راولپنڈی میں مندر اور ہندو برادری کو قبضہ گروپ سے بچاؤ – ارشد محمود
کل شام ایک مندر میں دیوالی کی تقریب میں شریک ہونے کا شبھ موقع ملا۔۔۔راولپنڈی میں چھوٹی سی ہندو برادری رہتی ہے۔ وہ علاقہ فوج کے قبضے میں ہے۔ تقسیم کے وقت پنڈی میں ہندو سکھ برادری لاکھوں بھی تھی۔۔ جن کو خون ریز فسادات میں قتل کردیا گیا، یا بھگا دیا۔۔۔تاکہ ان کی دولت، زمین، کاروبار اور نوکریوں پر قبضہ کیا جاسکے۔۔ اب 50، 60 خاندان غریب، سہمے سے رہ گے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے، کہ وہ خود کو کس طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایسے ہی ہے، جیسے ان کو پنجرے میں ڈال دیا ہو۔۔ مذکورہ مندر 1935 میں بنا تھا۔۔ اصل مندر کا کوئی نام ونشان نہیں۔۔ظاہر ہے، اسے گرا دیا گیا۔۔آس پاس فوج کی عمارتیں ہیں۔۔۔جو کبھی مندر اور ہندو برادری کی جائدادیں ہونگی۔ باہر سے نہ اندر سے مندر والی کوئی بات نہیں۔۔عام سی عمارت ہے۔ اندر کسی دیوی دیوتا کا کوئی بت نہ تھا۔۔صرف تصویریں تھی۔۔ظاہر ہے، “بت شکنوں” سے ڈرتے وہ بے چارے بت نہیں رکھتے ہونگے۔ ہندو برادری کے ایک اہل کار نے بتایا، کہ فوج اس جگہ پر بھی قبضہ کرنے کا حکم جاری کر چکی ہے۔۔
وہ کہتے ہیں، اپنی بستی بھی اٹھاو۔۔۔ظاہر ہے، وہ جگہ اب قیمتی ہوچکی ہے۔ متبادل بھی کوئی نہیں دے رہے۔۔۔سیاسی پارٹیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے گزارش ہے، راولپنڈی کی اس چھوٹی سے ہندو برادری کو بچانے کی کوشش کریں۔ یہ انسانی مسئلہ ہے۔ وہاں شیریں مزاری بھی آ گئی۔۔۔باتیں اس نے اچھی کی، اور حیرت ہوئی، جب اس نے قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر کا بھی حوالہ دے دیا۔۔۔ کیا تحریک انصاف قائد اعظم کی اس تقریر کو تسلیم کرتی ہے؟ یا ووٹ حاصل کرنے کے لئے وہی سیاسی منافقت اور جھوٹ کا سہارا ہے۔۔