بامیان کے غاروں میں رہنے والے – از ایوب آرون اور داؤد قاری زادہ
ریگی چٹانوں والا افغانستان کا صوبہ بامیان چھٹی صدی عیسوی کے مہاتما بدھ کے قدِ آدم مجسموں کے لیے مشہور ہے جسے چٹانوں میں کھود کر بنایا گیا تھا جنہیں طالبان نے 2001 میں تباہ کر دیا تھا۔
جن بدھ راہبوں نے ان مجسموں کو بنایا تھا انھوں نے بامیان کی وادی میں کئی غار بھی بنائے تھے
آغاز میں ان کا استعمال دھیان (مراقبے، عبادت و ریاضت) اور دنیا سے کنارہ کشی کے لیے ہوتا تھا لیکن ان میں سے بعض غاروں میں تقریباً 700 افغان کنبے آباد ہیں جن کے پاس نہ تو زمین ہے اور نہ ہی وہ روایتی گھر بنانے کی سکت رکھتے ہیں۔
رمضان اور ان کی اہلیہ زہرہ اس میں گذشتہ آٹھ سالوں سے اسی طرح کے غار میں رہ رہے ہیں۔
ان کا بیٹا اور دو لڑکیاں انھیں غاروں میں پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرے مقامی بچوں کی طرح وہ بھی سکول نہیں جاتے۔
رمضان کا کہنا ہے کہ ’یہاں تعلیم یافتہ شخص بننے کی کوئی امید نہیں ہے۔‘
آس پاس کوئی سکول بھی نہیں ہے اور سخت غربت و افلاس کے سبب لوگ اپنے بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔
رمضان رہائش کے لیے کسی اچھی جگہ کی تلاش میں ہیں، ایک بار وہ باہر نکلے تھے لیکن کرائے کا بوجھ نہ اٹھا سکنے کی وجہ سے یہیں واپس آ گئے۔
بہت سے غاروں کی لکڑیوں اور اینٹوں سے مرمت کی گئی ہے۔
حب دیوبندی طالبان نے 1990 کی دہائی میں بامیان پر قبضہ کیا تو ان غاروں میں رہنے والے بیشتر لوگ اپنا آبائی گھر گنوا بیٹھے۔
اسی عرصے کے دوران اس علاقے میں رہنے والی اکثریتی آبادی جن کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے تھا اور اُن کے گھروں کو سنی سخت گیر تحریک کے نتیجے میں نذر آتش کر دیا گیا تھا۔
جب لوگ واپس آئے تو انھیں کہیں جانے کا راستہ نظر نہیں آیا۔
47 سالہ حلیمہ کی زندگی بھی انہیں دنوں یکسر تبدیل ہو گئی جب طالبان نے ان کے شوہر کو مار ڈالا۔
وہ ایک کمرے کے ایک غار میں اپنے بیٹے، بہو اور تین پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
ناہموار دیوار پر ان کے اہل خانہ کی تصویر لگی ہوئی ہے اور فرش پر قالین بچھا ہوا ہے۔
انھوں نے کہا: ’یہاں زندگی کبھی بھی آسان نہیں تھی۔‘
حلیمہ اور ان کی بہو زردوزی کے کام سے کچھ پیسے کماتی ہیں اور وہی گھر کی روٹی کمانے والی ہیں۔ ان کی سب سے قیمتی ملکیت ان کا ایک گدھا اور چند مرغیاں ہیں۔
چند سال قبل مقامی حکام نے وہاں کے مکینوں کو زمین کا پلاٹ دے کر غاروں سے نکال کر دوسری جگہ آباد کرنے کی کوشش کی تھی جو ناکام ہو گئی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’زمینیں دور دراز کے علاقوں میں ہیں جہاں تازہ پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور کسی کے پاس مکان بنانے کا پیسہ بھی نہیں۔‘
غاروں میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں ’بھلا دیا گیا ہے۔‘
ایک دوسرے رہائشی علی حسن نے کہا ’جس طرح ہم گذشتہ دس سال سے سنتے آرہے ہیں یہاں آئندہ بھی کوئی حکومت نہیں رہے گی۔‘
مقامی حکام اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
جتنے عرصے یہ لوگ غاروں میں رہیں گے اتنا ہی ان مقامات کو نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ اپنے غاروں پر دروازے اور کھڑکیاں لگا رہے اور اس میں عارضی اضافے کر رہے ہیں۔
بامیان کے گورنر غلام علی وحدت نے کہا: ’یہ غار ہماری تاریخی وراثت ہیں انھیں خالی ہونا چاہیے، ان کا تحفظ ہونا چاہیے اور سیاحوں کے لیے اسے کھول دیا جانا چاہیے۔‘
اب علی وحدت کابل کی مرکزی حکومت کی جانب امداد کے لیے دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان لوگوں کی آباد کاری کے لیے کوئی منصوبہ بنائے۔
لیکن بامیان میں صرف غار کے مکین ہی واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ رمضان اور حلیمہ کے گھر سے پانچ منٹ پیدل کی مسافت پر کئی منزل بلند خالی جھروکے اور طاقچے والی چٹانیں ہیں جہاں مہاتما بدھ کی مورتی ہوا کرتی تھی۔
جب دیوبندی طالبان نے انہیں طیارہ شکن توپوں، ٹینکوں اور بالآخر ڈائنامائٹ سے ان کو تباہ کیا تو ریگی چٹانوں میں دراڑیں پڑ گئی اور بہت سی آس پڑوس کی چٹانوں کا حصہ مخدوش ہو کر جزوی طور پر گرگیا ہے۔
کابل میں یونیسکو پروجیکٹ کی مینیجر سارہ نوشادی نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم لوگوں نے ان طاقچوں کو بحال کردیا ہے جہاں بودھ کے چھوٹے مجسمے تھے اور اب ہم بڑے مجسمے پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں دو سال لگیں گے۔‘
واضح رہے کہ بامیان کو جنوبی ایشیا 2015 کے لیے ثقافتی دارالحکومت منتخب کیا گیا ہے۔ افغان کے بہت سے افراد یہ امید کرتے ہیں کہ اس سے اسے اور کئی دہائیوں پہلے کی حالت میں واپس لایا جاسکتا ہے اور یہ مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے اہم مقام ہوگا۔
بامیان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے بالآخر حکومت کو غاروں میں رہنے والوں کے لیے کوئی دوسری جگہ تلاش کرنی پڑے گی۔
Source: