قائد اعظم محمد علی جناح اور وی آئی پی کلچر

10612955_10154623193700231_5001649313958343355_n

 

قیام پاکستان کے بعد پہلی نماز عید الاضحیٰ، قائد اعظم کی زندگی کا ایک واقعہ، جو تاریخ کی نظروں سے اوجھل ہے، یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوار منایا جانا تھا۔ قائد اعظم اور دیگر سرکاری عمائدین نے 18 اگست 1947 کو عیدالفطر کی نماز وفاقی دارالحکومت میں بندر روڈ پر مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں میں ادا کی تھی جو عیدگاہ کے نام سے بھی معروف تھی۔ اس نماز کی امامت فریضہ مشہور عالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دیے تھے۔ 25 اکتوبر 1947 کو عید الاضحیٰ کی نماز کی ادائی کے لیے بھی اسی مقام کا انتخاب ہوا۔ اس مرتبہ بھی امامت کا فریضہ مولانا ظہور الحسن درس کے حصے میں آنا تھا۔
قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا۔ لیکن تمام لوگ اس وقت بڑے حیران ہوئے جب نماز کا وقت آگیا مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نمازکی ادائی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔

قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہُوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔نماز کے بعد جب نمازیوں کے علم میں یہ بات آئی پوری عید گاہ قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔

بشکریہ پاک ٹی ہاؤس

Comments

comments