آزاد عدلیہ، ایک خواب – از خرم زکی
عدالت عظمیٰ نے موجودہ سیاسی بحران اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے جو از خود نوٹس لیا ہوا ہے، اس کیس کی سماعت کے دوران آج جسٹس جواد خواجہ نے ریڈ زون میں دھرنے کے خلاف ریمارکس دیتے ہوۓ فرمایا کہ “ دھرنے کی وجہ سے آج عدالت پہنچنے میں مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے۔ ججز کو آج لمبے راستے سے عدالت آنا پڑا” گویا مختصر رستے سے آنا بھی ججز حضرات کے بنیادی انسانی حقوق میں سے شامل ہے اور متبادل رستے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، ہاں مگر یاد رہے وزراء اور دیگر سرکاری حکام کے پروٹوکول کی وجہ سے جو گھنٹوں ٹریفک روک دیا جاتا ہے ، اور عام عوام کو متبادل راستہ ک فراہم نہیں کیا جاتا، وہ اس کمزور، پسی ہوئی لاچار عوام کا نصیب ہے، اور عوام کو اس بیچارگی اور ظلم کےخلاف آواز اٹھانے کا بھی حق حاصل نہیں کیوں کہ بقول جج صاحب ان کو احتجاج کی وجہ سے ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں لمبا راستہ طے کر کے کورٹ آنا پڑا. یہاں ہمارے “عام عوام” کی معلومات میں اضافہ کے لیۓ عرض کر دوں کہ امریکی سپریم کورٹ ایسے ہی ایک مقدمہ میں قرار دے چکی ہے کہ امریکی سپریم کورٹ بلڈنگ کا ماربل پلازہ تو اس “بفر زون” کا حصہ ہے جہاں احتجاجی اور سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو سکتیں لیکن سپریم کورٹ کے باہر ایسا کوئی “بفر زون” موجود نہیں جہاں سیاسی اور احتجاجی سرگرمیوں سے روکا جا سکے.مگر شائد ہمارے جج صاحبان کا بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے شعور اور معیار امریکی ججوں سے بھی کافی بڑھ کر ہے . یہ سب بھی قابل برداشت ہوتا اگر یہ “فاضل” عدالتیں ایک عام شہری کے بنیادی انسانی حقوق کی بھی ساتھ ساتھ حفاظت کر رہی ہوتیں.میرا سوال جسٹس جواد خواجہ صاحب سے یہ ہے کہ ٹھیک مانا کہ مختصر راستے سے کورٹ آنا آپ کا بنیادی انسانی حق ہے لیکن کیا زندہ رہنے کی آزادی اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کا حق نہیں ؟اگر ہے اور آئین پاکستان اس کی ضمانت لیتا ہے تو ماڈل ٹاؤن لاہور میں نواز شریف اور شہباز شریف کے ہاتھوں ١٤ افراد کا قتل عام آپ کو آج تک کیوں نہیں نظر آیا ؟ کیا وجہ ہے کہ سیشن کورٹ لاہور کی جانب سے نواز شریف اور شہباز شریف سمیت ٢١ افراد کے خلاف ایف آئ درج کرنے کے حکم کی خلاف ورزی آپ کو نظر نہیں آئ ؟ کیا آپ کو سارے حقوق حاصل ہیں اور باقی عوام جانوروں سے بھی بد تر ہے کہ جن سے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے ؟کیا قانون کی نظر میں تمام شہری، میں، آپ اور وزیر اعظم برابر نہیں ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اس ملک کی انتظامیہ کورٹ کے احکام کے باوجود بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے خلاف ایف آئ آر درج نہیں کرتی اور عدالت عظمیٰ اس پر کوئی از خود نوٹس نہیں لیتی ؟ یہ جانبداری کیوں ؟ کیا گوجرانوالہ میں احمدی کمیونٹی کا جو قتل عام کیا گیا، ان کی املاک جس طرح سے نذر آتش کی گئیں، خواتین و بچوں کو جو زندہ جلایا گیا، ان کو انصاف دلوا دیا آپ کی عدالتوں نے ؟ آپ کے لمبے روٹ سے کورٹ آنے پر تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے لیکن اسی ملک میں ٤ لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، آج تک اس خاتون اور معصوم بچوں کے قاتلوں کو گرفتار تک نہیں کیا جاتا اور پھر بھی عدالت کی نظر میں کسی “بنیادی حق” کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ؟ واضح اعلان کر دیا جاۓ کہ یہ عدالتیں عام عوام کو انصاف دینے سے قاصر ہیں، یہاں سے ملک اسحق اور احمد لدھیانوی جیسے تکفیری خارجی دہشتگرد “با عزت” بری تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کو سزا نہیں مل سکتی، اعلان کر دیا جاۓ کہ یہ کینگرو کورٹس ہیں، یہ بادشاہ سلامت کے زر خرید ججز ہیں، جن سے بادشاہ کی رعایا کو کوئی انصاف نہیں مل سکتا، یہ بتا دیا جاۓ اور پھر ہم سب کو اس جرم ضعیفی کی بھی سزا سنا دی جاۓ لیکن براۓ مہربانی انصاف کو کھیل اور تماشہ نہیں بنایا جاۓ.حکومتی وفد عوامی تحریک سے مذاکرات کرنے جات ہے اور بتاتا ہے کہ جناب ٢١ میں سے ١٩ افراد کے خلاف کروائی ہو سکتی ہے لنک وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے خلاف کروائی نہیں ہو گی. کیوں جج صاحب، ہم کیا اس سعودی وائسرائے کے غلام ہیں ؟ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو کیوں ہتھکڑی نہیں پہنائی جا سکتی ؟ یہ آسمان سے اترے ہیں ؟ اب آپ کو بنیادی انسانی حقوق کیوں نظر نہیں آتے ؟آپ یہ نہ سمجھیں کے آپ قانون سے بالاتر ہیں. اس ملک کا ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہے اور اس برابری کو طلب کرنا میرا بنیادی حق اور نہ مل سکنے کی صورت میں احتجاج کرنا بھی میرا بنیادی حق چاہے اس کے لیۓ آپ کو مزید دس کلو میٹر طویل سفر طے کر کے کورٹ پہنچنا پڑے کیوں کہ انصاف صرف نجم سیٹھی ہی کا حق نہیں.