مصاحب اور وزیر اعظم – آصف زیدی
(شورش کاسمیری سے معزرت کیساتھ)
مصاحبین
حضور ہم تیس برس سے حاشیہ بردار اولٰی ہیں
عمومی شور و غل شہروں کی دیرینہ طبیعت ہے
سیاسی کھیل ہیں، شوریدہ سر ہلڑ مچاتے ہیں
انہیں لیڈر نچاتے ہیں
ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں
اگر ہم جیل بھجوائیں
تو اکثر تلملاتے ہیں
حضور! ہم خانہ زادِ سلطنت سجدے لٹاتے ہیں
وزیر اعظم
بکو مت چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
یہاں کیا ہو رہا ہے، کون سا شیطان اٹھا ہے
جھروکے سے اُدھر دیکھو، یہ کیا طوفاں اٹھا ہے
دمادم، پے بہ پے گو نواز گو کے نعرے؟
افق پر بے تحاشا جھملاتی شام کے تارے
گرجتے گونجتے الفاظ میں تقریر کے پارے
بکو مت، چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
پارلیمان
امیر المومنین! باہر ڈیرہ ہے کپتان صاحب کا
گویا بہتر نشتروں میں ایک نشتر میر صاحب کا
بہ قول ظل الہی ، چہرہ ماہتابی ہے
طبیعت آفتابی ہے
خدا جانے؟ سنا ہے
بچپنے ہی سے شتابی ہے
اس کے بہت سے منچلے بھی ساتھ بیٹھے ہیں
قادریُ ہفت خواں کے ولولے بھی ساتھ بیٹھے ہیں
جوانی ناگنوں کے رنگ میں آواز دیتی ہے
دل سد رہ نشیں کو طاقت پرواز دیتی ہے
وزیر اعظم
انصاف کے داعی، مقتولوں کے وارث، آزادی کے مجنون
فضا ملک کی ہنگامہ پرور ہوتی جاتی ہے
کہاں ہو؟ کس طرف ہو؟ دیکھتے کیا ہو میاں ممنون
جمہور کی صدارت اس لیے تم کو عطا کی ہے
عوام الناس بازاروں میں نعرہ باز ہو جائیں
ماڈل ٹاؤن کے چند مقتول درپےُ شہباز ہوجائیں
ارے گھسیٹے، ارے نکموں کے باوا
سوچتا کیا ہے؟
جناب صدر
امیر المومنین!۔۔۔۔ ہم بندگانِ خاص کے آقا
ہم ایسے سینکڑوں سرکارِ عالی پر نچھاور ہیں
یقیں کیجیے، حریفوں کے مقابل میں دلاور ہیں
جری ہیں، جانتے ہیں بچپنے سے جاننے والے
کہ ہم ہیں آپکو ظلِ الٰہی ماننے والے
مرے قبلہ، مرے آقا، مرے مولا، مرے محسن
سوائے چند اوباشوں کے، ساری قوم خادم ہے
سیاسی نٹ کھٹوں کی گرم گفتاری پر نادم ہے
وزیر اعظم
بکو مت، چپ رہو، یہ ہم سمجھتے ہیں یہاں کیا ہے
وہ قادری کے فتنے اور کپتان کے شوشے
وہ وی آئ پی کلچر پہ بھڑکے ہوئے گوشے
ماڈل ٹاؤن کا وہ شاطرِ اعظم، معاذ اللہ
کوئی ٹکرائے اس کپتان سے، یہ تاب ہے کس میں؟
کوئی ایسا بھی ہے، یہ جوہرِ نایاب ہے کس میں؟
وہ کائیاں چودھری یعنی وزیراعظم سابق
پڑا ہے لٹھ لیے پیچھے مرے اور ضرب ہے کاری
تمہیں معلوم ہے چودھریوں کی سیہ کاری؟
وہ شجاعت، جو مجھے کہتا تھا لیڈر، اب کہاں پر ہے
کہ سخت گفتنی نا گفتنی اس کی زباں پر ہے
وہ عمران جس نے دھرنے سے لرزا دیا سب کو
تمہیں معلوم ہے بد بخت نے تڑپا دیا سب کو
قادری اور عمران کس لیے آزاد پھرتے ہیں
انہیں زنداں میں ڈلواؤ، دار پر کھنچواؤ، مرواؤ
ہمارا حکم ہے ان سب کے خنجر گھونپتے جاؤ
جسارت اس قدر؟ اب گالیاں دینے پہ اترے ہیں
سیاسی نٹ کھٹوں کے بیچ بازاریوں کے نخرے ہیں
وزیر اعظم رقاصہُ جمہوریت سے
اری نازک بدن، زہرہ ادا، گوہر صفت لیلٰی
ترے قربان، بوڑھی ہڈیوں میں جان آ جائے
رخِ زیبا پہ غازہ ہے مگر سی آئی اے کا ہے
کوئی داؤ بتا، یہ بے تکا طوفان تھم جائے
ہمارا پاؤں اکھڑا جا رہا ہے پھر سے جم جائے
بتا نور جہاں، نورِ نظر، رقاصۂ عالم
ہماری ذات اقدس سے عوام الناس ہیں برہم
رقاصہُ جمہوریت
مرے آقا! اجازت ہو تو میری بات اتنی ہے
شریروں کی ہمارے ملک میں تعداد کتنی ہے؟
ہے اک ملا، کچھ ورثاُ، چند سو لڑکے شریروں میں
پرانے گھاگ لیڈر، جیل خانے کے اسیروں میں
انہیں زہر اب دے کر گولیوں سے کیجیے ٹھنڈا
کہ شوریدہ سروں کی ڈار کا استاد ہے ڈنڈا
یہ سب گستاخ ہیں، ان کے لیے تعزیر واجب ہے
یہ سب غدار ہیں، ان کے لیے زنجیر واجب ہے
یہ سب جاہل مسافر موت کے ہیں، موت پائیں گے
کسی حیلے بہانے سے نہ ہر گز باز آئیں گے
وزیر اعظم
بہت اچھا، ہم اب ان کے لیےماڈل ٹاؤن سا اہتمام کرتے ہیں
بس ان گستاخ غداروں کی موت کا کچھ انتظام کرتے ہیں
از نگاہُ مستقبل
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
الٹ ڈالا، عوام الناس سے فرعون کا تختہ
طنابیں ٹوٹتی ہیں، شاہ زادے تھر تھراتے ہیں
وہ امیرلمومنیں نے لاہور کو رخت سفر باندھا
وہ رقاصہ نکل کے پہلوئے اغیار میں پہنچی
کٹی شب دختِ رز پیمانۂ افکار میں پہنچی
سیاسی ڈوم ڈھاری چل بسے، شورِ فغاں اٹھا
زمانے کی روش پر ایک سیلاب رواں اٹھا
بہت سی قمریوں سے باغبانوں کو ہلا ڈالا
کئی ذروں نے مل کر آسمانوں کو ہلا ڈالا
عوام الناس جاگ اٹھیں،تو ناممکن ہے سو جائیں
علی بابا کے چوروں کی زبانیں گنگ ہو جائیں