خواتین اسٹاف پر مشتمل پہلا ملکی پٹرول پمپ
جیسا کہا جاتا ہے کہ یہ مردوں کی دنیا ہے اور پاکستان میں یہ کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ سچا بیان لگتا ہے، جہاں ہم اس بات پر تو فخر کرتے ہیں کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہمارے ملک سے تھی اور متعدد خواتین متعدد شعبوں میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہیں مگر کئی بار پرتشدد مخالفت بھی یہاں نظر آتی ہیں اور مجموعی طور پر حقوق نسواں کی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نظر نہیں آتی۔
اس سب کو ذہن میں رکھے تو لاہور کے ایک پٹرول پمپ اس حوالے سے انتہائی دلچسپ مثال قائم کرتا نظر آتا ہے جہاں ایندھن کو گاڑیوں میں بھرنے کا کام جو روایتی طور پر مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے، مکمل طور پر خواتین کرتی ہیں۔
ایم ایم عالم روڈ کے زوم پٹرول اسٹیشن میں یہ بظاہر بے باک مگر دلیرانہ اقدام کیا گیا جہاں خواتین کو اس شعبے میں ملازمتیں دی گئی ہیں جس پر مردوں کی بالادستی سمجھی جاتی ہے، پتلون قمیضوں میں اسمارٹ نظر آنے والی یہ نوجوان لڑکیاں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ٹینکس کو ہوا کے جھونکے کی طرح آسانی اور پیشہ وارانہ مہارت سے بھرتی ہیں جس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر خواتین کو اس شعبے میں لانے کا فیصلہ اتنی تاخیر سے کیوں ہوا۔
ہم نے حال ہی میں اس پٹرول پمپ میں اس کی منی مارٹ سے ایک پانی کی بوتل خریدی جس کے دوران ہم نے کچھ لڑکیوں کو یونیفارم میں گاڑیوں میں پٹرول بھرتے دیکھا، جس نے ہمیں حیرت زدہ کردیا اور ہم نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کچھ اس کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔
کچھ صارفین کو دیکھ کر تو لگتا تھا کہ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں مگر دیگر کے لیے یہ حیرت انگیز اور کچھ تکلیف دہ سا تھا۔
پٹرول اسٹیشن کے منیجر کے مطابق” جب سے ہم اس اعلیٰ طبقے کے علاقے میں منتقل ہوئے ہیں اور مستقل صارفین کی بیس بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں، انتظامیہ کو خواتین ملازمین کو بھرتی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں”۔
ہم نے وہاں کام کرنے والی ایک لڑکی عائشہ سے پوچھا کہ وہ ایک پٹرول اسٹیشن پر کام کرکے کیسا محسوس کرتی ہے، جس پر اس نے بتایا”مزید خواتین کو پٹرول اسٹیشنز پر ملازمتیں دی جانی چاہئے، کیونکہ مردوں سے کسی بھی طرح کم نہیں، جب کار ڈرائیورز یہاں آتے ہیں تو ہم صارفین کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان سے پوچھتے ہیں کہ ہائی اوکٹین یا پریمئیم میں سے کونسا ایندھن بھروانا پسند کریں گے اور بس، ہم اس سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے”۔
خواتین اس پٹرول اسٹیشن میں دو شفٹوں میں کام کرتی ہیں، پہلی شفٹ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک جبکہ دوسری صبح دس سے شام سات بجے تک ہوتی ہے، انہیں مرد عملے کے مقابلے میں زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے اور انہیں روزانہ اجرت، کنٹریکٹ یا مستقل ملازم کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے، اسی طرح یونیفارم اور دوپہر کا کھانا بھی کمپنی کی جانب سے جہیا کیا جاتا ہے۔
عائشہ نے بتایا کہ کسی بھی مشکل میں مرد عملہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے اور ہم سب ایک ٹیم کی طرح مل کر کام کرتے ہیں۔
کیا خواتین عملے کے لیے کوئی خصوصی سیکیورٹی اقدامات کیے گئے ہیں؟ اس پر اسٹیشن منیجر نے بتایا” نہیں ہمیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، کیونکہ ہمیں اپنے عملے یا صارفین کسی کی جانب سے کبھی کوئی شکایت نہیں ملی”۔
ایک مبصر کے مطابق بالائی اور نچلے طبقات اس بات پر برا نہیں مناتے کہ ان کے خاندانوں کی خواتین ملازت کریں، اب وہ خاتون اشرافیہ سے متعلق ڈیزائنر ہو یا نچلے طبقے کی گھریلو ملازمہ، دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوئر مڈل کلاس اور متوسط طبقے میں خواتین کے اپنے گھر سے نکل کر کام کرنے سے زیادہ قدامت پسندانہ تصورات موجود ہیں۔
پٹرول پمپ پر کام کرنے والی لڑخیاں نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، چونکہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں اس لیے ان کے پاس بیوٹی پارلرز یا میک اپ اسٹورز پر کام کرنے کے علاوہ دیگر آپشنز نہیں ہوتے کیونکہ ان جگہوں پر زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم اب ان کے لیے ایک نیا در کھل گیا ہے۔
توقع کی جاسکتی ہے لاہور کے ایک پمپ میں شروع ہونے والا یہ اقدام ایک رجحان بن جائے گا اور مزید خواتین بھی اس یا اس سے ملتی جلتی انڈسٹریز کا حصہ بن سکیں گی، جیسا عائشہ نے اوپر کہا تھا’خواتین مردوں سے کسی طرح کم نہیں’، تو کیوں نہیں انہیں مردوں کی بالادستی والے شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کیے جائیں اس سے نہ صرف مثبت معاشی اثرات سامنے آئیں گے بلکہ اس سے خواتین کو مالی طور پر خودمختار ہونے میں بھی مدد ملے گی جو کہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
Source: