افتخار چودھری کی نشانی ناصر الملک اور جواد خواجہ سے انصاف کی توقع نادانی ہے – تنویر اختر
کیا “کوٹهے” کو الباکستان کی لغت میں “کورٹ” کہا جاتا ہے؟. تا حیات “چیپ جسٹس” انتشار چودھری کے دست راست اور موجودہ “چیف” ناصر الملک نے، حالیہ سیاسی بحران میں عسکری قیادت کے کردار بارے، بهری پارلیمان میں، صریح دروغ گوئی پر “منتخت” بادشاہ سلامت کی نااہلی کی درخواستوں کی سماعت کیلئے لارجر بنچ کی تشکیل سے قطعی غیر منطقی انکار کرتے ہوئے نواز لیگ کے میڈیا منیجر میر شکیل الرحمان کے “سالے” جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں، “شریف کورٹ” کی ہر تعریف پر پورا اترنے والے 3 رکنی بنچ کو گویا شہنشاہ معظم کے خلاف ایسی ہر درخواست کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردینے کا فری ہینڈ دے دیا،
جس نے اپنی پہلی سماعت میں ہی یہ ریمارکس دیتے ہوئے اپنے عزائم ظاہر کر دئے کہ “صادق و امین رہنے کی توقع صحابہ کرام کے سوا کسی سے نہیں رکهی جا سکتی”، اسلئے میاں صاحب کو سات خون معاف ہیں .. دریں اثناء اپنے گرو افتخار چودھری کے حکم پر آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹسی ٹهکرا کر سپریم کورٹ “پدهارنے” والے جسٹس ثاقب نثار نے متوقع ماورائے آئین اقدام کے حوالے سے دائر المشہور کیس کی سماعت کے دوران ان “تاریخی ڈائیلاگز” کی ادائیگی سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو سابق ہند کے بگڑے امیر زادوں کو “تہذیب” سکهانے والا “شاہی محلہ” بنانے کی جانب اس سفر میں ایک اہم قدم اٹھایا ہے،
جس کا آغاز موصوف کے روحانی والد جسٹس چودهری نے کیا تها .. آپ بهی سنئے اور سر دهنئے.. “سپریم کورٹ کو سیاست دانوں کی پهیلائی غلاظت کی لانڈری نہیں بننے دیا جائے گا” .. سچ پوچھئے تو کم از کم میں نے افتخار چودهری سے پہلے کسی بهی عدالت میں اس طرح کے فلمی مکالمے کی روایت کبهی دیکھی نہ سنی
اس کے علاوہ یہ میڈیا کے حلقوں میں یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ افتخار چودھری کو نواز حکومت کی جانب سے تقریباً ڈھائی کروڑ روپے کسی خفیہ فنڈ نوازے ہیں – نواز شریف اور نواز لیگ کی خدمات کے سلے کے طور پر دیے جانے والے یہ ڈھائی کروڑ روپے پاکستانی قوم کے ٹیکس سے چوری جانے والے کروڑہاہ روپے میں سے صرف ایک کڑی ہے جو نواز شریف کو الیکشن جتوانے کے سلے میں دی جانے والی ایک چھوٹی سے بخشش ہو سکتی ہے –