Tariq Ali’s “Pushtun nationalists” kill tribal elders: At least 50 Pushtuns butchered by extremist Deobandis in Mohmand agency
Related articles:
The Taliban is NOT an expression of Pushtun Nationalism – By Qudsia Siddiqi
Pakistan’s left towards rights- Tariq Ali praises Taliban and Hezbollah
MOHMAND AGENCY: At least 40 people were killed and 70 others wounded when a suicide bomber attacked the office of a political agent in Ghalnai on Monday.
The bomber hit the office at about 2:00pm, killing 40 people including two journalists. About 30 injured have been shifted to Peshawar, the provincial capital of Khyber Pakhtunkhwa. An emergency has been imposed at Lady Reading Hospital, Peshawar. Two bodies have also been taken to Peshawar’s hospital.
The political administration of Mohmand Agency told SAMAA that several injured people are in critical condition.
While talking to the media after visiting the injured in Lady Reading Hospital, provincial Information Minister Mian Iftikhar Hussain said that the government was taking all possible measures to curb the menace of terrorism from the country. But, he added, peace in Pakistan is linked to peace in Afghanistan. He bitterly condemned the suicide blast and directed the hospital administration to provide better facilities to the injured. Mian Iftikhar Hussain was of the view that this situation will continue in the country for the next 14 years if proper steps are not taken against terrorism. (Source)
مہمند ایجنسی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ دھماکے مہمند ایجنسی کے علاقے غلنئی میں واقع پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر کے باہر ہوئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک نے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا ہے جبکہ دوسرے کو سکیورٹی اہلکاروں نے گیٹ پر روکا جہاں اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
کلِک مہمند میں خودکش دھماکے: تصاویر
ہمارے نامہ نگار عزیز اللہ خان نے بتایا کہ پولیٹیکل ایجنٹ مہمند ایجنسی امجد علی خان نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں حملہ آوروں نے خاصہ داروں کی یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرتبہ بارودی مواد کے ساتھ چھروں کی بجائے گولیاں ڈالی گئی تھیں اور یہ گولی جس کو لگی ہے وہ موقع پر ہلاک ہوا ہے۔
دونوں حملہ آوروں نے خاصہ داروں کی یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرتبہ بارودی مواد کے ساتھ چھروں کی بجائے گولیاں ڈالی گئی تھیں اور یہ گولی جس کو لگی ہے وہ موقع پر ہلاک ہوا ہے۔
مہمند پولیٹیکل ایجنٹ
انھوں نے کہا کہ یہ حملہ دوپہر دو بجے کیا گیا ہے اور اس وقت مقامی قبائل کا ایک جرگہ ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں روایات کے مطابق ہر ایک کی جامہ تلاشی لینا مشکل کام ہے ۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں دو صحافی اور دو قبائلی رہنما شامل ہیں جبکہ ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ زخمی ہوئے ہیں۔
دریں اثنا تحریک طالبان پاکستان کے مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خالد نے نامعلوم مقام سے ٹیلیفون پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ یہ کارروائی چند ماہ پہلے ان کے عرب ساتھیوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن اور ان کی گرفتاری کے خلاف کی گئی ہے۔
یاد رہے چند روز پہلے مہمند ایجنسی کی تحصیل صافی میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے حملے جاری رہیں گے۔
Source: BBC Urdu
Finally came the bombshell. Instead of denouncing the atrocities carried out by the Taliban, the beheadings and the throwing of acid on the faces of schoolgirls, Tariq Ali eulogized the neo-Taliban as an indigenous movement representing Pashtun nationalism.
Suddenly it all made sense, for Tariq Ali. For him, the world had shrunk to the two opposite poles – America
on one sides and the global Islamic militancy. Anything anti-American would do, regardless of its nature being oppressive, anti-progressive, anti-democratic and anti-human.
What Tariq Ali said that evening would make Jamaat-e-Islami, chief Qazi Hussain Ahmed and former Director General ISI Hameed Gul (godfather of the Taliban) applaud and dance with joy.
Unfortunately, that was not the end of the story. He also managed to present one dramatized case of forcible disappearance of a Pakistani citizen Aafia Siddiqui now in US custody for alleged links with Al-Qaida.
http://iaoj.wordpress.com/2008/11/22/tariq-ali-praises-taliban-and-hezbollah/
Another evidence of Pushtun nationalism of the Taliban:
’اغوا کرنے والے عرب معلوم ہوتے تھے‘
عبدل خالق فراحی دو سال اور دو ماہ تک مغوی رہے
پشاور سے کلِک اغوا ہونے اور دو سال تک مغوی رہنے والے سابق افغان قونصل جنرل عبدل خالق فراحی نے افغان ٹیلی ویژن پر ایک خصوصی انٹرویوں میں بتایا ہے کہ ان کو اٹھانے والے فوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور ان لوگوں کے کمانڈر اور سینئیر اہلکار عرب معلوم ہوتے تھے۔
’پھر پُل کے بعد ایسا لگا کہ پندرہ بیس منٹ تک چلتے گئے اور ایک اور چوراہے پر آئے۔ پھر مجھے ایک دوسری گاڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ وہ چھوٹی گاڑی تھی، مجھے اس میں بیٹھتے ہوئے سر کافی بچانا پڑا۔ پھر انہوں نےگاڑی کو لے جا کر اندر کسی جگہ کھڑا کر دیا جو کہ مجھے لگا کہ مسجد یا مدرسہ ہے۔ ہم وہاں تین دن رکے۔ پھر فجر سے پہلے وہ مجھے کہیں اور لے گئے۔ وہ بھی شاید مدرسہ یا مسجد تھی۔
جب وہ اندر آتے تھے تو وہ نقاب پوش تھے۔وہ القاعدہ کے غیر ملکی تھے۔ مجھ سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ تمام گارڈ عرب تھے، شاید مراکش سے تھے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/12/101206_farahi_kidnap_release_afghan_uk.shtml