا کر رکھا جاتا تھا جو فیض آباد میں عزاداری کی ابتدا تھی جسکے بعد 1764ء میں نواب صفدر جنگ کی اہلیہ نے امام خانہ اور مسجد تعمیر کروائی۔ فیض آباد کا دوسرا تاریخی عزا خانہ نواب شجاع الدولہ کی اہلیہ کا ہے جسے امام باڑہ بہو بیگم کہتے ہیں۔ اسی طرح جواہر علی خان، نواب سرفراز الدولہ اور حسن رضا خان کے عزا خانے بھی تاریخی ہیں۔

عزاداری کا اہم ترین مرکز اودھ تھا جہاں حکمران اور عوام دونوں عزاداری کے فروغ کی کڑیاں ہیں اور خاص طور پر اودھ کے حکمرانوں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس ضمن میں واجد علی شاہ اور آصف الدولہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ لکھنؤ کے معروف عزا خانوں میں امام باڑہ آصفیہ، امامباڑہ حسین آباد، امامباڑہ شاہ نجف، امام باڑہ جنت نشین و سبطین آباد، امام باڑہ قاسم علی خان، امام باڑہ زین العابدین خان، امام باڑہ راجہ جھاؤ لال، امامباڑہ ملکہ زمانیہ، امامباڑہ ولایتی محل، امامباڑہ مغل صاحب، امامباڑہ آغا باقر خان، حسینہ تقی صاحب، امامباڑہ میر باقر سوداگر، امامباڑہ ناظم صاحب، امامباڑہ افضل محل، امامباڑہ ملکہ آفاق اور اسی طرح کوئی چالیس عزا خانے تاریخی ہیں جن میں سے متعدد آج بھی محرم کے ایام میں سوز، نوحے، مرثیے اور ماتم کی صداؤں سے گونجتے ہیں۔ جنوبی ہند میں دکن، حیدر آباد، گولکنڈہ، بیجاپور اور مشرقی ہند میں بنگال، کلکتہ، بہار، پٹنہ، عظیم آباد اور پھر گوالیار۔ محمود آباد، جاورہ اور پٹیالہ کی ریاستیں بھی عزاداری کا مرکز رہی ہیں۔ محمود آباد میں راجہ صاحب محمود آباد کے خاندان نے اسمیں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔

تاریخ میں ہندؤں، آدی واسیوں، بھانڈوں اور طوائفوں کے بھی الگ الگ تعزیوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ راولپنڈی، کراچی، بہاولپور اور حیدر آباد کے علاوہ کئی شہروں میں اہل سنت کے مخصوص تعزیے بھی نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان، شمالی علاقہ جات کے علاوہ بھارت میں اودھ، بیجاپور، گولکنڈہ اور بہار کے علاوہ بنگال میں موم کے تعزیے، صندل کی لکڑی کے تعزیے، جو اور چاول کے تعزیے، مور کے پروں کے تعزیے، سنگ مر مر، کاغذ، ابرق، کپڑے اور پھلوں سے تیار کئے جانے والے تعزیے شامل ہیں۔ پاکستان کے شہر منڈی بہاوالدین میں تقسیم کے وقت بھارت کے شہر سماہنہ سے ہجرت کر کے آنے والے رضوی سادات کاغذ اور گتے کا تعزیہ بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1948ء میں ہمارے اجداد نے عاشور کے مراسم سماہنہ میں ادا کیے اور اس کے بعد سفر کرتے ہوئے کم وزن کاغذی تعزیہ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پاکستان کے مذکورہ علاقہ میں آ پہنچے، یہ روایت نو سو سال سے جاری ہے۔

دنیا بھر میں کچھ علاقے ایسے ہیں جنمیں محرم تاریخی گردانا جانا جاتا ہے جن میں لکھنؤ کے علاوہ بغداد، کربلا، نجف، کاظمین، تہران، مشہد، قم، کویت، بحرین کے کچھ شہر، ترکی کے شہر، لبنان، یمن اور مغربی ممالک میں امریکہ کے شہر شکاگو، ہیوسٹن، لاس اینجلس، برطانیہ میں لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ، مانچسٹر، کینیڈا میں ٹورنٹو اور یورپ میں ہیگ، برسلز اور پیرس جیسے شہر شامل ہیں۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔

تعزیہ داری کے بارے میں انگریزی زبان کی تاریخ میں دو انگریز خواتین مسز میر حسن اور فینی پارکس کے علاوہ شاہ نصیرالدین کے مصاحب ولیم نائٹن کے نام بہت مستند شمار کئے جاتے ہیں۔ لکھنؤ کے آصفی امام باڑے کا ‘‘لاڈو ساقن کا تعزیہ، ریاست جاورہ اور حسین ٹیکری کا تعزیہ، روہڑی کا چار سو سال پرانا تعزیہ، باون ڈنڈوں کا تعزیہ، چالیس منبروں کی زیارت اور پھر پاکستان میں ملتان شہر کے تعزیے تاریخی اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ملتان کا شمار پاکستان کے اُن شہروں میں ہوتا ہے جہاں یومِ عاشور کے موقع پر ایک بڑی تعداد میں ماتمی جلوس نِکالے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے ذوالجناح، علم اور تعزیے کے چارسو سے زائد ماتمی جلوس نکلتے ہیں لیکن اِن میں بڑی تعداد تعزیے کے جلوسوں کی ہوتی ہے۔ تاہم تین سو سے اوُپر نکالے جانے والے تعزیوں میں نمایاں مقام اندرونِ شہر کے پاک گیٹ سے برآمد ہونے والے قدیمی اُستاد اور شاگرد کے تعزیوں کو ہی حاصل ہے۔

اِن میں سے اُستاد کا تعزیہ ایک سو اسی سال سے زیادہ پُرانا بتایا جاتا ہے۔ شاگرد کا تعزیہ بھی اِتنا ہی پرانا تھا لیکن یہ ایک دفعہ گِر کر اور دوسری دفعہ جل کر مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ روایت کے مطابق لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اُستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین (ع) سے عقیدت کے اظہار کے لیے اٹھارہ سو پچیس میں یہ شاندار تعزیہ تیار کیا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اُستاد کو اِس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں پانچ سال کا عرصہ لگا تھا جبکہ بعض لوگ یہ مُدت سولہ سال بتاتے ہیں۔ شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کا نام اِلہی بخش تھا اور وہ اُستاد پیر بخش کے شاگردوں کی اُس ٹیم کا حصہ تھے جِس نے اُستاد کا تعزیہ تیار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اِلہی بخش دِن میں اُستاد کے ساتھ کام کرتے اور رات میں ایک خفیہ جگہ پر ویسا ہی تعزیہ بناتے تھے۔ اُستاد اور شاگرد کے تعزیے کی یہ  روایت  کم و بیش دو صدیاں گذرنے کے بعد بھی قائم ہے۔ ملتان میں آج بھی تعزیوں کے مرکزی جلوس کی قیادت اُستاد کا لافانی تعزیہ کرتا ہے جِس کے پیچھے شاگرد کا تعزیہ اور پھر دوسرے تعزیے ہوتے ہیں۔

اُستاد کا تعزیہ پچیس فُٹ بلند اور آٹھ فُٹ چوڑا ہے اور اِس تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اور ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اسے بنانے میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوئی۔ شاگرد کے تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اوراونچائی بھی پچیس فُٹ ہے جبکہ چوڑائی ساڑھے آٹھ فُٹ ہے۔ لیکن شاگرد کا موجودہ تعزیہ مشین کی مدد سے تیار کردہ ہے جو انُیس سو چوالیس میں اُس وقت بنایا گیا جب شاگرد کے تعزّیے کو پراسرار طور پر آگ لگی اور وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ملتان میں عزاداری کی تاریخ 512 ہجری تک جاتی ہے جب غزنوی عہد میں سید جمال بہرام شاہ ملتان آئے جو شاہ گردیز کے نام سے موسوم ہوئے اور آج بھی شاہ گردیز کی عزاداری تاریخی اور منفرد ہے۔

راولپنڈی میں عزاداری کے ڈانڈے کوئی پانچ سو سال قبل سید کسراں نامی گاؤں سے ملتے ہیں جس کے بعد تیلی محلے، شاہ چن چراغ، ڈھوک رتہ امرال اور متعدد دیگر عزاخانوں کے بعد اسلام آباد میں کراچی سے دارالحکومت منتقل ہونے کے ساتھ ہی عزاداری کی بنیاد پڑ گئی اور آج محرم میں پچاس سے زائد مقامات پر مجالس ہوتی اور جلوس نکلتے ہیں۔ یہاں کے معروف عزا خانوں میں کرنل مقبول، بوہڑ بازار، مدرسہ فاطمیہ، مبارک بانو، لڈن شاہ، زین العابدین، سید محمد آغا رضوی، بیت الکاظم، ساگری، خیام اہلبیت، قصر سجاد، قصر معصومہ قم، مریڑ چوک، جعفریہ مسلم ٹاؤن، علی مسجد سیٹلائٹ ٹاؤن، قصر ابوطالب، قصر علمدار، موہن پورہ، بارگاہ زینب، ناصر العزا، چٹی ہٹیاں، ابو محمد اور قصرالحسین کے علاوہ متعدد دیگر عزا خانے شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے چاروں صوبوں کے متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں نئے پرانے عزا خانے ہیں جہاں کربلا والوں کی یاد منائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں عزاداری کے لکھنؤ ملتان اور کراچی کے ساتھ لاہور کی عزاداری تاریخی اور قدیمی ہے۔ تقسیم سے قبل تک عزاداری کا یہ اثاثہ مشترک تھا لیکن آزادی کےبعد عزاداری کے بڑے مراکز میں کراچی، حیدر آباد، لاہور، ملتان، راولپنڈی، جھنگ، فیصل آباد، بہاولپور، میانوالی، بھکر، سرگودھا اور سرحد میں پشاور، ہنگو، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان، پارہ چنار اور شمالی علاقہ جات میں گلگت، سکردو اور لداخ کے علاوہ متعدد دیگر چھوٹے بڑے شہر شامل ہیں۔ 1954ء میں ماکلی کے قدیم قبرستان سے 133ہجری کے کچھ سکے کھدائی میں ملے تھے جن پر خانوادہ رسالت کے امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام کندہ تھا۔

Source:

http://islamtimes.org/vdcbwwbf8rhb88p.kvur.txt

 

جناب انتظار حسین نے تعزیوں اور عزاداری میں ان کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے

عزا کی رسوم میں کچھ علامات و نشانات کا بھی جلوہ نظر آتا ہے۔ ان میں دو نشان سب سے بڑھ کر ہیں۔ علم اور تعزیئے۔ تعزیوں کے معاملہ میں تو ہنرمندوں نے اتنا ہنر دکھایا کہ تعزیوں نے فنی اہمیت بھی حاصل کر لی۔ سب سے بڑھ کر لکھنؤ میں تعزیہ بنانے والے ہنر مندوں نے تعزیہ سازی میں ہنر اس شان سے دکھایا کہ تعزیے اظہار عقیدت کے ساتھ، فنی اظہار کے نمونے بھی نظر آنے لگے۔ اس میدان میں لکھنؤ کے سوا کوئی دوسرا شہر دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ ملتان ہے۔ مگر کیا ملتان کے تعزیوں کے بارے میں کبھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ فی الوقت تو ہمارے سامنے لکھنؤ کے تعزیوں ہی کی تفصیلات ہیں۔ سو ہم اسی پر قناعت کرتے ہیں۔ پہلے تو رتن ناتھ سرشار کے ’فسانہ‘ آزاد‘ میں جو محرم کا ذکر کرتے ہوئے تعزیوں کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے وہ ملاحظہ کیجیے۔

’’ماتم داری لکھنؤ پر ختم ہے۔ عاشورہ کی رات تو نچوڑ کا دن تھا۔ جدھر جاتے ہیں آواز گریہ وزاری۔ جسے دیکھتے ہیں صرف اشک باری۔ رات تو زیارت میں بسر ہوئی۔ عاشورہ کے دن پو پھٹنے کے وقت تعزیے نکلے۔ رانگے کا تعزیہ، جو کا تعزیہ، موم کا تعزیہ، انڈوں کا تعزیہ، نوگزہ تعزیہ، لاکھوں تعزیے تال کٹورے کی کربلا میں دفنائے جاتے ہیں۔‘‘

اس اجمال کی کچھ تفصیل ہمیں مرزا جعفر حسین کی تصنیف  ’قدیم لکھنؤ کی آخری بہار‘ میں نظر آئی۔ مگر پہلے یہ تو سن لیجیے کہ تعزیے کی نمود کیسے ہوئی۔ اس کا سہرا تو برصغیر پاک و ہند کے سر بندھنا چاہیے۔ مرزا جعفر حسین کہتے ہیں کہ ’’تیمور بادشاہ ہر محرم میں امام حسینؓ کے مزار پر حاضر ہو کر سوگ نشین ہوتا تھا۔ ہندوستان میں حملہ آور ہونے کے بعد دوران جنگ محرم کا چاند نمودار ہوا اور اس کے لیے مرقد مبارک پر پہنچا ناممکن ہو گیا۔ تب اس نے اپنے مشیر کاروں سے استصواب کیا اور ان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے روضۂ مطہر کی شبیہ تیار کرائی اور اسی کے حضور گریہ کناں ہو کر اپنی عقیدت مندی کو آسودہ کیا۔‘‘

یہی ایک تعزیہ بڑھتے بڑھتے تعزیہ داری کی ایک بڑی روایت بن گیا۔ لکھنؤ میں ہنر مندوں نے جن میں ہندو مسلمان سنی شیعہ سب ہی شریک تھے، اس شبیہ پر اپنا زور ہنر صرف کر دیا۔ کیسا کیسا تعزیہ بنا۔ شیرینی فروشوں نے شکر اور پتاشوں کے تعزیے بنائے۔ چکن سازوں نے چکن کے، منہیاروں نے چوڑیوں کے، کمہاروں نے مٹی کے، ندافوں نے کھجور اور روئی کے، اور نجاروں نے لکڑی کے، تفصیل کچھ یوں ہے۔ اول لال تعزیہ، اس تعزیے کے ہمراہ راجہ مہرا کے خاندان کے ایک فرد لالہ ہرپرشاد نوحے مرثئے پڑھا کرتے تھے۔ خاص طور پر دو مرثئے۔ ایک کا مطلع تھا؎

جب مشک بھر کر نہر سے عباسِ غازی گھر چلے

دوسرے کا مطلع تھا؎

یارب کسی کا باغ تمنا خزاں نہ ہو

چٹائی کے تعزیئے، چٹائی والے اپنے اپنے تعزیے کھجور کے پتوں اور رنگ برنگ تاگوں سے بڑی صنعت گری سے بناتے تھے۔

نوگزا تعزیہ۔ یہ تعزیہ ضریح کی شکل کا ہوتا تھا۔ اس تعزیے کے بانی مسلمان کہار تھے جو یوم عاشور ڈھول تاشے کے ساتھ تعزیے کے ساتھ تعزیے کو دفن کرنے کے لیے تال کٹورہ کی کربلا میں لے جاتے تھے۔ چونکہ یہ تعزیہ نوگز بلند ہوتا تھا اس لیے دوسرے تعزیوں سے اونچا نظر آتا تھا۔

چوڑیوں کا تعزیہ۔ یہ تعزیہ صنعتی اعتبار سے بہت اعلیٰ صفت کا حامل تھا۔ اس کے بنانے والے ایک حکیم صاحب تھے جو مختلف رنگ اور وضع کے شیشے کی چوڑیاں پہلے تیار کر لیتے تھے۔ پھر جو چوڑی جس جگہ زیب دیتی تھی اس جگہ اسے چڑھا دیتے تھے۔

مٹی کا تعزیہ۔ ٹیکا رام نام کے ایک کمہار نے مٹی کا ایک تعزیہ بنایا تھا جو ضریح سے مشابہہ تھا۔

روئی کا تعزیہ۔ ایسے دو تعزیوں نے بہت شہرت پائی۔ یہ تعزیے مختلف رنگوں میں رنگی ہوئی روئی سے بڑی فن کاری سے تیار کیے جاتے تھے۔ ان میں ایک کمال یہ دکھایا جاتا تھا کہ کپاس کے نقلی پودوں کو جو بالکل اصلی پودے نظر آتے تھے تخت کے چاروں گوشوں پر بطور گلدستہ لگایا جاتا تھا۔

سفید تعزیہ۔ شہر میں بے شمار سفید تعزیے نکلتے تھے۔ دو تعزیے اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں تعزیوں کے تختوں اور مونڈھوں پر مختلف رنگوں کے تال میل سے ابرق کے پتر پر دیدہ زیب قلم کاری ہوتی تھی جو رات کے وقت جگمگ جگمگ کر کے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرتی تھی۔

تھوڑا ذکر تعزیوں اور ضریحوں کے جلوسوں کا بھی ہو جائے۔ مرزا جعفر حسین نے ہندو تعزیہ داروں سے وابستہ ایک عجب رسم کا ذکر کیا۔ چند ایک افراد پیک بنتے تھے۔

ان کے لیے نائک اور بانک کے نام بھی چلتے تھے۔ سر پر پگڑی ایسی کہ پورے تھان کو سر پر لپیٹ کر ایک اونچی نوک نکال لیتے تھے۔ کمر میں پٹکا۔ ان میں درجنوں چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں لٹکی ہوئی، ہاتھ میں مورچھل، ایک تعزیے سے دوسرے تعزیے کی طرف اور ایک مجمع سے دوسرے مجمع کی طرف دوڑتا چلا جاتا۔ بس ایک بول اس کی زبان پر ہوتا تھا حسین کشتہ شد۔

جلوسوں میں سب سے پہلا اور اہم جلوس حسین آباد مبارک کی ضریح کا جلوس ہوتا تھا۔ یہ ضریح اب بھی اٹھتی ہے۔ شاہی زمانے میں اس کی شان اور تھی۔ جلوس میں سب سے آگے طغرا نما جھنڈوں پر اعلان ہوتا تھا ’’جلوس ضریح مبارک حسین آباد‘‘ اس کے پیچھے ہاتھی پر نوبت خانہ، ماتمی دھن میں شہنائی بجتی۔ اس کے پیچھے سبیل دودھ کے شربت کی۔ اس کے بعد چاندی کے ماہی مراتب، مرزا جعفر حسین کہتے ہیں ’’کم سے کم پچیس ہاتھیوں پر ایک ایک ماہی مراتب جس میں سے چاند، سورج، شیر دہان، سیف اور مچھلی کے نام اور صورتیں راقم کو اب بھی یاد ہیں۔‘‘ کم سے کم آٹھ بینڈ، ہر دو بینڈ کے درمیان جھنڈی بردار قطار در قطار۔ اس کے بعد حضرت عباس کا علم جو ایک بڑی چھڑ پر نصب ہوتا اور جس میں کار چوبی پٹکا لٹکا رہتا اور کار چوبی مشک حمائل۔ سوز خواں سوز پڑھ رہے ہیں۔ علم کے پیچھے ایک کار چوبی مشک حمائل کے نیچے امام حسینؓ کے گھوڑے کی شبیہ یعنی دلدل جسے چاندی کے گنگا جمنی زیورات سے سجایا جاتا۔ مثلاً کنٹھا، ہیکل، سینہ بند، پاکھڑ، دمچی وغیرہ اور ہاں زین پر تلوار، زرہ، ڈھال اور تیر کمان سجے ہوئے۔ اس کے پیچھے تابوت، آخرت میں ضریح مبارک۔

مہندی کا جلوس اس طرح اٹھتا تھا کہ آگے آگے ہاتھی، اونٹ اور گھوڑوں کی قطار، یہ قطار امام باڑے کے باہر تھم جاتی۔ ہاں جلوس بردار یعنی ماہی مراتب اور دوسرے سامان آرائش اٹھانے والے اور بینڈ باجے والے امام باڑے کے صحن میں پرا جما کے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیچ میں راستہ ہوتا۔ اس راستے نقرئی کشتیوں میں مٹھائیاں، میوے اور پھولوں کے ہار، پھر زرق برق لباسوں میں ملبوس ملازمین سروں پر مسہری اٹھائے ہوئے، کچھ لوگ ہاتھوں میں گل دستے لیے ہوئے۔ پھر دلہن کی نقرئی پالکی، ساتھ ہی مشعلچی، بس اسی اثناء میں عزاداروں کی ایک جماعت ماتمی لباس پہنے غمگیں صورتوں کے ساتھ نمودار ہوتی۔ ان کے ہمراہ حضرت قاسم کا تابوت، تابوت کے ساتھ چترزری کے نیچے گھوڑا جس پر حضرت قاسم کا زرتار عمامہ، کمان، خنجر، تیروں سے بھرا ترکش، آخر میں مجلس عزا۔

اس رنگ کے جلوس شاہی زمانے تک تھے۔ اس زمانے کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے۔ یعنی جلوس تو نکلتے رہے لیکن یہ شاہانہ تکلفات ختم ہو گئے۔

یہ تھا لکھنؤ کے محرم کا رنگ مشقے نمونہ از خروارے۔ اور رنگ ایسا کہ ایک تہذیب، ایک کلچر کا تاثر دیتا نظر آتا ہے

Source:

http://www.express.pk/story/196697/

Comments

comments