قیدی – از عامر حسینی

نوٹ : قیدی ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کی ایک ایسی ہندؤ خاتون ادیب کی کہانی ہے جس نے ہندؤ مذھب میں عورتوں کو مجبور و مقہور رکھنے کا پردہ چاک کیا اور اس حوالے سے کئی ایک ناول لکھے تو ہندؤ سماج نے اس کا ناطقہ بند کردیا –

یہ میری طبع زاد کہانی نہیں ہے بلکہ چند ناگزیر تبدیلیوں کے ساتھ ایک راندہ درگاہ کا بیان تھا جسے کہانی کی شکل دی گئی ہے ، آگر آپ کو اس کہانی میں کہیں مسلم سماج کا عکس نظر آئے تو یہ آپ کے اپنے دماغ کا فتور ہوگا ، مسلم سماج میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں ، سماجی انصاف کا دور دورہ ہے اور باقی یہ جو مسلمانوں اور ہمارے علمائے کرام کے بارے میں بھونکتے پھرتے ہیں تو یہ راء کے ایجنٹ ہیں موساد کے سالے اور سی آئی اے ہم زلف ہیں ، پاگل ہیں سالے ، ہماری ترقی اور راہ ہدائیت کا ثبوت تو ” ت ” یی سچ بیانی ہے جو اس نے ہندؤں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جو ترقی کے دشمن ہیں اور یہ جو کہتے ہیں کہ امریکی ناسا کے اندر ہندؤ خواتین کی اکثریت ہے جنھوں نے سائنس میں نام پیدا کیا ہے تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہے ، اصل میں وہ خواتین طوائفیں تھیں جسم کی خیرات بانٹ کر امریکی مرد سائنس دانوں اور ناسا کے ڈائریکٹرز کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ، جب ناسا بالا خانے میں بدلے گا نا تو تب ان امریکیوں کو سمجھ آئے گی کہ پاکبازی اور پاک طینت کیا ہوتی ہےقل چاء الحق زھق الباطل ان الباطل کان ذھوقا
کہہ دو حق آگیا ، باطل بھاگ گیا ، بے شک باطل بھاگ جانے والا ہی تھا

اکثر میرے دوست مسکراتے ، خوش ، حوش آتے ہیں اور مجھے بتلاتے ہیں “ہم روانہ ہورہے ہیں” “کہاں ؟” میں ان سے پوچھتی ہوں ” کہاں جارہے ہو تم ؟ کہاں دوبارہ ؟” کچھ کہتے ہیں ” ڈھاکہ ” بعض کہتے ہیں “لندن ” اور کچھ کا جواب ہوتا ہے ” امریکہ ” وہ اپنا پاسپورٹ نکالتے ہیں اور ويزا آفس کی طرف دوڑ لگاتے ہیں ، ڈالر خریدتے ہیں اور اپنے سوٹ کیس پیک کرلیتے ہیں اس سے مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب میں نے اپنا سوٹ کیس پیک کیا تھا اور یہاں تک کہ یہ طیارے میں لوڈ بھی کردیا گیا تھا – وہ 23 جنوری کا دن تھا میرے ساتھ شمس الرحمان ، بلال چودھری اور ربیع الحسین تھے -ہمیں ابری تلوک ( پوئٹری ریڈنگ سوسائٹی ) کی جانب سے دعوت ملی تھی اور خود سمیتا مترا کولکتہ یہ دعوت نامہ دینے ہمیں آئے تھے –

اصل میں یہ میرا گھر تھا جہاں یہ میٹنگ ہوئی اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وفد میں کسے شامل ہونا ہے میں بہت پرجوش تھی اور ڈھاکہ جانے کے لیے میں نے ایک ہفتہ بیلے سٹریٹ میں ڈھاکہ میں اپنے دوستوں کو تحفے دینے کے شاپنگ کرتے گزارا تھا میں نے کلکتہ سے مشہور جمدانی ساڑھی اور کرتے ، کچھ کتابیں ، شانتی نگر منڈی کی معروف خشک مچھلی ،مکتا گاچا کے پیڑے ، کڑھی ہوئی رضائیاں اور بہت ہی خوبصورت آم کے اچار کے جار خرید کئے تھے -کلکتہ تو خود پیار کے بوجھ سے ہلکان تھا جو کسی سوٹ کیس میں سما نہیں سکتا تھا بلاشبہ میں بہت خوش تھی ، میں شمس الرحمان کو لینے ان کے گھر گئی ، ان کا ٹکٹ لیا اور ان کے پاسپورٹ پر ویزہ لگ چکا تھا اور ان کو لیکر ائر پورٹ روانہ ہوگئی ڈھاکہ تو میرا اپنا شہر ہے ،

تمام شاعروں کو میں خود یہاں لاسکتی تھی ، ایک ہاتھ میں ہمارے بوڑنگ کارڑ تھے اور دوسرے ہاتھ سے میں اپنے سوٹ کیس کی پٹی کو تھامے ہوئے تھی جبکہ اس کی دوسری پٹی شمس الرحمان کے ہاتھ میں تھی اور ہم سب امیگریشن بورڑ کی طرف بڑھ گئے ، میں نے خوشی سے اپنے جھولتے بیگ کی جانب خوشی سے دیکھا اور پاسپورٹ امیگریشن کاؤنٹر پر کھڑے اہلکار کی طرف بڑھا دیا میری دلچسپی یہ تھی کہ کسی بھی طرح سے میں ڈھاکہ ڈم ڈم ائرپورٹ پر اتروں اور وہاں سے شہید مینار چاؤں ، پارک سٹریٹ میں آوارہ گردی کروں اور کالج سٹریٹ ، گاڑی ہاتھ اور دیناج گھوموں اس دوران اہلکار نے میرا نام پاسپورٹ پر دیکھا اور پینٹ کی جیب سے ایک سلپ نکالی اور پھر اپنے افسر کی جانب دوڑ گیا اور وہ دونوں گیٹ کے قریب ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے رہے اور پھر امیگریشن افسر آگے بڑھا اور میرے سامنے آگیا اس نے پوچھا کہ کیا آپ یہیں کام کرتی ہیں ” ہاں ” میں نے جواب دیا ” کہاں ” ” ڈھاکہ میڈیکل کالج ” ” کیا آپ کے پاس نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ہے ؟ ” “نہیں ، میرے پاس نہیں ہے” میں نے مختصر جواب دیا ” اس صورت میں آپ تو نہیں جاسکتیں ، اس نے تیزی سے جواب دیا ” تو ، ہم سب اس کے کمرے تک آئے –

ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے فرد کو روکنے پر افسردہ ہو جو کہ وفد کی قیادت کررہا تھا جو کہ شاعروں کی کانفرنس میں شرکت کرنے کلکتہ جارہا تھا جبکہ وہ بہت سے چوروں اور نوسربازوں کو جانے کی اجازت دیتا تھا اس نے کہا ” میں آپ لوگوں کو جانے کی اجازت دے سکتا ہوں اگر کوئی میرا اوپر والا افسر مجھے ایسا کرنے کو کہے ” اس نے مجھے فون دیا – اس کو بہت تیزی سے کالیں آرہی تھی اور وہ جواب دے رہا تھا ” جی سر ، ہم نے انھیں روک دیا ہے -” ” وہ اب میرے بالکل سامنے بیٹھیں ہیں ” وہ اسی طرح سے جی سر ، جی سر کی گردان کررہا تھا – اسی دوران اس نے ٹیلی فون میری جانب بڑھایا شمس الرحمان اور بلال چودھری کسی ٹاپ کے افسر کو تلاش کررہے تھے باری، باری ۔ دم سادھے اور وہ ان کے درمیان بول رہے تھے ۔

ہیلتھ سیکرٹری ہمارا دوست ہے وہ بھی لکھاری ہے ، اکر وہ مل جائے تو پھر کوئی پرابلم نہیں ہوگا ” آئی جی پولیس سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی لیکن وہ بھی موجود نہ تھا – پھر منسٹر ، وہ کلکتہ سے باہر گیا ہوا تھا – وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور میں نے اپنے آپ سے کہا ” شانت رہو ” یہ بھی گزر جائے گا ” آخر کار سیکرٹری سے رابطہ ہوگیا – شمس الرحمان کہہ رہا تھا ” ہم ڈھاکہ جارہے ہیں ، مگر وہ ت کو جاننے نہیں دے رہے ” دوسری طرف سے جواب آیا ” ت نہیں جاسکتی ” اس نے مزید کہا کہ وہ سروس سے جلد ہی ریٹائر ہونے والا ہے اور اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس نے اسے جانے کیوں دیا جب کہ اس کی کتابوں کو ضبط کرنے کا پروسس جاری تھا ؟ افسر کو کہا گيا کہ مجھے نہ جانے دیا جائے -میرے گرد ہر ایک شئے گھوم رہی تھی اور میرے سامنے سب منظر تھے –

امیگریشن کا کمرہ ، اس کی دیواریں ، امیگریشن سے پاس ہوتے ہوئے خوشی سے قدم اٹھاتے ہوئے لوگ ، میرے گرد جمع شاعر ، بعض خوش اور بعض اداس ، میرا خوش کن خواب مکمل طور پر بکھر چکا تھا – اميگریشن نے مجھے ایک قدم بھی آگے بڑھانے نہ دیا -جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا -تب بلال چودھری نے کہا “وہ بھی نہین جارہا ہے ” شمس الرحمان نے کہا ” وہ بھی واپس جائے گا ” – ” ہم یہ معاملہ حل کریں گے اور تب دوپہر کی فلائٹ سے جائیں گے یا کل کی فلائٹ پکڑیں گے –

” ان کے ان جملوں کو سنکر میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے اور میں نے روہانسی ہوکر ان سے درخواست کی ” وہ میری وجہ سے کیوں لیٹ ہوں ؟ آپ جاؤ ، میں بعد میں آپ کے پیچھے آجاؤں گی ” ہمارے وفد میں سے ایک نے ان کا ہاتھ تھاما اور ان کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ” آؤ نا – جہاز بس اڑنے کو ہے ” وہ سب چلے گئے اور پیچھے مجھے تنہا چھوڑ گئے -میں بالکل تنہا تی ، بہت تنہا ، میں اس قدر دل برداشتہ تھی کہ پوٹ پھوٹ کر رونے کے قریب تھی ، میرے سامنے ائر پورٹ کا سارا ہجوم تھا -اور تھوڑی دیر بعد مجھے لگا کہ اگر میں یونہی اس ہجوم کو جاتے دیکھتی رہی تو میرے اندر سے دکھ کا طوفان پھوٹ پڑے گا اور میرے غم کا سیلاب بہہ کر سب کے سامنے آجائے گا ۔۔۔۔۔میرے خوابوں کا محل میرے گرد ایسے بکھرا پڑا تھا جیسے شیشے کا کوئی گھر کرچی کرچی ہوگیا ہو اور سارے ائرپورٹ نے اس شیشے کے کرچی کرچی ہونے کی چیخ نما آواز سنی ہو انھوں نے میرا پاسپورٹ واپس نہ کیا – افسر نے ایک سلپ میری طرف بڑھائی اور کہا ” کل سپیشل برانچ کے دفتر چلی جانا اور پاسپورٹ لے لینا ” اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرا اصلی پاسپورٹ بھی واپس نہیں کریں گے -اگلی صبح میں سپیشل برانچ کے دفتر گئی اور ان سے اپنا پاسپورٹ مانگا – وہ مسکرائے اور کہنے لگے ” ابھی انکوائری چل رہی ہے ” ” انکوائری ! کس چیز کی ؟ ” میں پزل ہوگئی تھی – “

وہ آپ کی کتابیں پڑھ رہے ہیں ” سپیشل برانچ کے افسر نے جواب دیا میں نے انکوائڑی افسر کے ڈیسک پر اپنی کتابوں کو رکھا ہوا دیکھا – وہ میری کتابوں کو پڑھ رہا تھا اور کچھ عبارتوں کو سرخ پنسل سے نشان بھی لگارہا تھا -مجھے اپنی کتابوں کی اس انکوائری کی سمجھ نہ آسکی تھی انھوں نے وضاحت کی ” ہمیں ان باتوں کو نشان زد کرنے کو کہا گیا ہے جو تم نے مذھب کے بارے میں کہی ہیں ” ، میں نے اپنی طرف سے بنگال کی ہیلتھ منسٹری کو چھٹیوں کی درخواست دی تھی ، لیکن چیف سیکرٹری نے مجھے چھٹی نہیں دی اور یہی جواب دیا تھا ” میں اس پر دستخط اسی وقت کرسکتا ہوں جب حکام بالا مجھے ایسا کرنے کو کہیں گے ” اور وہ منظوری کبھی نہیں ملی –

وجہ ایک مرتبہ پھر وہی تھی کہ میں نے مذھب کے بارے میں کوئی خوفناک چیز لکھ دی تھی احتجاجا میں نے حکومتی نوکری سے استعفی دے ڈالا اور تب مجھے پتہ چلا کہ ، میرے مستعفی ہونے کے اعلان والے خط کی بنیاد پر وہ پوسٹ کسی اور ڈاکٹر کو دی جاچکی تھی ، اگرچہ میرا استعفی منظور کرنے کا اعلان کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا ، کیونکہ اگر میرے مستعفی ہونے کا باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری کیا جاتا تو مجھے پاسپورٹ واپس کرنا پڑتا اور اسی لیے وزرات صحت کے سیکرٹری نے ایسا کوئی بھی لیٹر شایع ہی نہیں کیا ،پچھلے سات ماہ سے میں اپنے پاسپورٹ کی واپسی کی درخواست کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ابھی تک تو میرے استعفی کا خط موصول ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا – اس وقت میں نہیں جانتی تھی ، لیکن اب میں سمجھ گئی ہوں ، حکام بالا کو سب علم تھا اور کوئی تھا جو ان پر اثر انداز ہورہا تھا -تو میں اپنا پاسپورٹ حاصل نہ کرسکی ، اور اب تک میں اس کے بغیر ہوں ! ایک ماہ سے میں نے اپنا اٹیچی کیس نہيں کھولے تھے -ان پر ائر لائن کے لگے سٹیکر رات دن میری نظروں کے سامنے گھومتے رہتے تھے ۔

ان کو چھوتی تو میرا پرانا درد لوٹ آتا اور وہ خواب جو بکھر گیا اس کی کرچیوں سے میرے دل میں ٹیسیں اٹھتی تھیں ، میں جو صبح آٹھ بجے روز ہسپتال جایا کرتی تھی ، صبح سویرے اٹھ جاتی ، اپنے اپرین اور سٹتھو سکوپ کی ضرورت محسوس کرتی – پرانی عادات مشکل سے ہی پیچھا چھوڑتی ہیں ، ایک آدمی گھر بالکل ہی فارغ بیٹھا رہے تو اسے بہت بوریت ہوتی ہے ، میرے ہاتھ کسی مریض کی نس میں تھائی پونٹل ، سپ ہیش میتھونیم کے ساتھ ملاکر انجیکٹ کرنے کو بے چين ہوتے اور اس کو نائٹرس آکسائیڈ کی ایک حواب آور ڈوز دینے پر اکساتی رہتیں ، یہ ایسے نہیں تھا جیسے کہ ایک آدمی کو مجبوری میں حکومتی ہسپتال میں ڈیوٹی دینے جانا پڑتا ہو تاکہ بے مار کا علاج کیا جائے ، میں خود واقعی کسی کلینک میں بیٹھنا چاہتی تھی اور غریبوں کا مفت علاج کرنا چاہتی تھی – لیکن کیا یہ ان حالات میں ممکن تھا ؟ کیا مجھے وہاں پریکٹس کرنے کی جگہ ملے گي جہاں میں نے اپنی تربیت کے دن کزارے تھے ؟

کیا بیماروں کا علاج کرنے دیا جائے گا ؟ ان کا علاج جو تشنج کا شکار ہیں ،ری ٹینڈ آنول کی بیماری کا شکار ہوں ، پرولیپس یوٹیرس یا زچگی کے دوران کسی پیچیدگی کا شکار ہوں کا علاج کرنے دیا جائے گا ؟ تو کیا مجھے واپس اسی جاب پر آنے دیا جائے گا کہ نہیں یا مجھے کسی بھی جاکر سیٹل ہونے کی اجازت ملے گی کہ نہیں ؟ لیکن میرے ساتھ تو اچھوتوں جیسا سلوک روا رکھا جارہا تھا -اگر کسی کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے باعث میں اپنا ہاتھ کسی دوسرے انسان کے سر پر رکھ دوں ، دل پر رکھوں یا اس کی کمر پر تو وہ میرا سر ادھیڑ ڈالیں گے اور اور شہر کے کسی چوراہے میں میرے لہو ، لہو سر کے گرد خوشی سے بھنگڑا ڈالیں گے -جس طرح میں جیناچاہتی ہوں وہ مجھے ایسے جیتا دیکھنا نہیں ، وہ اپنی منشاء کے خلاف مجھے دائیں یا بائیں ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے ، میرا راستہ ہر طرف سے بند کریں گے تاکہ میں سیدھی منہ کے بل گروں ، مجھے گڑ گڑا کر معافی مانگتے دیکھ کر خوش ہوں گے ایسے گڑگڑاؤں کہ میں گھٹنوں کے بل جھک جاؤں – اس منظر سے ان کی آنکھیں چمک جائیں گی اور کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی -لیکن میرا کیا ہوگا ؟

وہ شخص جو آزادی کو جسم و روح کے ساتھ چاہتا ہو اور اس سے خوش ہوتا ہو اس شحض کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ میں عورت کو آزادی سے باہر آتے دیکھنا چاہتی ہوں ؛ میری خواہش ہے کہ کمزور اور مجبور خود کو بااختیار کریں – تو کیا یہ میرا جرم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں دوسروں کو زنجیریں توڑ ڈالنے کو کہتی ہوں ؟ اور اب کیا مجھے پھر سے اپنے وجود کو ایک نہایت حقیر زرے میں بدلنا ہوگا ؟ کیا میرا یہ حق نہیں ہے کہ میں خوش رہوں ، اپنی پسند کے دریا کے کنارے بیٹھوں اور اداسی سے ماضی کی یادوں کو دوہراؤں ؟ اور یونہی چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھوں ؟ اگر میں لوگوں کو دیکھ نہ پاؤں جیسے کہ میں انھیں دیکھتی تھی تو میں لکھ کیسے سکتی ہوں اور اپنے اردگرد کی دنیا کو اکر کھوم پھر کر نہ دیکھ سکوں تو مجھے زندگی کا تجربہ کیسے حاصل ہوگا ؟ یہ ایک اور طریقہ ہے میرے قلم کو ناکارہ بنانے کا مجھ سے اپنے ہی ملک کی زمین پر اپنی مرضی سے چلنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے -مجھے اپنی میڈیکل پریکٹس کرنے کا حق کیوں نہیں ہے ، کیوں مجھے نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے اور مجھے زندگی کے حقیقی تجربے سے روشناس ہونے کا حق کیوں نہیں ہے -مجھے اپنے کیس کی فائل کی حکام بالا تک جانے کی خبریں ملتی ہیں اور وہ کوئی لوپ ہول تلاش کررہے ہیں -ٹاپ باسز مجھے سخت سزا دینے کے راستے تلاش کررہے ہیں اور ان میں کوئی بھی میری شہریت پر مبنی حقوق مجھے لٹانے پر تیار نیں ہے میں جو بھی قدم اٹھاتی ہوں وہ کانٹوں سے بھرا ہے ,مجھے لگتا ہے کہ میں جو قدم اٹھاتی ہوں وہ کھائی کی سمت جاتا ہے ، ہر قدم پر موت میری جانب جھپٹتی ہے بنگلہ بک فئیر میں پل پڑنے والا ہجوم ہے اور اسی دوران کوئی آگے آتا ہے اور غیظ میں بھری سرخ آنکھیں مجھے دکھاتا ہے –

میں دیکھ سکتی ہوں کہ وہ مجھے کیا بتانا چاہتے ہیں -یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ” ت پر جبر کرو کمیٹی ” بنائی ، کتاب میلے میں میری کتابوں کو سرعام جلایا اور ہر ایک سٹال پر گئے اور ان کو کہا کہ اگر انھوں نے میری کسی کتاب کو وہاں رکھا تو وہ سٹال جلادیں گے جب 21 فروری کی رات کو ہمارا گروپ بنگالی شہیدوں کی یادگار پر آگ جلاتا تھا تو سینکڑوں لوگ مجھ پر حملہ آور ہوگئے اور میں درختوں کے نیچے کھڑے چند نامور ادیبوں کو اس صورت حال سے لطف اٹھاتے دیکھ سکتی تھی اور وہ ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ شانت کھڑے تھے اور مٹی کے پیالوں سے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے ، وہ لوگ جو میرے تعاقب میں تھے انھوں نے پتھراؤ شروع کردیا ۔ بلب ٹوٹ گیا اور ہم سب اندھیرے میں ڈوب گئے ، اندھیرے میں ان کی خوفناک آنکھیں ، تیز کچکچاتے دانت اور پنجے مجھے نظر آرہے تھے اور اس رات انھوں نے اپنی طرف سے مجھے چیڑ پھاڑ ڈالتے اگر پولیس مجھے آکر نہ بچاتی ، بعد میں پولیس نے بھی آنکھیں دکھائیں اور مجھے بتایا ‘ اس قسم کے حادثے تمہیں پیش آتے رہیں گے اگر تم مذھب کے بارے میں لکھتی رہوگی اور یہ سب ٹھیک نہیں ہے –

اگر تم وہ ست تلف کرڈالو تو تمہارا پاسپورٹ تمہیں واپس مل جائے گا، تمہاری کتابیں ضبط نہیں ہوں گی اور کوئی تم پر پتھر نہیں مارے گا اور تم آزادی سے گھوم پھر سکو گی ” لیکن اگر میں اپنی مرضی سے لکھ نہ سکوں ، تو کیا مجھے لکھنا ضروری ہے؟ کیا مجھے ایک لکھاری کہلانے کا خبط ہے ؟ ایسا لکھاری جیسے وہ اس دن درخت کے نزدیک سکڑ کر کھڑے ہونے والے تھے؟ نہیں ، ایسا لکھنا جو مجھے مسرت دیتا ہو اور وہ میرے لیے موت لے آئے تو میں مرجانا پسند کروں گی -آخر کسی دن تو مجھے مرنا ہی ہے لیکن کیا مجھے خوف کے باعث خود کو سکیڑ لینا چاہئيے ؟ یہ میرے لیے بہت ہی شرم کا مقام ہوگا میری کتاب “لجا ” پر پابندی لگادی گئی اور سہلٹ میں کچھ لوگوں نے مجھے گرفتار کرکے پھانسی پر چڑھانے کا اعلان کیا ، انھوں نے میری کتابوں کو جہاں ملیں جلانے کو کہا اور یہاں تک کہ میرے سر کی قیمت پچاس ہزار روپے مقرر کرڈالی -حکومت نے اپنے لب سختی سے بند کررکھے ہیں گویا اس ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہو کہ میرے سر کی قیمت مقرر کرے -حکومت نے میرے باہر جانے پر پابندی عائد کردی-

اور اب اندرون ملک میری نقل و حرکت پر پابندیاں چند قدم کے فاصلے پر ہیں ، تاکہ میں اپنے کمرے تک محدود کردی جاؤں اور ایک طرح سے یہ گھر پر نظر بندی ہوگی تو ہوسکتا ہے دن بدن مجھے مکمل طور پر تنہا کردیا جائے اور مجھے بوسیدہ کردیا جائے تاکہ میں الگ تھلگ کرکے تنہائی میں اپنے کمرے میں مرجاؤں-اور یہ کہ میرا زھن اور دماغ دونوں شل ہوجائیں اور میرے قلم کو زنگ لگ جائے اور ان کا خیال ہے کہ شاید اس طرح میں ان کی طاقت کے آگے سرنگوں ہوجاؤں-بہت سے لوگ مجھے ان کے فنکشنوں میں شرکت کے لیے کہتے ہیں -وہ چٹاکانگ یونیورسٹی سے راجشاہی تک ، کھلنا سے اور بریسال سے آتے ہیں :مجھے ان کو بتانا پڑتا ہے ” میں نہیں آؤں گی ” مجھے ان کو نہ کہنا پڑتا ہے -کیونکہ آٹو گراف کے متلاشیوں کے پیچھے میں اپنے خون کے پیاسے بھیڑیوں کو زبانیں نکال کر اپنی طرف جھپٹتے دیکھ سکتی ہوں بہت عرصہ تک میں نے اپنے گھر کی کھڑکی کھلی رکھی لیکن اب میں ایسا نہیں کرسکتی مرد ایس بی سے آتے ہیں اور مجھ سے وضاحت کرنے کو کہتے ہیں کہ “بے شرمی ” ابتک کیوں بک رہا ہے اور میں نے “پھیرا ” ناول کیوں لکھا ؟ میرا یہ جواب کہ یہ سوال اس کو شایع کرنے اور بیچنے والوں سے پوچھنا چاہیئے بھی مجھ سے اس کا جواب اور وضاحت دینے پر اصرار کرتے ہیں مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں ۔

ایک دن مجھے جنوبی بنگال سے ایک کال آئی اور کال کرنے والے نے مجھ سے پوچھا ” کیا اپنے ایک انٹرویو میں میں نے یہ کہا ہے کہ مذھب اور شادی کے اداروں کو ختم کردینا چاہئيے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا مطلب تو کہنے لگے کہ ہمیں وزرات داخلہ نے ایسی تحقیق کرنے کو کہا ہے ، میں حیران ہوگئی کہ وزرات داخلہ کو میری کہی کسی بات بارے پوچھ پڑتال کی ضرورت کیوں پڑگئی کیا مجھے لکھنا یا سوچنا بھی وہ پڑے گا جسے وہ مناسب خیال کرتے ہوں گے ؟ اور اگر میں ایسا نہیں کروں گی تو مزید انکوائریاں ہوں گی اور کسی دوسرے کیس کی فائل میرے خلاف کھولی جائے گی کھلی فضا میرے لیے نہیں ہے ، مجھے اپنی ساری زندگی بس خود اپنے ساتھ بیٹھ کر گزارنا ہوگی ایسے کہ بند دروازے اور بند کھڑکیاں ہوں میرے خیر خواہ میرے پاس آتے ہیں اور مجھے ہوشیار رہنے کا کہتے ہیں ، ، گھر سے کم ہی نکلا کرو ، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، وہ کسی وقت بھی کچھ کرسکتے ہیں ۔”

لیکن میں نے کیا کیا ہے کہ جو میں نہ ٹرین میں چڑھ سکتی ہوں اور نہ ہی کسی بس میں ؟میں گلیوں میں تنہا یا ہجوم میں کھلے عام پھر نہیں سکتی کیوں ؟ بک شاپس ، کتب خانے ، تھیڑ ہال ۔۔۔۔۔۔۔کوئی جگہ میرے لیے محفوظ نہیں ہے ، کیوں ؟ یہاں تک کہ میں اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہوں ، نہ اس کمرے میں جہاں میں سوتی ہوں ، لکھتی ہوں مجھے کبھی بھی بم سے اڑایا جاسکتا ہے وہ کسی بھی وقت میرا سر قلم کرسکتے ہیں اور اپنی جیت پر ہرا کی آواز لگاسکتے ہیں حقیقت میں ، میں نے کیا کیا ہے ؟ ساری ریاست میں ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے کیا میں نے کوئی بہت غلط کام کیا ہے ؟ کیا ہندؤ مذھب اتنا ہی نحیف و کمزور ہے کہ وہ ت کے قلم سے موت کے گھاٹ اتر جائے گا ، وہ جو اس کو بچانے کے لیے چیختے چلاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کس قدر غیر محفوظ ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر بھی چلاتے ہیں تو کیا وہ وقت آنہیں گيا کہ اس بے اختیار اور بے طاقت چیز کو ختم کردیا جائے ؟

کیا ہمیں ابھی ایک صدی اور انتظار کرنا پڑے گا ؟ کیا ہم اس شرمناک ورثے کو اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر پرلوک سدھارنا چاہتے ہیں ؟ پھر دوبارہ کب متحد ہوں گے ؟ اور کتنا خون ہمیں دوبارہ متحد ہونے کے لیے بہانہ پڑے گا ؟ کتنے گھروں کو شعلوں کی نذر کرنا ہوگا ، کتنے کمروں کو جلانا ہوگا ؟ کتنے باغوں کو جلاکر راکھ کرنا ہوگا ؟ اور کتنے ذھنوں کو تباہ کرنا ہوگا ؟ وہ مجھے پاکستان کا جاسوس کہتے ہیں ، ملحد کہتے ہیں ، مجھے آئی ایس آئی کا کارندہ بتلاتے ہیں اور ایسی بہت سی کہانیاں پھیلاتے ہیں مجھے ملحد کہے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے پاکستان کا ایجنٹ کہلائے جانے پر اعتراض ہے ، کیا ایسے مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہوئے کیا کسی کو اپنی آواز اٹھانے کی جرات کرنی چاہئیے ؟ کیا کوئي رجعتی طاقتوں کے خلاف ایسی فضا میں اٹھے گا -کیا کوئی ٹیگور کے گیت گائے گا ؟اور کیا بنگالیوں کے اتحاد کی آواز اٹھانا جرم ہے ؟

تو جو کوئی بنگالی ہونے پر فخر کرے اور اس کو فوری طور پر پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا جائے تو کیسے کوئی آواز بلند ہوگی میرے احتجاج کی پرواہ کون کرتا ہے ؟ میں نے بنگالی سماج میں ہندؤ مذھب کے بیوپاریوں کی جانب سے عورتوں کو داسی بنائے رکھنے پر آواز بلند کی اور مغرب و مشرق کے بنگالیوں کو ایک ہونے کو کہا تو غلط کہا ؟ میرے احتجاج کی پرواہ کون کسی کو نہیں ہے یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ ت کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے ؟ میں اپنی زندگی کی بساط کو لپٹتا ہوا دیکھ سکتی ہوں ایک دعوت نامہ لاس اینجلس سے آیا ہے اور مجھے بنگلہ سیملن (بنگالی کانفرنس ) میں خطاب کی دعوت دی گئی ہے یہ دعوت اس عورت کو دی گئی ہے جسے سفر کرنا مرغوب ہے ، لیکن جس کا پاسپورٹ ضبط ہو چکا ہو ، وہ کیسے کہیں جاسکتی ہے میرے لیے لاس اینجلس ، نیویارک ، واشنگنٹن ، ڈلاس جانا کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا لیکن میرے لیے اپنے کلکتہ سے ڈھاکہ جانا ، ڈھاکہ کے شہید مینار پر ریڈ سن پر آگ جلانا ، دھان منڈی میں بنگلہ بندھو کی رہائش کی زیارت کرنا ، اپنے میمن سنگھ جانا بہت معنی رکھتا ہے اور مجھے قلق ہے کہ مجھے وہاں جانے سے روکا گیا ہے میں یورپ اور امریکہ کی دیوقامت عمارتوں ، کیسنیو ، میوزیم کو کھلے منہ کے ساتھ حیرت سے دیکھنے کی بجائے سونار بنگلہ کے دریاؤں کے درمیان مانجھی کے ساتھ ہلکورے کھاتی کشتی میں بیٹھ کر زیادہ خوش ہوں گی مجھے اپنے کلکتہ میں چت پور کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلنا زیادہ عزیز ہے اور چورنگی کے اوپر ٹریفک کا اژدھام اور لوگوں کے درمیان رہنا جن کی بنگلہ بھاشا مجھے سمجھ آتی ہے کو سننا زیادہ مرغوب ہے جب شاعروں کا گروہ ڈھاکہ سے ” شاعری کانفرنس سے لوٹ آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ نندن آڈیٹوریم میں آج کل کیا چل رہا ہے ؟

کون کون سے شاعروں نے کلام پڑھا ؟ بدھ کی خصوصی رات کو کیا ہوا؟ شیشر مانچھا میں کون سے ڈرامے اور کھیل سٹیج پر دکھائے گئے ؟ ڈھاکہ میں سری کیسی تھی؟ انھوں نے جو کہا اس سے میری پیاس ختم نہ ہوئی مگر مجھے لگا کہ اگر ڈھاکہ کے بارے میں اور کچھ کہا تو وہ مجھے فوری طور پر خالدہ ضیاء کی ایجنٹ کہہ ڈالیں گے ، اب مجھے نہیں پتہ کہ وہ جگہ جو کبھی تمہاری اپنی تھی تقسیم کی لیکر کھنچ جانے کے بعد اس سے اظہار محبت کے لیے وہاں کی حکومت کا ایجنٹ بننا لازم ہوتا ہے کیا مجھے اپنے دریا شیٹلاکیشیا سے محبت سے بھی دست بردار ہوجانا چاہئیے کیونکہ وہ بھی تو زیادہ بنگلہ دیش سے کزرتا ہے میں تو 90 کروڑ بنگلہ بولنے والوں کو بنگالی خیال کرتی ہوں میں ” ہم ” اور ” وہ ” کی اصطلاح مغربی و مشرقی بنگال کے لیے بے معنی خیال کرتی ہوں بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ کوئی دن جاتا ہے جب بنگالیوں کے درمیان قائم ہونے والی یہ دیوار برلن ٹوٹ جائے گی اور مشرق و مغرب کے بنگالی ایک ہوجائیں گے اور یہ نام نہاد مذھبی تفریق پر مبنی ان دیکھی دیواریں بھی گرادی جائیں گی یہ دھان کے کھیت ، آم کے باغات ، ناریل کے درخت سب بنگالیوں کا سانجھا ورثہ ہے ایک دن آئے گا جب بنگالی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بونگاؤں سے بینابول تک ، رنگ پور سے کوجی بہار تک ، میگھالے سے ہالو گھاٹ تک ، شیلانگ تامبل تک اور بوٹ مان سے نیچے پدما دریا تک اور وہاں سے دریا گنگا کے پھیلاؤ تک بھٹیالی ٹون میں مانجھی کا گیت گاتے چلیں گے میں ایسے ہی خواب کے ساتھ جیتی ہوں جو میرے دل میں جاگزیں ہے سات ماہ سے اپنے پاسپورٹ کی منتظر میں یہاں محصور ہوں میں بے مقصد اس شہر کا چکر لگاتی ہوں ،

میرے دوست بیرون ملک جاتے ہیں اور میں ان کو رخصت کرنے ائرپورٹ تک جاتی ہوں میں دیکھ سکتی ہوں کہ سنتریوں کی بندوقیں میری جانب تنی ہیں ، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ زرا ان کی مقرر کردہ لائن عبور کرکے دیکھو میں ایسا اس لیے سمجھتی ہوں کہ ایسی کوئی حدیں میں نے اپنے لیے مقرر کی نہیں ہیں جسے وہ حدیں سمجھتے ہیں اور اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں ابھی کچھ دن بعد مغربی بنگال میں میرے خلاف عام ہڑتال کی کال دی گئی ہے ، حکومت سے ان کا مطالبہ ہے کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے تو اس دن تمام ٹرینیں بند ہوں گی ، بسیں نہیں چلیں گی ، دفاتر اور کاروباری مراکز ، اسکول کالجز سب بند ہوجائیں گے پھر حکومت کے پاس میری پھانسی کی تاریخ اور وقت مقرر کرنے کے سوا کوئی راستہ بچے گا نہیں اگر میری موت سے بنگالی ایک متحدہ ملک کے شہری بن جاتے ہیں تو میں مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے سے جھول جاؤں گی اور میں اپنی جان دینے کو تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیسوں کے لیے نہیں بلاکہ عقلیت پسندی اور انسانیت پسندی کے لیے

Source:

http://aamirfiction.blogspot.com/2014/09/blog-post_21.html

Comments

comments