قائد کے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق
بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے11اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ھوۓ کہا تھا، کہ ’’ آپ آزاد ہیں، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں ، مسجدوں، مندروں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا مذہب کیا ہے، فرقہ کیا ہے، ذات کیا ہے، قوم کیا ہے اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں”۔
قائداعظم محمد علی جناح نےمزید فرمایا تھا کہ ،”وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گااورمسلمان،مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر یعنی یہ کہ سب کے لئےسیاسی آزادی برابرہو گی”۔
قائداعظم محمد علی جناح کی یہ تقریر واضح کرتی ہے کہ وہ ملک میں ایسانظام قائم کرناچاہتے تھے جس میں تمام مذاہب،فقہوں اورمسالک سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے ساتھ مساوی سلوک کیاجائے اورانہیں برابرکاپاکستانی سمجھاجائے۔
قائداعظم کی یہ تاریخی تقریر ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک لبرل ، پروگریسو اور سیکولر رہنما تھے وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں اقلیتیں بھی ملک میں بسنے والی اکثریت کی طرح سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں اور ان کے بھی برابر کے حقوق ہوں اور وہ ملک میں آزادی سے رہتے ہوئے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جاکر عبادت کرسکیں۔
قائداعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں مذہب، فرقہ، رنگ نسل ، زبان و قومیت کی کوئی تفریق نہ ہو۔قائداعظم کے مطابق پاکستان میں مسلمان، عیسائی اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکار اپنی عبادت گاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں اوران کی شناخت مسلمان، عیسائی یا ہندو کے طورپر نہیں بلکہ پاکستانی شہری کی طور پر ہوگی. قائداعظم نے اپنی تقریر میں رہنماء اصول وضع کئے تھے اور کہا تھا کہ ان اصولوں کی بنیاد پر ریاست قائم ہوگی۔ انہوں نے رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر تمام شہریوں کے حقوق کی بات کی اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔قیام پاکستان کے بعد سے آج تک پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں نے نہ صرف ملک کے منتخب ایوانوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے اہم کردارادا کیا ہے ان کی حب الوطنی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
قائداعظم کی اس تاریخی تقریر کی یاد میں گیارہ اگست کو ملک میں بسنے والی تما م اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا دن منا یا جاتا ہے۔
اقلیتوں نے ہمیشہ ملک اور قوم کی لئے اعلی خدمات دی ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں مختلف اقیلیتی برادریوں کی پاکستان کے لئے کیا کیا خدمات ہیں۔
مسیحی برادری
مسیحی برادری کا پاکستان بنانے کی جدوجہد میں کردار کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔تقسیم کے وقت مسیحی قیادت نے باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد کے حق میں اپنا اضافی ووٹ ڈال کر قیامِ پاکستان کو ممکن بنایا تھا۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں اقلیتیوں کےکردار کا بیان درسی کتب میں شامل نہ ہونا ایک بہت بڑی غلطی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ قیامِ پاکستان میں اقلیتیوں کےکردار کا سبق بھی شامل کیا جائے۔
جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس آٹھ برس تک پاکستان کے چیف جسٹس رہے تھے۔پینسٹھ کی جنگ میں فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو ناکوںچنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا تھا۔
پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مسیحی برادری کا اہم کردار رہا ہے، عیسائی مشنری اسکولوں کا شمار آج بھی بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔
مسیحی برادری شوبز میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے.گلوکاراے نیر، بنجیمن سسٹرز،اداکارہ شبنم اور اداکارہ جیا علی بھی مسیحی برادری سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔
پارسی برادری
پاکستان کی اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے اہم حیثیت رکھتے ہیں پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔
جمشید نسروانجی جنہوں نے کراچی کے ماسٹر پلاننگ میں اہم ترین کردار ادا کیا ایم اے جناح روڈ پر سابقہ کے ایم سی کے دفاتر قائم کئے تھے اس وقت اس سے پیشتر یہ دفاتر میکلوڈ روڈ پر قائم تھے یہ جمشید نسروانجی کا اہم ترین کارنامہ ہے جمشید کوارٹرز جمشید نسروانجی کے نام سے موسوم یہ بستی کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لئے آباد کی گئی تھی۔
کراچی کی تعمیر وترقی میں دوسرا اہم نام ایڈلجی ڈنشا کا آتا ہے۔ایڈلجی ڈنشا کراچی کے ایک مخیر تاجرتھے انہوں نے کراچی کے شہریوں کے لئے بہت سے رفاحی اور فلاحی کام انجام دئے ان میں سے ایک ایڈل جی ڈنشا ڈسپنسری ہے یہ انہوں نے 1882 میں آج سے تقریباً سوا صدی قبل تعمیر کی تھی-اسی طرح نادر شاہ ایڈلجی کے ورثانے کراچی کے پہلے اینجینرنگ کالج کے لئے بھاری مقدار میں رقم کی فراہمی کا اعلان کیا تھا اس وجہ سے اس کالج کا نام نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی کالج کہا جانے لگا۔
کراچی کے اہم ترین اور ساحلی مقام کلفٹن پر ایک اورمخیر پارسی تاجر جہانگر ایچ کوٹھاری نے ایک بڑا قطعہ آراضی اور اس کے ساتھ تین لاکھ روپے کراچی کی میونسپلٹی کو بطور عطیہ دئے تھے اس وقت یہ تین لاکھ روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی ( صدر کا جہانگیر پارک انہی کے نام پر موسوم ہے )کراچی کے میونسپل ادارے نے اس رقم سے اس مقام پر ایک خوبصورت ترین عمارت قائم کی جسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہا جاتا ہے۔
رستم سدھوا کراچی کے آٹھ سال تک بلا مقابلہ مئیر رہے ان کی خدمات کراچی کے حوالے سے بہت سی ہیں -اس وقت پاکستان کے اہم اور بڑے تاجروں میں بہرام ڈی آواری کا نام لیا جاتا ہے جبکہ یہ وہی آواری ہیں جنہوں نے کشتی رانی کے بین القوامی مقابلوں میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا۔
صحافت میں بھی پارسی برادری کسی سے پیچھے نہیں ہے. ارد شیر کاوس صحافت میں ایک بڑا نام تھے۔
احمدی برادری
احمدی برادری نے تحریک پاکستان میں عملی طورپر حصہ لیااورمسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبہ کی حمایت کی۔ مسلم لیگی رہنما سرظفر الله خان کا تعلق احمدی برادری سے تھا جو بعد میں پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ بنے۔سات برس اپنے عہدے پررہے پھر عالمی عدالتِ انصاف کے پہلے پاکستانی جج بن گۓ۔
پیسنٹھ کی جنگ میں دو احمدیوں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ کو بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرنے پرہلالِ جرات کا اعزاز ملا تھا۔
فزکس میں نوبل انعام یافتہ واحد پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام بھی احمدی برادری سے تعلق تھے۔
ہندو برادری
پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلےاسپیکراور پہلے وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کے ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھے۔سابق وفاقی وزیر رانا چندر سنگھ اورپاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس بھی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔پاکستان کے مشہورکرکٹر انیل دلپت اوردانش کنیریا بھی ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اقلتیوں نے پاکستان کے لئے بہت سی خدمات انجام دی ہیں مگر آج پاکستان میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔اس ملک میں گجرانوالہ میں احمدی برادری کے بچوں اور خواتین کو زندہ جلادیا گیا۔کبھی گوجرہ میں تو کبھی جوزف ٹاؤن لاہورمیں پوری مسیحی بستی کو جلا کر رکھ کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے.کبھی احمدیوں کی عبادت گاہ میں جمعہ کی عبادت کے دوران ان کا قتل عام کیا جاتا ہے تو کبھی پشاور میں چرچ کو بم دھماکہ سے اڑادیا جاتا ہے. کبھی پشاورمیں سکھ تاجروں کو قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی سندھ میں ہندوؤں کو تاوان کےلئےاغوا کیا جاتا ہے.سندھ میں ہندو خواتین کے اغوا اور زبردستی نکاح، ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کی وجہہ سے ہزاروں ہندو برادری کے افراد پاکستان چھوڑ چکے ہیں.مذہبی رواداری کا یہ عالم کہ احمدی برادری کو سلام کرنے اور شادی کارڈ میں بسم اللہ لکھنے پر قید کیا جا رہا ہے.خیبر ایجنسی کی واد ی تیراہ میں صدیوں سے رہنے والے سکھ برادری کے لوگوں کو جزیہ دینے پر مجبور کیا گیا پھر ان پر سماجی اور ثقافتی زندگی اتنی تنگ کر دی گئی کہ ان کو وہاں سے مجبوراً اجتماعی طور پر دیس بدر ہونا پڑا۔توہین مذھب کے قانون کا اتنا غلط استعمال ہورہا ہے کہ ذاتی دشمنی نکالنےکےلئےاقلیتی برادری پر توہین مذھب کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟قائداعظم تو تمام مذاہب ، تمام فقہوں اور مسالک کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک چاہتے تھے۔قائداعظم نے تو ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں مذھبی رواداری ہوگی اور جہاں اقلیتیں برابر کی شہری ہونگی.جہاں مذھب کے نام پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہوگا.مگر افسوس اب اس پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کا شہری کا حق دینا تو درکنار ان کا جینا محال کردیا گیا ہے۔وہ طبقہ جوقیام پاکستان اورتحریک پاکستان کامخالف تھا.اس نے قائداعظم کے وژن اورنظریات پرڈاکہ ڈال کرملک پر قبضہ کرلیا،پاکستان کے تمام محب وطن طبقوں کوپاکستان کواس قبضہ مافیاسے آزادکرانے کے لیئے جدوجہد کرنا ہوگی۔قائداعظم کے حقیقی خواب کی تعبیر اسی وقت ممکن ہےجب اقلیتوں کے جان ومال کا مکمل تحفظ ہو اور ان کو برابر کے حقوق دیے جائیں۔