نواز، عمران، قادری سیاسی کشمکش کا ایک تجزیہ – کاشف نصیر

ns

میں کسی حاکم کا مداری، کسی شخصیت کا پجاری یا کسی ریوڑ میں ہنکایا جانے والی بهیڑ نہیں ہوں. میں کبهی کوئی زندہ باد کا نعرا نہیں لگاتا، میں کسی نواز، زرداری، عمران، الطاف، فضل الرحمان اور سراج الحق کو اپنی پلکوں میں سجائے نہیں بیٹها، میں امیدوں کے چراغ اور خوابوں کی رنگینیوں میں کهویا ہوا نہیں ہوں. میں ایک حقیقی زندگی میں رہنے کی کوشش کرتا ہوں

میں جانتا ہوں کہ بدعنوانی، اقربا پروری، شخصیت پرستی، بے ایمانی، جهوٹ، دهوکہ بازی اور وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں جابجا ایک مرض کی طرح سرایت کرچکی ہے. لیکن میرے مطابق اس مرض کا علاج راتوں رات ممکن نہیں ہے. انبیاء بهی اپنی قوموں کو ایک پراسیس سے گزارتے تهے تو پهر ہم کس طرح راتوں رات اپنی قوم کا اجتماعی مزاج تبدیل کرسکتے ہیں؟

بحثیت قوم ہم ماضی میں کئی قسم کے تجربات سے گزرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دستیاب آپشن میں جو نظام ہم نے اپنی اجتماعی فکر سے مرتب کیا ہے وہی ایک قابل عمل اور موضوع ترین حل ہے اور اسی شاہرائے دستور پر چل کر ہم آگے بڑه سکتے ہیں. شاید دوسرا حل ایک کامل انقلاب ہوسکتا ہے جو نظریہ، دعوت، نظم، صبر محض، تصادم اور توسیع وتصدیر کے عظیم تر اور وسیع البنیاد پراسیس کے نتیجے میں برپا ہو. اگر انقلاب کا مطلب حکومتیں گرانا ہیں تو یقینی طور ہمارا ہر فوجی حکمران انقلابی تها اور آج قادری و عمران کے پیچهے کهڑے غلام مصطفی کهر، سردار آصف، چوہدری برادران، شیخ رشید، قریشی، قصوری، خٹک، سواتی، ترین، اختر ایسے سب کے سب انقلابی ہیں اسی طرح کے چہرے نواز شریف کی مسلم لیگ نون میں بھی نظر آتے ہیں

لیکن انقلاب کا مطلب حکومتیں گرانا نہیں بلکہ معاشرے کے تمام اجسام کو انکی تمام تر باطنی و ظاہری وصف میں بدل کر رکه دینا ہے. پهر اس انقلاب کی باتیں تو بندا اسوقت کرے جب آپکو کہیں کوئی حقیقی انقلابی دعوت نظر آرہی ہو. ہمارے قومی و علاقائی سطح کے تمام اکابرین گهوم پهر کر اسی دستور اور اسی نظام کے گرد بلارہے ہیں، ہاں راستے سب نے اپنے اپنے بنائے ہوئے ہیں، کسی کے جائز اور کسی کے ناجائز. پهر انقلاب کا پراسیس تباہ کن ہوا کرتا ہے، انقلاب پہلے رائج نظام کو بلڈوزر سے منہدم کرتا ہے، پهر اس نظام سے وابستہ ایک ایک فرد، ایک ایک شہ اور ایک ایک جز کو نست و نابود کرکے نشانہ عبرت بنادیا جاتا ہے اور آخر میں اس تباہی کے اوپر تعمیر نو اور توسیع و تصدیر کا سلسلہ چلتا ہے جیسا فرانس، روس اور ایران میں ہوا. خام اور خام خیالی انقلاب کا نتیخہ ہے وہی نکلتا ہے جو 25 جنوری کے نام نہاد مصری انقلاب کا نکلا تها حالانکہ اخوان کی واضع فکر، متحرک دعوت، شاندار نظم اور لائق تحسین صبر محض ایسے عناصر اس تحریک کا لازمی جز تهے لیکن انقلابی پراسیس کا آخری اور لامحالہ عنصر یعنی تصادم و توسیع و تصدیر اپنے حقیقی انقلابی تصور کے ساته وقوع پزیر نہیں ہوا تها. اول تو پاکستان میں اخوان کے قریب قریب بهی کوئی مذہبی یا غیر مذہبی انقلابی تحریک یا دعوت موجود نہیں اور اگر موجود ہو بهی تو جس قسم کی خون ریزی اور تباہی اسکے لئے درکار ہے اسکے تصور سے ہی رونگتے کهڑے ہوجاتے ہیں.

جدید دنیا نے انقلاب کے اس ہولناک فارمولے کے برعکس جو راستہ اختیار کیا اسے اصلاحات، جمہوریت اور تسلسل کا راستہ کہتے ہیں، اسکی بہتر مثالیں ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا اور ہندوستان ہیں. ان ملکوں کے حالات بهی کسی طور پر ہم سے بہتر نہ تهے لیکن اصلاحات، جمہوریت اور تسلسل آج انہیں ترقی یافتہ ملکوں کے قریب لے آئی ہے

کسی دانا نے کہا تها کہ وطن عزیز کا نظام صرف دو ستونوں پر قائم رہ سکتا ہے ایک اسلام اور دوسرا جمہوریت.- ایسا اسلام جس میں تمام اسلامی فرقوں کے ساتھ برابری اور عزت کا سلوک ہو اور تمام غیر اسلامی اقلیتوں کے ساتھ برابر کے عزت دار شہری جیسا سلوک کیا جائے – ہوسکتا ہے کہ آپکو اسلام، جمہوریت یا دونوں پسند نہ ہوں یا دونوں میں باہمی تضاد نظر آتا ہو لیکن اسلامی فلاحی نظریات اور جمہوریت کے ستو نوں پر کهڑا ہمارا نظام، ہماری معاشرتی مجبوری ہے اور ہماری ضرورت بهی. خدا کے لئے اسے چلنے دیں، چاہے یہ بیس کی رفتار سے چلے یا اسی کی رفتار سے. کوئی بهی خام انقلاب، ایڈونچرازم اس ملک کو کچھ نہیں دےگا سوائے اسکے کہ تماشہ چلتا رہے گا، اقتدار کے سرکس میں ہر مہم جو اپنے لشکر کو فرشتوں کی جماعت اور حکومت وقت کو یزیدیت اور فرعونیت کا طعنہ مارتا رہے گا – موجودہ نظام میں بہت سقم ہیں لیکن ان کی اصلاح اسی نظام میں رہتے ہوئے پر امن ذریعوں سے مشکل تو ضرور ہے، نا ممکن نہیں

Comments

comments